پنگے بازیاں

بقلم
طلحہ السیف
شیخ سعدی(رح) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’گلستان‘‘ میں ایک شعر لکھا ہے،
ہر بیشہ گماں مبرکہ خالیست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
﴿ہر جنگل کو خالی گمان مت کرو، شاید کوئی درندہ سویا ہوا ہو﴾

دراصل یہ ’’پنگے باز‘‘ لوگوں کو نصیحت ہے کہ ہر طبقے کو مردہ سمجھ کر دیدہ دلیری نہ دکھایا کریں ممکن ہے کہیں کوئی سویا ہوا شیر جاگ جائے اور پنگا بھاری پڑ جائے۔

لیکن جن لوگوں کو پنگے لیتے رہنے کی عادت پڑ جائے وہ اس طرح کے خطرات پر کم و بیش ہی توجہ دیا کرتے ہیں اور نتیجۃً اکثر سوئے ہوئے شیروں کو بیدار کر بیٹھتے ہیں۔

مثلاً حکمرانوں کو ہی لے لیجئے ! جب بھی کسی حکمران کا وقت موعود آپہنچتا ہے اس سے یہی غلطی سرزد ہوتی ہے، تاریخ کے صفحات زیادہ دور جا کر کھنگالنے کی بجائے پچھلے تین حکمرانوں کے حالات پر ہی نظر کر لیجئے، تینوں نے اپنی پنگے بازی کی ’’کھرک‘‘ مٹانے کیلئے ایسی جگہوں پر طبع آزمائی کا ارتکاب کر لیا جہاں سے واپسی ممکن ہی نہ ہو سکی، مثلاً فوج بیوروکریسی وغیرہ، ان میں سے دو تو اپنی حرکتوں کا راگ اٹھا کر ’’ناصحین‘‘ کے مقام پر فائز ہو چکے ہیں اور اب صبح و شام آئندہ پنگے نہ کرنے کا عہد دہراتے ہیں اور دوسروں کو بھی ان حرکتوں سے بچنے کی تاکید کرتے رہتے ہیں بقول کسے
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

تیسرے کی عمر البتہ دراز ہوئی اور بڑے بڑے پنگے ہضم کر گیا، پاکستان میں موجود ہر طبقے سے زور آزمائی کی ، اور ہر ایک کے ساتھ دست اندازی کی مگر خلاف توقع نتائج حق میں ہی ملتے رہے، وزیرستان کا مسئلہ گلے میں اٹکنے لگا تو روپے پیسے کی خاطر نظریات بدلنے والوں نے مشکل آسان کر دی، اکاؤنٹس کے نہ کھلے ، فتووں کے نام سے کچھ جعلی کاغذ تقسیم ہوئے، لشکر قائم ہوئے اور ٹیڑھی ہوتی ہوئی کھیر بآسانی حلق میں اتر گئی، بلوچستان کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہوا، بغاوت کا علم تو کئی سرداروں نے اٹھایا تھالیکن ایک پہ غارگری تو بقیہ سب پر خاک پڑ گئی، آخر کون برداشت کرتا ہے کہ اس کی قیمتی عینک اور گھڑی اس طرح خاک آلود ہو اور نمائش لگا کر صحافیوں کو دکھائی جائے تو عزت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

اس طرح گلے کی ہڈی بنتا ہوا مسئلہ بلوچستان ’’شامی کباب‘‘ کی طرح زودہضم ثابت ہوا اور حکمرانوں کے پیٹ میں مروڑ بھی نہ اٹھا، اس ساری پنگابازی کو کامیابی سے ہمکنار ہوتے دیکھ کر حکمران صاحب کو انتہائی کمزور نظر آنے والے دو طبقوں سے بھی دو دو ہاتھ کرنے کی سوجھی لیکن. یہاں گلستان والا شیر سویا ہوا تھا، جامعہ حفصہ(رض) کو منتقل کرنے اور زمین خالی کرنے کے آرڈر بھجوانے والی حکومت کا خیال یہ تھا کہ دیگر ائمہ مساجد کی طرح یہ لوگ بھی بلڈوزروں کے آگے سے ہٹ جائیں گے اور مدرسہ مسمار کرنے کے بعد مذاکرات کے ذریعے انہیں کسی ’’دوسرے حل‘‘ پر راضی کر لیا جائے گا لیکن ہوا یوں کہ اب دو سال کے اندر اندر جو دیگر ساٹھ مساجد شہید کر کے اسلام کو ’’اسلام لیس‘‘ کرنا تھا وہ منصوبہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے، اور بونس میں دارالحکومت میں شرعی عدالتوں کا قیام اور نفاذ اسلام کی تحریک مفت ہاتھ آئے ہیں جبکہ شیر ابھی تک بیدار ہیں اور ان کے عزائم بھی خطرناک ہیں، اسی طرح استعفوں کے مطالبے پر ہر طرف پورے ہوتے دیکھ کر چیف جسٹس سے بھی مطالبہ کر بیٹھنے کا انجام آپ سب حضرات کے سامنے ہی ہے، مجھے تو آج کل اخبار پڑھ کر اور خبریں سن کر حکمران صاحب کے لہجے کے 90ڈگری بدلاؤ نے حیران کر رکھا ہے، کچھ عرصہ پہلے جس شخص کا لہجہ کچھ یوں ہوتا تھا کہ ’’میں ایسی جگہ سے ماروں گا کہ پتہ بھی نہیں چلے گا‘‘ ’’میرے ساتھ فوج ہے سب کو دیکھ لوں گا‘‘ ’’جو بہتر سمجھتا ہوں کرتا ہوں مجھے کسی کی پرواہ نہیں‘‘ ’’عوام نے میرے حامیوں کو منتخب نہ کیا تو برا ہوگا‘‘ ’’ریفرنس نیک نیتی پر مبنی ہے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
اور اب تنبورے کی صدا کچھ یوں ہے،

’’عوام سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے حامیوں کو منتخب کرائیں‘‘ ’’میرے ساتھ عوام کی طاقت ہے‘‘ ’’کچھ کام مقبولیت پر اثر انداز ہوئے‘‘ ’’آپ کیا کہتے ہیں میں قانون توڑنے والوں کو ماروں؟ ان پر گولیاں برساؤں؟‘‘
’’ریفرنس میں فیصلہ خلاف ہوا تو میرے لئے رونے کا مقام ہوگا‘‘

آج تک صدر صاحب عوام پر احسان جتلاتے رہے کہ میں نے امریکہ کی حمایت کا بروقت فیصلہ کر کے ملک و قوم کو بچایا ، اپنی پالیسیوں کے ذریعے ترقی کی راہ پر گامزن کیا، ایک بھکاری قوم کو اس قابل بنایا کہ وہ لینے کے بجائے دینے والوں میں شامل ہوئی، ہم نے بھیک نہیں مانگی، کشکول توڑ دیا وغیرہ وغیرہ، اسی طرح انہوں نے اپنی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ انہوں نے اور کئی اہم شخصیات نے امریکی ’’غلامی‘‘ کے عوض رقمیں بھی وصول کی ہیں، جبکہ آجکل انکا لہجہ کچھ یوں ہے، ’’ میں نے قوم کے لئے بھیک مانگی میری خدمات کو فراموش نہ کیا جائے‘‘ میں نے امریکہ وغیرہ سے جو رقوم لیں خزانے میں عوامی ترقی کیلئے جمع کرا دیں‘‘ سنا ہے کہ آخری کابینہ اجلاس میں تو حامیوں نے کچھ گرماگرم بھی سنائیں اور صدر صاحب نے ہمیشہ کی طرح انہیں ڈانٹ کر چپ کرانے کی بجائے متحد رہنے اور حکومتی پالیسیوں کی حمایت کرنے کی اپیل کی ، انہوں نے چوہدری صاحب سے درخواست بھی کی کہ آئندہ کامیابی چاہئے تو حامیوں کی صلح کرائیں، اور یہ سب گلستانِ سعدی نہ پڑھنے کی وجہ سے ہوا، اگر انہوں نے یہ شعر پڑھا ہوتا تو سوچ سوچ کر پنگے کرتے، سنا ہے کہ آجکل بہت سوچتے ہیں اور بعض انتہائی ضروری قسم کے پنگوں سے بھی پرہیز برت رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایک اور بہت معروف پنگے باز شخصیت ہے، جوکہ آجکل ملک سے باہر ہے لیکن اس کے پنگے برابر چلتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر پر بزور کلاشنکوف اس کا قبضہ ہے اور وہاں بسنے والا کوئی طبقہ اس کی دست درازی سے محفوظ نہیں رہا ، پچھلے کچھ عرصے سے اسے شوق چرایا کہ اس شہر سے نکل کر اب پورے ملک میں کچھ اثر رسوخ بنانا چاہئے اس مقصد کیلئے پنگے بازی ترک کر کے شریفانہ اور اتحاد پر مبنی نقاب لگا کر اس نے پورے ملک میں اثرات پھیلانا شروع کر دیئے، لیکن یہ احتیاط بقیہ ملک کیلئے تھی کراچی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے یہاں کے لوگوں کے ساتھ بدستور پرانا معاملہ ہی بحال تھا، بارہ مئی کو حکومت کے کہنے پر اس نے بھی جنگل کو خالی سمجھتے ہوئے خوب جنگل راج نافذ کیا لیکن اس بار اس کے ساتھ معاملہ گلستان والا ہی ہو گیا۔

ہوا یوں کہ ’’پنگا‘‘ ایسی قوم کے ساتھ پڑ گیا جس کے بارے میں ہر قوم کے بڑے اپنے چھوٹوں کے پنگا نہ کرنے کی وصیت کر کے رخصت ہوتے ہیں، اب صاحب کی زبان بند ہے، دفتر بند ہیں، مرکز بند ہے اور بدمعاشی بھی تاحال تو بند ہی ہے، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ کو منت کر کے ملاقات کی گئی ہے کہ اپنی قوم کو سمجھائیں اور ہماری معافی قبول کرائیں، اتنا برا حال ہوا ہے کہ اپنے شہر میں قومیت بتاتے ہوئے گھبراتے ہیں اور صفائیاں پیش کرنے بھی اسلام آباد آتے ہیں شہرمیں قائم حکومت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے اور عدالتوں نے بھی اب منہ چڑانا شروع کر دیا ہے۔ اور اسی قوم سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی لیڈر نے تو ان کی نیندیں ہی اڑا دی ہیں، جی ہاں! عمران خان نے اس شخص کو اس انداز میں للکارا ہے جو اس کیلئے آج تک ناقابل برداشت رہا ہے ، وہ اس انداز سے مخاطب کر رہا ہے جس کی جرأت حکمرانوں کو بھی نہیں ہوئی، اس نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ وہ اس کی پناہ گاہ یعنی برطانیہ جا کر اس کے خلاف کیس کرے گا، اس کی دہشتگردی کو بے نقاب کرے گا، اس کے خونی ہاتھ ننگے کرے گا، الطاف حسین کو آج تک سیاست کے میدان میں اس طرح کے چیلنج کا سامنا نہیں ہوا لیکن اﷲ تعالیٰ کے اپنے فیصلے ہیں وہ اس طرح کے لوگوں کو کبھی اپنے طبقے سے ہی رسوا کراتا ہے سو الطاف حسین کو آج کل اسی صورتحال کا سامنا ہے، وزیرستان کے لاکھوں قبائلیوں نے اس کے حق میں مسلح مظاہرہ کر کے اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ الطاف حسین عمران کے بارے میں وہ سوچنے کی کوشش نہ کرے جو وہ عموماً اپنے مخالفین کے بارے میں سوچتا ہے ، یہ شہر ایسے جنگل سے بیدار ہوا ہے جس میں شیر بھی گدھے سے زیادہ بے ضرر ہو جاتے ہیں اور چرسیوں سے زیادہ کاہل، پختونوں کے ساتھ پنگے بازی کرنے والوں کے انجام پر ایک لطیفہ یاد آ گیا آپ بھی سنئے!

ایک ہندو ڈاکو گھوڑے پر سوار ، ہاتھوں میں کنگن ، گلے میں سونے کی مالا بڑے طمطراق سے گاؤں میں داخل ہوا، لوگوں نے پوچھا لالہ جی ! کیا بات ہے بڑی اکڑ میں ہیں؟ کہنے لگا کیا پوچھتے ہو! سکھوں کے ہاں حملہ کیا تھا سارا مال لوٹ آئے ہیں مزے ہی مزے ہیں۔

کچھ عرصہ بعد یہی ڈاکو پھٹے ہوئے کپڑے ، خون بہتا ہوا چہرہ لئے گھسٹتا گھسٹتا گاؤں میں داخل ہوا ، لوگوں نے پوچھا :لالہ جی ! اب کیا ہوا؟ کہنے لگا نہ پوچھو! ڈاکہ ڈالنے گئے بے خبری میں پختونوں کے گاؤں میں گھس گئے..

ویسے حکمران صاحب کو چاہئے کہ گلستانِ سعدی کا درس خود بھی لیں اور سیاستدانوں کیلئے بھی لازمی قرار دیں خصوصاً پنگے باز طبیعت کے حامل سیاستدانوں کیلئے تاکہ بندے کو معیار پر پرکھ کر اس سے دو ہاتھ کیا کریں اور اگر آئندہ پنگے کرنے کی مہلت ملے تو احتیاط کو بروئے کار لاتے ہوئے کریں۔
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155822 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More