جرمِ حضرتِ پاکستان اور ہندوستان ۔۔۔توبہ

قائدہ ہے کہ بیل آلہ زراعت ہے ،ہاتھیوں کا مگر فصلوں میں موجود ہونے پرسر تسلیم خم کرنے کا مطلب؟کم وبیش5 152ء سال ہوتے ہیں ۔کسی غستانی نے ایک جیرہ والے کے کان کاٹ کر اس سے اپنی جوتیاں سی لیں ۔معزز اور متوالا،جاہلیت اور اسلام کے دونوں زمانے دیکھنے والا شہرہ آفاق شاعر” لبید“ جس کے کلام سے خوش ہوکر حضرت عمرؓ نے 5سو درہم سالانہ وظیفہ مقرر فرما دیا تھا،اس نے ایسے دیدہ دانستہ مشقِ ستم پر اورایسی صاف صاف ناجائز و ننگی دیدہ دلیری پر یہ شعر کہا:
مخصف بالآ ذان منکہ نعالنا ونشرب کرھا منکم فی الحجاج
یعنی کا نوں سے جوتیوں کا کام لیا جائے اورکھوپڑی سے جامِ شراب کا

پھیلتے زوال کے اس گھٹا گھوپ اندھیرے میں ، ہندو انتہا پسند اور مسلم انتہا پسند طبقے کی طرف سے نظریہ پاکستان اور نظریہ بھارت کوجب موم کی ناک سمجھ کر ،تقسیمِ ہندوستان کا مطلب بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا محاذ ہمیشہ گرم رہے گا،اور ان کے درمیان اچھے تعلقات کی بات ایک طرح سے نظریہ پاکستان کی نفی ہے کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے ۔دوسری طرف ہیجان اور کشمکش کے کئی طویل اور تکلیف دہ عشروں کے بعد آخر کار ’ ’ سیفما“ کے پلیٹ فارم سے” نظریہ پاکستان“ کو ذاتی جاگیر سمجھ کر،اس کے تقاضوں کو روند نے والے بپھرے ہاتھیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے ان کے خلاف کلمہ ءحق بلند کیا جانا،اللہ کی آخری کتاب کے اس حکم پر چلنے کے مترادف ہے کہ”سچ بات کو جھوٹ کے پردوں میں نہ چھپاﺅاور اگر تمہیں سچائی کا علم ہو تو اس کو جان بو جھ کر اپنے تک نہ روکے رکھو“۔

تقسیمِ ہندوستان کا خواب وصل کی 15 اور 14کی درمیانی شب میں صاحبِ منزل ہوتا ہے تو اس کے قیام کے مقاصد ،جیسا کہ امن وامان کی سرزمین،اتحاد کی مثال،تعلیمی فروغ کیساتھ مذہبی ،سیاسی،معاشی،معاشرتی اور شخصی آزادی کے مقاصد کو عمل بنانا چاہئیے تھا۔مگر دھیرے دھیرے،آہستہ آہستہ،بڑی منصوبہ بندی مگر مذہبی و سیاسی پراپیگنڈے کے ساتھ، پاکستان کی تخلیق اور اس کے نظریے کے تقاضوں کو ،جو بھارت کا یار ہے غدار ہے غدار ہے ایسے نعروں، انتہا پسندی ،امن دشمنی ،تنگ نظری کی راہ کے بھارتی وپاکستانی حکومتی مسافروں کی سطحی مذہبی و سیاسی مفادات کی خاطر اور عوام کی جہالت،بزدلی ا ور غوروفکر سے ناطہ توڑ لینے کی وجہ سے، آج صورتحال یہاں تک آپہنچی ہے کہ ان کی مشترکہ کرتوتوں نے ہمیں ایک دوسرے کا دوست چھوڑا اور نہ ہمدرد۔البتہ ہم وطن پاکستانی مذہبی انتہا پسند بہت، حتیٰ کہ حق کی آواز اٹھانے والے اخبار نویسوں پر قاتلانہ حملے اور دھمکیاں ، بے گناہ لوگوں اورمسجدوں کوخودکش دھماکوں کے پیروں تلے روند دینے والے بپھرے ہاتھی حتی المقدور...

بخاطر تجربہ گاہِ اسلام، تاریخ میں جب پہلی بار اس ”لفظی نظریہ “کے تحت انڈیاو پاکستان کی سرزمین کو بقول اس تعجب خیز مگر قادر الکلام آدمی مولانا ابوالکلام آزاد، ناپاک اور پاک کے درمیان تقسیم کر دیا گیا، تو پھر بھی ان عظیم بانیانِ پاکستان و ہندوستان جناح و گاندھی جی کے زیرِ سایہ ابھی کیسے کیسے خوابوں کو تکمیل کے دریاﺅں سے سیر یاب ہو کر سنِ بلوغت کو پہنچنا تھا اور ان کے زیرِ نظر کیا کیا اصول کارفرما تھے؟کشت و خون کے بازار گرم کرنے کا خواب دیکھنے والے احسان فراموش غلط اندازِنظرنہ ڈالیں کہ:
پاکستان میں بھاررت کے پہلے ہائی کمشنر سری پرکاش نے اپنی کتاب PAKISTAN EARLY DAYSمیں لکھتے ہیں: ایک ملاقات کے دوران قائد اعظم نے اسے کہا کہ بھارتی حکومت ان کے گھر کی حفاظت کرے کیونکہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد ممبئی رہنا پسند کریں گے۔ قائد کے چیف سیکورٹی افسر ایف ڈی ہنسوٹیانے اخبار نویس منیر احمد منیر کودورانِ انٹرویو بتا یا کہ:زیارت میں ایک روز کھانے پر بیٹھے تھے ۔مظہر احمد نے سوال کیا سر کیا پاکستان اس شکل میں آپ کے تصور میں تھا؟قائد اعظم نے بولا :اگر مجھے تھوڑا سا بھی شک ہوتا کہ پاکستان اور بھارت اس شکل کا بنے گا،تو میں اپنا بنگلہ ایسے ہی نہ چھوڑ آتا۔ان کا مطلب تھا کہ تجارت و آمدورفت رہے گی۔گاندھی جی کے انتقال پر پاکستان میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوئی تھی اور قومی پرچم سر نگوں رہا تھا۔اور قائد اعظم نے کہا تھا غم کی اس گھڑی میں،میں ہندو قوم اور آنجہانی کے خاندان کے ساتھ اس سانحے پر تعزیت کا اظہار کرتا ہوں جو آزادی کے طلوع اور ہندوستان اور پاکستان کو آزادی کا سانس ملتے ہی وقوع پذیر ہو گیا ہے۔

گاندھی جی نے پاکستان کو اس کے اثاثہ جات فوری ادا کرنے کے حق میں مرن بھرت رکھا اور بھارتی حکومت کی مذمت کی۔چوہدری محمد علی مرحوم کے بقول گاندھی اس وقت اپنی زندگی کے آخری اور بلند ترین دور سے گزر رہے تھے اور انہوں نے اپنی ساری مساعی فرقہ وارانہ امن اور اتفاق بحال کرنے کووقف کر رکھی تھی۔ بعد از شہادت لیاقت علی خان، دہلی کے لال قلعہ میں سرکاری طور پر اظہار تعزیت کے لیے جلسہ عام منعقد کیا گیا، اس کی صدارت جمہوریہ ہند کے صدر راجندر پرشاد نے کی اور وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی اس سے خطاب کیا تھا۔ فیصلہ اب مگر آپ کا کہ کھوپڑی سے جامِ شراب کا کام لینا ہے یا بے تعصبی سے غورو فکر کا؟
Sajjad Azhar Peerzada
About the Author: Sajjad Azhar Peerzada Read More Articles by Sajjad Azhar Peerzada: 4 Articles with 3533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.