عوام کو جاگنا ہوگا

آج کل پاکستان کے ٹی وی چینلز پر دکھائے جانیوالے ٹاک شوزمیں اکثراوقات جن موضوعات پر گفتگو دیکھنے کو ملتی ہے اُن میں حکومت کی کرپشن ،عوام کی غربت اور حالت زار،ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اورآنیوالے انتخابات نمایاں ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد میڈیا کی وجہ سے آج قومی بلکہ عالمی سطح پر ہونے والا کوئی بھی واقعہ دنیاکی نظروں سے چھپانہیں رہ سکتالیکن یہاں دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ میڈیا کی اس آزادی اور بھرمار کے باوجود کہ جہاں آج سے دس بارہ سال پہلے صرف ایک سرکاری ٹیلی ویژن آٹھ آٹھ گھنٹوں بعدخبرنامہ جاری کرتا تھا وہاں آج ہر لمحے کیمرے کی آنکھ سیاستدانوں، بیوروکریٹوں اور فوجی جرنیلوں کی ایک ایک حرکت اور ایک ایک بیان کو چند سیکنڈوں میں بریکنگ نیوز کی صورت میں کروڑوں لوگوں تک پہنچادیتی ہے لیکن اس کے باوجود عوام کی بے چینی ہے کہ کم ہونے میں نہیں آرہی سب کچھ جاننے کے باوجود عوام خود کو بے بس ،بے خبر اور تنہا محسوس کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام پارٹیوں کے نمائندے اِن ٹاک شوز میں شرکت کرتے ہیں ایک دوسرے پر کرپشن، اقرباء پروری اور قانون شکنی جیسے سنگین الزامات لگاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اس طرح اِن پروگراموں سے عوام کو وقتی طور پرسستی تفریح تو مل جاتی ہے لیکن ان کے مسائل کا حل نکلتا نظر نہیں آتاکیوں کہ عام طور پر دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ اول تو یہ سیاسی بھائی ایک دوسرے پر جوالزام لگاتے ہیں جن کے اُن کے بقول اُن کے پاس ٹھوس ثبوت بھی ہوتے ہیں ان کو عدالت میں لے کر نہیں جاتے اور اگر لے بھی جائیں تو کیس کو اس قدر طول دیا جاتا ہے کہ اتنی دیر میں عوام یہ بھول جاتی ہے کہ کس نے کس پرکیاالزام لگایا تھاجس کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ ملک لوٹنے کے ایجنڈے پر یہ سب لوگ اکھٹے ہوچکے ہیں جب کہ عوام کی حالت دن بدن غیر ہوتی جارہی ہے یہاں ہم چند ایسے ہی نکات پیش کررہے ہیں جن پر اگر غورکیاجاتا تو پاکستان میں عوام کی حالت اتنی بری نہ ہوتی جتنی آج ہے اور نہ ہی آج دنیا ہماری ناکامی پر انگلیاں اٹھارہی ہوتی ۔

حکومت نے بینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے نام سے ایک امدادی پروگرام شروع کیا جس کیلئے 204ارب روپے کی بڑی رقم مختص کی گئی جن میں سے 105روپے تقسیم بھی کئے جاچکے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پروگرام سیاسی رشوت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا جسے حکومت کے جیالے ایم این اے اور ایم پی ایز اپنا ووٹ بنک بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ مستحق افراد محروم ہی رہ جاتے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ اس قدر بڑی رقم سے عوام کو براہ راست فائدہ پہنچانے کیلئے منہ زورمہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات کئے جاتے۔

حکومت نے ہر ماہ 200ارب روپے کے نوٹ چھاپے اس طرح 4سالوں میں00 96ارب روپے کے نوٹ چھاپے گئے جس سے روپے کی قدر میں کمی اورمہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ۔

حکومت غیرقانونی طورپر معاف کئے جانیوالے450ارب روپے اور ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر کرکے ایک ہزارارب روپے باآسانی قومی خزانے میں جمع کرسکتی تھی اوراس رقم کو عوامی فلاح بہبود پر خرچ کرکے بہترین نتائج حاصل کئے جاسکتے تھے ۔

پی آئی اے ،ریلوے اور پاکستان سٹیل جیسے ادارے جنہیں بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے ایک بار پھر ماضی کی طرح انتہائی منافع بخش اداروں میں تبدیل کیا جا سکتا تھا لیکن یہ غضبناک کرپشن ہی ہے کہ آج یہ ادارے منافع دینے کی بجائے سالانہ 500ارب روپے کے خسارے میں جارہے ہیں ۔

ڈاکٹرثمرمندمبارک کے بقول پاکستان تھر کول پروجیکٹ سمیت کئی دیگر منصوبوں سے نہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرسکتا تھا بلکہ اس طرح حاصل ہونیوالی بجلی انتہائی سستی بھی ہوتی اس طرح عوام کو لوڈشیڈنگ سے ہونیوالی ذہنی اذیت سے نجات بھی مل جاتی اور عوام کی معیشت بھی مضبوط ہوجاتی لیکن اس کے برعکس رینٹل پاور سٹیشنز کے سودے کئے گئے جس سے بجلی کی لوڈشیڈنگ تو ختم نہ ہوسکی البتہ بجلی کے محکمہ میں بیٹھے بڑے بڑے مگرمچھوں کو 50ارب روپے لوٹنے کا موقع ضرور مل گیا ۔

پنجاب حکومت نے بھی عوام کی حالت بدلنے کیلئے کوئی ٹھوس اور موثراقدامات کرنے کی بجائے سستی روٹی (المعروف سستی شہرت سکیم)اور سستا بازارسکیموں پر اربوں روپے جھونک دئے حالاں کہ ان منصوبوں سے صوبے کی کل آبادی کا فقط ایک فی صد سے زیادہ حصہ مستفید نہیں ہوسکا جب کہ اس سے کہیں بہترہوتا کہ حکومت کھادوں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں کمی جیسے اقدامات کرتی جس سے روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں کم ہوتیں اور اس طرح مہنگائی کم ہونے سے ہر غریب آدمی کو گھر بیٹھے فائدہ ہوتا۔

لیپ ٹاپ تقسیم پر70ارب روپے سے زیادہ سرمایہ خرچ کیا گیا جسے سیاسی و معاشی ماہرین واضح طور پر political economyاور انتخابات کی پبلسٹی کمپین کہہ رہے ہیں حالانکہ اس بڑے بجٹ سے پنجاب بھر کے خستہ حال سکولوں کی مرمت اور اساتذہ کی تعداد پوری کی جانی چاہئے تھی ۔یہ چند ایک وہ پوئنٹس ہیں جوٹاک شوز پر عموماََ ڈسکس ہوتے رہتے ہیں لیکن عوام اب یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ سب باتیں زبانی جمع خرچ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اوریہ سب جان بوجھ کر ایک دوسرے کو لوٹ مار کا موقع دے رہے ہیں اس لئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان سب ڈرامہ بازوں سے نجات حاصل کرنے اور اپنی حالت سدھارنے کیلئے عوام کوخود ہی فیصلہ کن کرداراداکرنا ہوگا اور آئندہ ہونیوالے انتخابات میں ایسی قیادت کو منتخب کرنا ہوگا جو جاگیردادارانہ سوچ سے دور ایک ایسی ایماندار قیادت ہو جوعوام کیلئے کرپشن سے پاک پاکستان تشکیل دے سکے-
mian zakir hussain naseem
About the Author: mian zakir hussain naseem Read More Articles by mian zakir hussain naseem: 44 Articles with 25893 views my name is mian zakir hussain naseem i live in depalpur pakistan but i also running a construction company zhn group in america i am also president pm.. View More