تاریخی وزیراعظم

خدا خدا کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ وفاقی حکومت کا چوتھا پارلیمانی سال بخیر و خوبی مکمل ہو گیا ہے۔ کروڑوں پاکستانیوں کے منتخب عوامی جمہوری وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی تاریخ میں طویل ترین عرصہ وزیر اعظم رہنے کا ریکارڈ قائم کرکے عوامی ،اجتماعی شعور کی ارفع تربڑھوتری کی نشان دہی کی ہے۔عوامی حکومت کا چوتھاجمہوری سال متعدد نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ کے گہرے جھٹکوں کے باوجود خیر خیریت سے گزرنے پرحکمرانوں کو نماز شکرانہ ادا کرنی چاہئے۔عدلیہ اور فوج سے چشمک کے باوجود سیاسی قوتوں کی جمہوریت سے گہری وابستگی حکومت کے استحکام اور جمہوریت کی مضبوطی کا سبب بنی ہے۔وطن عزیز کی تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں نے فوج کی بجائے پارلیمنٹ کا ساتھ دے کرجس نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھی ہے وہ لائق صد ستائش ہے۔تجربات و حوادث کی بھٹیوں سے گزر کر بالآخر سیاستدانوں نے پہلی مرتبہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اپنا کندھا پیش نہ کرکے جمہوریت نوازی کا ثبوت دیا بلکہ چند قدم آگے بڑھ کر سیاسی راہنماؤں نے خفیہ قوتوں کو ایسی آنکھیں دکھائیں کہ انہیں میمو گیٹ کے جال میں پھنسے ہوئے شکار کو بھی چھوڑنا پڑا۔تمام پارلیمانی جماعتوں نے جمہوری نظام کو بچانے کیلئے کسی بھی غیر آئینی تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔اس قومی سیاسی اتفاق و یکجہتی کا ثمر یہ ملا کہ حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر بیسویں آئینی ترمیم منظور کرکے تاریخی کارنامہ سر انجام دے دیا۔اس ترمیم کے تحت غیر جانب دار نگران حکومت کے قیام اور بااختیار الیکشن کمیشن کے انتخاب کا سنگین مسئلہ حل کر دیا گیاہے۔ایبٹ آبا میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد حکومت اور فوج میں کشیدگی پیدا ہوئی مگر حکومت نے کمال دانش مندی سے فوجی قیادت کو پارلیمنٹ میں جوابدہ کرکے تندوتیز سوالات کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا۔یہاں تک کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے تنگ آ کر مستعفی ہونے اور خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کو بنانے کی پیشکش کر کے نئے سیاسی حالات کا ادراک کرتے ہوئے جمہوریت کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔حکومت نے ایبٹ آباد کمیشن بنا کر فوج کو ناراض کر دیاتو ادھر فوج نے متنازعہ میمو گیٹ سکینڈل میں حکومت پر دباؤ بڑھا دیا۔عدلیہ اور میڈیا نے بھی حکومت کے خلاف جلتی پر تیل ڈالا حتیٰ کہ حکومت کے دن گنے جانے لگے۔ناکام سیاسی اداکاروں ،آمریت پسندوں اور جمہوریت دشمنوں کی جانب سے حکومت گرنے کی تاریخوں پر تاریخیں دی جانے لگیں۔بعض صحافیوں اور کالم نگاروں کے کانوں میں فوجی بوٹوں کی دھمک سنائی دینے لگی۔ ہر وقت فوجی مداخلت کا خطرہ سر پہ منڈلانے لگا۔ فوج،عدلیہ اورمیڈیا کے بے پناہ دباؤ کے باوجودعوامی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ میں کمال جرأت اور دلیری سے دھمکی دی کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں بننے دیں گے۔تمام ادارے پارلیمنٹ کے ماتحت اور جوابدہ ہیں۔اسامہ بن لادن کس ویزے پر پاکستان آیا تھا۔؟صدر زرداری نے وزیر اعظم کے ذریعے ترپ کا پتہ کھیل کر ہاری ہوئی بازی کا پانسہ پلٹ کرجیت اپنے نام کرلی۔ انہوں نے مفاہمت کے شہد اور مصالحت کی چٹنی سے جمہوری نظام کو سہارا دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے جواب میں پارلیمنٹ نے سپر پاور امریکہ اور نیٹو افواج سے ٹکر لیتے ہوئے نیٹو سپلائی بند اور شمسی ائیر بیس خالی کرا کے تاریخی جرأت سے کام لیا۔حکومت نے چوتھے سال میں قومی اسمبلی میں 28 اور سینٹ میں37 قانون منظور کرکے ایک اور میدان مار لیا۔ان قوانین میں صوبوں کو بااختیار بناتے ہوئے صوبوں کو اپنے بجلی گھر قائم کرنے،صارفین اور انسانی حقوق کمیشن،خواتین کے حقوق سمیت متعدد قوانین اور بیسویں ترمیم منظور کرکے شاندار کارنامے انجام دیئے گئے۔سینٹ کے انتخابات کا انعقاد بھی نہائت اہم حکومتی کامیابی ہے۔اپوزیشن کی سازشوں ، عدلیہ اور میڈیا کی معاندانہ سرگرمیوں کے باوجود حکومت سینٹ کے انتخابات کا مرحلہ بھی کامیابی سے طے کر گئی ہے۔چوتھے سال کے اختتام پرحکومتی کارکردگی کا بغور جائزہ لیا جائے تویہ سال جمہوریت کی مضبوطی کیلئے نہائت اہم رہا ہے۔صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ سے پانچویں مشترکہ خطاب میں وزیر اعظم کی شاندار کارکردگی پر روشنی ڈالی۔بے پناہ مشکلات کے باوجود جمہوری حکومت نے اگرچہ بعض شاندار اور یادگار کارنامے سر انجام دئیے ہیں تاہم بجلی،گیس کی لوڈشیڈنگ ،پٹرولیم مصنوعات میں ناقابل برداشت اضافہ ، بیروزگاری اور کمر توڑ مہنگائی نے تمام حکومتی اقدامات اور گڈگورننس پر پانی پھیر کر اپنی ساکھ تباہ کر لی ہے۔مہنگائی اور بیروزگاری کے شکار غریب عوام کی اکثریت پی پی پی کی حامی اور ووٹر سپوٹر ہے۔چوتھا سال تو جیسے تیسے گزر گیا ہے ۔حکومت کے آخری پانچویں سال میں بھی اگر غریبوں کو مہنگائی میں ریلیف نہ ملا تو اگلے انتخابات میں حیران کن نتائج منظر عام پر آ سکتے ہیں۔پی پی پی پنجاب کی تنظیم جتنی کمزور اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔اگرامتیاز صفدر وڑائچ کو ہی صدر رکھا گیا تو پارٹی مزید ناکامیوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی۔آئندہ انتخابات میں پی پی پی کی کامیابیوں کیلئے ناراض کارکنوں کو مناکر انہیں سرگرم ،متحرک اور فعال کر نے کیلئے تنظیم سازی وقت کا نہائت ناگزیر تقاضہ ہے۔ مجموعی طور پر پی پی پی کی چار سالہ وفاقی حکومت کی کارکردگی اگر اچھی نہیں تو بری بھی نہیں ہے۔عوامی وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اس لحاظ سے واقعی خوش نصیب واقع ہوئے ہیں کہ ان کی منتخب جمہوری حکومت نے چار سال مکمل کرکے پانچویں سال میں قدم رکھ دئیے ہیں۔ یوں انہیں پاکستان کی طویل ترین جمہوری حکومت کا تاریخی وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا ہے ۔قوم اگر جمہوریت پر اسی طرح متفق ، متحد اور منظم رہی تو انشااللہ وطن عزیز چند سالوں میں ترقی اور خوشحالی کی نئی منزلوں سے ضرور ہمکنار ہو جائے گا۔وطن عزیز کو عظیم سے عظیم تر بنانے کیلئے تمام سیاسی اور مذہبی قوتوں کو بانۘی پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ محمد علی جناح کے تصورجمہوریت پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔اسی میں ہماری فلاح اور بقا کا راز مضمر ہے۔
Mian M. Arshad Bazmi
About the Author: Mian M. Arshad Bazmi Read More Articles by Mian M. Arshad Bazmi: 16 Articles with 13288 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.