لیاری دوسرا بلوچستان نہ بن جائے....؟

کراچی کے علاقے لیاری میں کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے خلاف گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ مذکورہ علاقہ محاذ جنگ کا منظر پیش کررہا ہے۔ جمعے کی صبح سے شروع ہونے والے آپریشن کے بعد حالات انتہائی دگرگوں ہوچکے ہیں۔ جب کہ بعض مقامات پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سخت مزاحمت کا سامناہے۔ دہشت گرد دستی بموں اور راکٹوں سے حملے کررہے ہیں۔

دوسری جانب کراچی سٹی الائنس نے کراچی میں سوات طرز کاآپریشن کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ امن صرف لیاری میں نہیں، پورے شہر میں فوجی آپریشن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اے این پی سندھ کے صدر اور سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ جو کچھ لیاری میں کیا جارہا ہے اس سے کبھی بھی امن قائم نہیں ہوگا۔ انہوں نے لیاری میں آپریشن کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اندھا دھند طاقت کے استعمال کی بجائے لوگوں کی محرومیاں دور کی جائیں۔

کچھ عرصے سے لیاری کے عوام مسلسل ظلم و جبر، تشدد، خونریزی اور خوف و ہراس کاشکار ہیں، کاروبارِ زندگی معطل ہے۔ حالاں کہ لیاری پی پی کا مضبوط گڑھ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں کے عوام کئی عشروں سے پیپلزپارٹی کے گن گاتے رہے ہیں۔اس کے باوجود پی پی دورِ حکومت میں یہاں قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ حالیہ آپریشن سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے لیاری سے کالعدم پیپلزامن کمیٹی کو نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پی پی پہلے پیپلز امن کمیٹی کی پشت پناہی کرتی رہی، اب اسے محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ لوگ کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں، اور یہ خدشہ پیدا ہوگیا کہ کالعدم امن کمیٹی پیپلزپارٹی کا ایک باغی گروپ بن کر آیندہ انتخابات میں مشکلات کھڑی نہ کردے، شایداسی لیے اب لیاری میں فیصلہ کن جنگ لڑی جارہی ہے۔

پی پی قیادت آیندہ عام انتخابات سے قبل لیاری پر قابض گروپ کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے، لیکن اس اقدام سے پیپلزپارٹی کو نقصان ہورہا ہے کہ جو لوگ عشروں سے پی پی کا ساتھ دیتے آرہے ہیں آج وہ اس کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور کھلے عام اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم گیلانی کو مجرم قرار دیے جانے کے خلاف لیاری کے جیالوں نے میڈیا پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ ہم عدالت کے فیصلے کے خلاف کیوں احتجاج کریں۔ ہم جیالے ہیں لیکن کسی کے غلام نہیں ہیں اور اب ہمیں شعور آگیا ہے۔ لیاری میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے راقم کے ساتھ گفتگو میں یہی شکوہ کیا کہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی ہمارے ساتھ ناروا سلوک آخر کس بنیاد پر کیا جارہا ہے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول کو لیاری کے حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

قبل ازیں پی پی کے علاقائی نائب صدر حسن سومرو اور اب ایک اور رہنما ملک محمد خان کو قتل کیا گیا۔ جب کہ پی اے سی کے صدر عزیر بلوچ بھی خاصے برہم ہیں، انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو تین طلاقیں دے چکے اور اب حلالہ ممکن نہیں۔ شنید ہے کہ مسلم لیگ ن سندھ کے نائب صدر سید غوث علی شاہ نے سردار عزیر بلوچ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں انہیں پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے جس کا عزیر بلوچ نے وقت آنے پر جواب دینے کا کہا ہے۔ اسی طرح دیگر جماعتوں کے کالعدم امن کمیٹی سے رابطوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

اس سے محسوس ہوتا ہے کہ جیالے اپنی قیادت سے ناراض ہیں۔ رواں ماہ 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر بھی جیالوں نے خاموش احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ کئی برسوں بعد اس سال پہلی مرتبہ بھٹو کی برسی پر لیاری سے کوئی گاڑی نہیں گئی، جب کہ اس سے قبل یہاں سے بیسیوں گاڑیاں جایا کرتی تھیں۔ لیاری کے مکینوں کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کی فرمائش پر پی پی رہنما نبیل گبول اور ایس پی سی آئی ڈی چودھری اسلم کے ذریعے بلوچوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ غور کریں تو یہی حالات بلوچستان میں بھی نظر آتے ہیں۔

ہمیں یہ بات ماننا پڑے گی بلوچستان میں عوام کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں، حکمرانوں کے غیر مقبول فیصلوں کی وجہ سے بلوچ عوام کا احساس محرومی بڑھا ہے یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک زوروں پر ہے۔ وہاں کے عوام کو بھی آگ و خون کی دلدل میں مسلسل دھکیلا جارہا ہے۔ جب کہ لیاری میں اکثر آبادی بلوچ ہے۔ لیاری میں آپریشن کے بعد یہ تاثر پختہ ہوتا جارہا ہے کہ بلوچ قوم کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ جس کے باعث ملک و قوم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

دوسری جانب ایک اور سانحے کی کڑی بھی اس سے ملتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکر بلوچستان نے قبول کی، جو ظاہر ہے کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچستان میں مذموم کارروائیاں کرنے والی تنظیمیں اب دیگر صوبوں میں بھی حملے کی پوزیشن میں آگئی ہیں۔ ان کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پنجاب کے دارالحکومت میں بھی دن دہاڑے دہشت گردی کرواسکتی ہیں۔

پیپلزپارٹی کو چاہیے تھا کہ وہ لیاری میں انتہائی اقدام اٹھانے کی بجائے مذاکرات کے ذریعے کوئی معاہدہ کرواتی اور اس میں ناکامی کی صورت میں پورے کراچی میں بلاتخصیص آپریشن کیا جاتا۔ اگر آپریشن کرنا ہی ہے تو پھر اس کا دائرہ کار شہر بھر تک پھیلا جائے۔ صرف ایک مخصوص علاقے میں کارروائی سے بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریک کو بھی ایک نیا جواز مل جائے گا۔ لہٰذا لیاری کے عوام کو اپنی سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ وزیر داخلہ سندھ منظور وسان کی تبدیلی میں بھی لیاری کے قضیے نے کردار ادا کیا۔ ان پر دباﺅ تھا کہ وہ لیاری میں بھر پور آپریشن کرکے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کا لیاری سے اثر و رسوخ ختم کروائیں، لیکن وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اسی لیے وہ ایک ماہ کی رخصت پر چلے گئے ہیں۔ اس سے قبل جب سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کو ہٹایا گیا تھا تو انہیں بھی ایک ماہ کی رخصت پر بھیجا گیا تھا، بعدازاں ان کی جگہ منظور وسان نے صوبائی وزارت داخلہ کا چار ج سنبھالا تھا۔

پیپلزپارٹی کی پالیسیوں سے ملک میں عصبیت اور لسانی فسادات کی آگ بھڑک رہی ہے جس کی وجہ سے پورے ملک میں خانہ جنگی کا سماں پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ نااہل قیادت نے ملک کو اس تاریک دور میں کھڑا کردیا ہے کہ اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں آج وہی حالات ہیں جو تقسیم ہند کے وقت ہندو مسلم فسادات کی صورت میں پیش آئے تھے۔ آج ایک مسلمان اپنی سر زمین پر اپنے لوگوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی محفوظ نہیں ہے۔ نہ جانے یہ سیاہ رات کتنی طویل ہے اور امن و بھائی چارے کا سورج کب طلوع ہوگا؟
Usman Hassan Zai
About the Author: Usman Hassan Zai Read More Articles by Usman Hassan Zai: 111 Articles with 86394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.