مجھے نہیں معلوم کہ آنے والے
دنوں میں وطن عزیز میں مزید کیا ہوگا،قوم کو کوئی خوشخبری ملے گی یا
خدانخواستہ پھر کوئی بری خبر برداشت کرنا پڑے گی! ۔
فی الحال بات کرتے ہیں طیاروں کے ان حادثات کی جن کا تعلق پاکستان سے نہیں
ہے لیکن ان حادثات کے بعد حکمرانوں نے کیا کیا اور عوامی نمائندوں کا کیا
ردعمل رہا۔
فروری 2002 میں روسی ساخت کا طیارہ تہران میں گرکر تباہ ہوا اس حادثے میں
117افراد ہلاک ہوئے حادثے پر ایرانی کابینہ نے اپنے ساتھی رکن احمد قورام
سے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔
کویت کے وزیر ٹرانسپورٹ نے ایران میں ہونے والے طیارے کے حادثات پر اس لئے
اپنے آپ کو ذمہ دار قرار دیا کہ شائد یہ حادثات کویت آئیل ٹرمینل کے عملے
کی غفلت کا باعث ہوئے ہیں کیونکہ یہ حادثات طیاروں میں آئیل بھرنے کے بعد
کی جانے والی پرواز میں ہوئے اس لئے انہوں نے اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھا اور
عہدے سے استعفی دیدیا۔
ٓاپریل 2010 میں پولینڈکا روسی ساخت کا ایک طیارہ روس کے شہر Smolensk میں
گر کر تبا ہ ہوگیا اس حادثے میں پولینڈ کے صدر Lech Kaczynski سمیت96 افراد
ہلاک ہوگئے ابتدائی طور پر یہ ہی بتایا گیا تھا کہ یہ حادثہ پائلٹ کی غلطی
سے ہوا ہے اس واقعے کی تحقیقات ہوئی اور تحقیقات سے بھی یہ بات ثابت ہوئی
کہ حادثہ انسانی غلطی کا پیش خیمہ ہے دوسری طرف روس اس حادثے کی ذمہ داری
پولش حکومت پر ڈال رہاتھا پولینڈکے اس وقت کے وزیر اعظم ڈولینڈ ٹسکDonald
Tusk نے اپنی حکومت کے وزیر دفاعBogdan Klich کا استعفٰی منظور کرلیاجو
انہوں نے حادثے فوری بعد پیش کردیا تھا۔
پاکستان میں 65 19سے اب تک ہوائی جہازوں کے15حادثات ہوئے جس میں مجموعی طور
پر978 افراد ہلاک ہوئے اہم بات یہ کہ کسی بھی حادثے کی وجوہات کا نہ تو
تعین کیا جاسکا نہ ہی ان کی تحقیقات کا کچھ پتا چل سکا اور نہ ہی کسی کی
بھی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے یا کسی بھی حکومتی شخصیت کی جانب سے ان
حادثات پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کی کوئی مثال تاحال قائم کی۔
ملک میں آج تک کسی نے بھی حساس دل رکھنے کا ثبوت دیا اور نہ ہی لوگوں سے
محبت اور اظہار ہمدردی کرنے کے لئے ایسا غیرت مندانہ کام تاریخ میں ابھی تک
کیاجس کی مثال بیان کی جاسکے۔
کیونکہ ہمارے حکمران جو کچھ کرکے اقتدار حاصل کرتے ہیں اسے آسانی سے
گنوادینا ایک بےوقوفانہ اور ہر طرح سے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔
20اپریل کو بھوجا ائیر لائن کا حادثہ رونماءہونے کی کوئی اور وجہ ہو یا نہ
ہو لیکن ایک بڑی وجہ یہ ضرور ہے کہ آج تک کسی بھی حادثے کے ذمہ داروں کا
واضع طور پر تعین نہیں کیا جاسکا اور نہ ہی وجوہات کا پتا چلاکر اسطرح کے
حادثات کی روک تھام کے لئے کوئی فیصلہ کن اقدام کیا جاسکا جس کے باعث ایسے
حادثات کا سلسلہ جاری ہے نہ جانے کب تک ایسی غلطیوں پر یکمشت سینکڑوں
انسانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ہمارے ہاں اپنی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈالنے یا وقت کو پاس کرنے کے لئے جس
قدر حکمران سرگرم رہتے ہیں اگر اتنا ہی وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے
لئے سرگرم ہوجائیں تو شائد اس طرح کے واقعات کا سلسلہ ختم تو ہوجائے جس میں
حادثات کے بعد کسی بھی قصور وار کا پتہ بھی نہ چل سکے۔
ملک کی فضائی حدود میں ہوائی جہاز 1946سے اورینٹیڈ ائیر ویز کے نام سے اڑ
رہے تھے یہ ہی اورینٹیڈ ائیرویز 23اکتوبر 1946کوکلکتہ انڈیا میں رجسٹر ڈ
کرائی گئی اور اسی کو پاکستان کے قیام کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن
کمپنی بناکر مارچ 1955میں ضم کردیا گیا, گو کہ اپنے قیام کے صرف دس سال بعد
1965میں پی آئی اے حادثے کا شکار ہوئی لیکن افسوس آج بھی اس ادارے کی حالت
وہ ہے جیسے کل ہی قائم ہوا ہو جبکہ پورا ایوی ایشن کا شعبہ بھی چیونٹی کی
طرح رینگ رہا ہے۔ پاکستان میں ائیر کریش کے آٹھ واقعات کا تعلق پی آئی اے
سے ہے جبکہ دیگر حادثات کا تعلق نجی یا فورسز سے ہے،ایسا ہی ایک حادثہ
17اگست 1988کو ہوا جس میں ملک کے صدر اورآرمی چیف جنرل ضیاءالحق اپنے
امریکی ”دوستوں“سمیت 30 افراد کے ساتھ چل بسے۔
قوم کو شدید دکھ اس بات کا ہے کہ اس حادثے کے بھی ذمہ داروں کا پتہ نہیں
لگایا جاسکا۔تحقیقات ہوئی اور ہوتی گئی اور بغیر نتیجہ کے نہ جانے کب ختم
ہوگئی۔
ذرا غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ بھوجا ائیر لائن کے حادثے کو وزیراعظم یوسف
گیلانی نے سپریم کورٹ سے توہین عدالت کی ”تاریخی سزا “پانے سے ہونے والی
ہلچل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پس منظر میں ڈال دیا،اگر کوئی غیرت مند وزیراعظم
یا حکومت ہوتی تو ان دونوں واقعات ہی کو” ڈوب مرنے“کا مقام قرار دیکر ملک
اور قوم کی جان جو چھوڑدیتے ۔
گیلانی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قومی اسمبلی میں یہ کہہ گئے کہ انہیں یہ سزا
آئین کا تحفظ کرنے پر ملی ہے ، انہیں وزارت عظمٰی سے صرف اسپیکر ہٹاسکتی
ہیں اور وہ ہی ان سے استعفیٰ طلب کرسکتی ہیں۔
اگر آئین کے تحت فیصلہ کرنے میں آزاد اور کسی پارٹی کے بجائے قومی اسمبلی
کے اسپیکر کی سیٹ پر آزاد شخصیت اس عہدے پر ہوتی تو شائد وزیراعظم گیلانی
کو یہ جملے کہنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ملک
کی اعلیٰ ترین عدالت کا فیصلہ سمجھ کر اسی دن وزیر اعظم کی نااہلی کا
نوٹیفیکشن جاری کرکے عدلیہ اور اپنے عہدے کے وقار کی لاج رکھ لیتی۔
بات ملک میں ہوائی جہازوں کے حادثات کی ہورہی تھی لیکن ہم بحیثیت قوم جن
کریشز کا سامنا اور دوسرے دن کررہے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ہم خود، ہمارے
حکمران اور ہمارے سیاست دان ہیں کاش کوئی انہیں غیرت مند بناسکے اور ہم سب
کو کچھ نہ سہی تو کم از کم بے غیرت اور بے حس لوگوں سے نمٹنے کا طریقہ
سمجھاسکے!
تاکہ ہم آئندہ ہمیشہ کے لئے ایسے واقعات کا تدارک کرسکیں۔ |