بھری عدالت میں بی جے پی کا فرضی انکاؤنٹر

تہلکہ کے فرضی ایجنٹ نے جب بنگارو لکشمن سے کہا کہ آپ ہندوستان کے پہلے دلت وزیر اعظم بن سکتے ہیں ایسا امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ تو بنگارو نے مسکرا کر اس کی تائید کی ۔وہ بیچارہ کیا جانتا تھا کہ وزیر اعظم بننا تو درکنار جلد ہی پارٹی کی صدارت سے بھی استعفیٰ دینا پڑے گا اور ۱۱ سال بعد چار سال کی قید با مشقت سے دوچار ہونا پڑے گا ۔بنگارو لکشمن نے پہلی مرتبہ کے جو ریکارڈ بنائے ہیں انہیں سچن تنڈولکر کے علاوہ کوئی اور توڑ نہیں سکتا ۔پہلی بار بی جے پی کو اعتماد کا ووٹ کا حاصل کرنے کے بعد باقائدہ اقتدار سنبھالنے کا موقع ملا تواس سنہری دور میں وہ پارٹی کے پہلی بار صدر بنے ۔ نام نہاد اعلیٰ ذات کی پارٹی کے وہ پہلےدلت صدر تھے اور جنوبی ریاست سے آنے والے کسی شخص پر پہلی بار بی جے پی نے اعتماد کیا تھا ۔ کسی قومی جماعت کے وہ پہلے صدر ہیں جنہیں کیمرے کی آنکھ نے رشوت لیتے ہوئے دیکھا اور قید کر لیا ۔ ان کے علاوہ جیا جیٹلی بھی جو ایک علاقائی جماعت کی صدر تھیں رشوت لیتی ہوئی نظر آئی تھیں مگر بنگارو لکشمن پہلے اور آخری صدر ہیں جنھیں بدعنوانی کے باعث استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا گوکہ اڈوانی جی کا نام بھی حوالہ ڈائری کے اندر بدعنوانی کے تحت ہی آیا تھا مگر انہوں نے پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی لیکن بنگارو لکشمن چونکہ بی جے پی کے پہلے صدر تھے جن کا انتخاب اڈوانی جی کی مرضی کے خلاف ہواتھا اسلئے ممکن ہے اڈوانی جی نے موقع غنیمت جان کر کانٹا نکال دیا ہو ۔اڈوانی کے رشوت ستانی میں پکڑے جانےبلکہ قائد اعظم کی تعریف و توصیف کرنے پر بھی ان سے سنگھ پریوار نے اپنا پہلو جھاڑ کر یہ نہیں کہا کہ وہ بگڑے ہوئے سویم سیوک ہیں ۔ یہ لقب پہلی بار آر ایس ایس کی جانب سے اپنے ایک ایسے سیوک کو دیا گیا جس نے بارہ سال کی عمرسے لے کر۶۲ سال کی عمر تک پوری نصف صدی زعفرانی پر چم کو سلامی دی تھی ۔بالآخر ایک جعلی رشوت کے کیس میں لکشمن کو اصلی سزا سنائی گئی ایسا بھی غالباً ملک کی تاریخ میں پہلی ہی مرتبہ ہواکہ کسی ۷۳ سالہ سیاسی رہنما کے حصے میں بدعنوانی میں ملوث ہونےکے سبب قید با مشقت کی سزا آئی ہو ۔ اس کی نظیر بنگارو سے پہلے کبھی نظر نہیں آئی ۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ عوام کا دل جیتنے والے سی بی آئی عدالت کے جج کا نام کنول ہے جو بی جے پی کا انتخابی نشان ہے ۔تہلکہ نے یہ ویڈیو تیرہ تاریخ کو جاری کی تھی اور فیصلہ بھی تیرہ صفحات پر مشتمل ہے ۔ دہلی کی سی بی آئی عدالت کا فیصلہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ کسی ہندی فلم کے مکالمے ہوں ممکن ہے عدالت میں پیش کرنے سے قبل انہوں نے اس کو نوک پلک درست کرنے کی خاطر جاوید اختر کے پاس بھیج دیا ہو ۔ اگر یقین نہیں آتا توفیصلے کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :
•کردار اور معیار بحران کے دوران پروان نہیں چڑھتے بلکہ ظاہر ہوتے ہیں ۔خاص طور پرفرد کا اور عام طور سے معاشرے کا اخلاقی انحطاط اورقومی مفاد میں عدم دلچسپی نے بدعنوانی کوبڑے پیمانے پرفروغ دے رکھا ہے جس کے منفی اثرات ہماری قوم کے سماجی ،روحانی، سیاسی، معاشی ، تعلیمی اور اخلاقی اقدار پر پڑ رہے ہیں ۔
•آج کل کےحقائق اس مقولے کی تکذیب کرتے ہیں کہ "جرم کبھی بھی نفع بخش نہیں ہوتا"۔ہمارے ملک میں جرائم کی صورتحال سنگین اور پریشان کن ہے ۔اس نے عوام و خواص دونوں کی اخلاقی اقدار پر قائم معاشرے کے تجدید و احیا کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔
•بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا مسئلہ ،خاص طور پر سیاسی بدعنوانی جسدِ سیاست کو کمزور کر رہی ہے نیزمعاشرے میں آ ئین پر مبنی حکومت کی اہمیت کو نقصان پہنچا رہی ہے
•جرائم کی روک تھام کیلئے انصاف مہیاکرنا کا عدالت کی ذمہ داری ہے ۔عدالتی کارروائی فیصلہ سنانے کے عمل میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے ۔فیصلے کا مقصد صرف مجرم کو اس کی خلافِ قانون حرکت کی سزا دینا ہی نہیں ہوتا بلکہ اس بات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ عام معاشرہ اس رویہ مذمت کرتا ہے جس میں بدعنوان شخص ملوث ہے ۔ ایسا کرنا دیگرافراد کو اس طرح کے جرائم سے باز رکھتا ہے ۔
•میرے خیال میں بدعنوانی عصمت فروشی سے قبیح تر ہے ۔اس لئے کہ مؤخرالذکر سےانفرادی اخلاقیات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے جبکہ اول الذکرپورے معاشرے کیلئے خطرناک ہے ۔ یہ معاشرے کیلئے زہر ہے اور عوام کے اندر غیض و غضب پیدا کرتا ہے ۔لیکن اگر سماج عوامی سطح پر اس کی مخالفت کرے مگر انفرادی طور سے اس میں ملوث ہوتو ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا ہم واقعی ایک بدعنوانی سے پاک معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں ۔
•ایسے میں عدالتوں کے کردار کی اہمیت سامنے آتی ہے ۔ عدالتوں کاوجود صرف کتابوں کی حد تک ایک خیالی قادر مطلق کی حیثیت سے نہیں ہونا چاہئے ۔عدالت کو ایک سرگرم ادارے کی مانند کام کرنا چاہئے جو عوام کی امیدوں سے ہم آہنگ ہو ۔ اگر عدالت کی توپ اس وقت تک پر جوش نہ ہوجب تک کے غلطی کی اصلاح نہیں ہوجاتی تو اس صورت میں وہ ایک عملاً بے فائدہ شہ ہو کر رہ جائیگی ۔
•اس میں شک نہیں کہ ویسٹ اینڈ نامی کمپنی اور اس کی مصنوعات دونوں فرضی تھے لیکن اس کا علم صرف کمپنی کے اس نمائندے کو تھا جس نےجانبداری کی خاطر رجوع کیا تھا ۔
•مجرم بنگارو لکشمن نےاس فرضی کمپنی کے حق میں اپنے ذاتی اثرات کونجی مفادات کے حصول کی خاطرغیر قانونی طریقے سے استعمال کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اس نیت اوریقین کے ساتھ کہ وہ سامان جس کو خریداجانا ہے اصلی ہے{ گویافرضی مال کی اصلی نیت}
•بدعنوانی کے حوالے سے ہمارے" سب چلتا ہے" کے رویہ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ غیر قانونی خوشامد کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا
•بدعنوانی بذاتِ خود بری چیز ہے مگر سپریم کورٹ کے الفاظ میں یہ معاشرے کا کینسر ہے ۔اگر اس کا ارتکاب وہ لوگ کریں جن کے پاس اختیار ہے اوراس کے ذریعہ ملک کے دفاعی نظام پر سیندھ لگائی جائے اور فوجی جوانوں کی جان سے کھیلا جائے تو اس کی شدت اور کمیت بےحد خطرناک اور تکلیف دہ ہو جاتی ہے ۔

عدالت کا یہ فیصلہ سنگھ پریوار کے گال پر ایک زبردست طمانچہ بھی ہے اور آئینہ بھی ۔اب وقت آ گیا ہے کہ خودساختہ دیش بھکتی کے نشے میں چور یہ فسطائی تنظیم ہوش میں آئے اور اس آئینے میں اپنا فرسودہ چہرہ دیکھے ۔اس بات کا جائزہ لے کہ وہ قوم پرستی کی شراب جو یہ لوگ برسوں تک پلا کر اپنے کارکنا ن کو مدہوش رکھتے ہیں اقتدار کا موقع ملتے ہی اس کا نشہ کیونکر ہوا ہوجاتاہے ۔ان کی پارٹی کا صدر یہ جانے بغیر کے یہ اوزار معیاری ہیں یا نہیں رشوت کے مول بھاو میں کس طرح ملوث ہوجاتا ہے اور فوجیوں کی جان کوخطرے میں ڈال دیتا ہے اور ان کا وزیرِ دفاع کارگل کی جنگ میں کام آنے والے فوجیوں کے تابوت میں سے رشوت کیوں ہضم کر جاتا ہے ۔اسی کے ساتھ اب وقت آگیا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے مسلمانوں سے وفاداری کا ثبوت مانگنے والے یہ زعفرانی سیاستدان نئے سرے سے اپنی وفاداری کا حلف اٹھائیں اور مستقبل میں بھی ان کی حرکات پر کڑی نگاہ رکھی جائے تا کہ آئندہ بھی یہ بگلا بھگت اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفادات سے کھلواڑ نہ کرسکیں ۔

یہ فیصلہ اپنے آپ میں اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ایک سیاسی رہنما کے خلاف ہے اور اس میں معاشرے کے اہم ترین مسائل کا نہ صرف تجزیہ کیا گیا ہے بلکہ حل پیش کیا گیا ہے اس کے باوجود اسے تاریخی نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ انسانی تاریخ میں جن فیصلوں کو اہمیت دی جاتی ہے وہ اقتدار وقت کے خلاف ہوتے ہیں ۔مثلاً اندرا گاندھی کے خلاف الہٰ باد عدالت کا فیصلہ جس نے ہندوستانی سیاست میں ایسا زلزلہ برپا کردیا تھا کہ عدالتیں تو کجا عام لوگ بھی اپنے بنیادی حقوق سےمحروم کر دئیے گئے ۔اگر عدالتی فیصلے اقتدار کے مخالفین کے خلاف آتے ہیں تو ان کی افادیت بہر حال محدود ہوتی ہے ۔اس لئے کہ جئے للیتا کے دورِ اقتدار میں کروناندھی کا گرفتار ہونا یا کروناندھی کی حکومت کے دوران جئے للیتا کا معتوب ہونا یہ انصاف کی ایک بھونڈی شکل ہے ۔جس وقت تہلکہ والے اس فلم کو منظر پر لے کر آئے اس وقت یہ تو ہوا کہ لکشمن سے استعفیٰ لے لیا گیا حالانکہ وہ اس کے لئے راضی نہیں تھے بلکہ مجبور کئے گئے تھے اور اس بات کا اعلان بھی کیا گیا کہ مجرم کو قانون کے تحت کیفرِ کردار تک پہنچایا جائیگا لیکن اس کے بر عکس نہ صرف مجرم کو تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ جس نے اس کا پردہ فاش کیا تھا اس کو بغیر کسی قانونی جواز کے معتوب کیا گیا ۔ اگر یہ فیصلہ بی جے پی کے دورِ اقتدار میں سامنے آتا اور سریش کلماڈی کو اسی طرح کی سزا کیلئے بی جے پی کے اقتدار میں آنے کےانتظار کی نوبت نہیں آتی تب تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ انصاف ہوا ہے ۔

اس فیصلے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا ردعمل بھی مایوس کن ہے ۔ بی جے پی نے یہ کہہ کر اپنا پلو جھاڑ لیا کہ یہ ان کا اپناذاتی معاملہ تھا گویا بی جے پی کا صدر پارٹی کے دفتر میں بیٹھ کر اپنا نجی کاروبار چلا تا ہے اور کاروباربھی اسلحہ کی دلالی کا ۔اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ پارٹی نے ان پر فوراً کارروائی کی اور صدارت سے ہٹایا لیکن وہ ابھی تک بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ کے رکن ہیں اور اس کے اجلاس میں شریک ہوتے رہتے ہیں گویا صرف پارٹی کا صدر اگر رنگے ہاتھ پکڑا جائے تو اپنے عہدے پر نہیں رہ سکتا لیکن مجلس عاملہ میں رہ سکتا ہے اور اگر اس اعلیٰ سطحی مجلس میں رہ سکتا ہے تو پارٹی کے اندر رہنے میں کیا مشکل ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ کانگریس نے اپنی بوفورس اور ٹوجی بدعنوانیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر بدلے کی کارروائی کی ہے لیکن یہ بیان بھی بذاتِ خودلکشمن کی جانب سے توجہ ہٹا کر جوابی حملہ ہے ۔ بی جے پی کے مطابق لکشمن عدالتی نظام میں حاصل مراعات کا استعمال کریں گے یعنی اپیل کریں گے ضمانت پر رہائی حاصل کریں اور وقت گزاری میں لگ جائیں گے ۔

کانگریس نے کہا کہ ہمیں خوشی نہیں ہے لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے ۔ اس نے بی جے پی کو اپنا احتساب کرنے کی دعوت دی لیکن کیا احتساب و جائزے کی ضرورت صرف بی جے پی کو ہے یا کانگریس بھی اس کی محتاج ہے ؟ بلکہ کس کو اس کا احتیاج زیادہ ہے ؟کانگریسی ترجمان نے یہاں تک کہہ دیا کہ جن کے گھر شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں پر پتھر نہیں مارا کرتے ۔ اس بیان میں کئی پیغامات پنہاں ہیں اول تو یہ کہ حزب اختلاف کی جانب سے آنے والی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا گیا ہے دوسرے یہ دھمکی بھی ہے کہ چپ چاپ بدعنوانی میں ملوث رہو مگر زیادہ شور شرابہ نہ کرو ورنہ تمہارے شیشوں کے مکانات پر اسی طرح سے پتھر چلتے رہیں گے ۔کمیونسٹ پارٹی کی ورندہ کرات نے عدالتی نظام کی دہائی دیتے ہوئے فرمایا اگر ایک لاکھ کی رشوت کے فیصلے کیلئے ۱۱ سال تو کروڈوں کی بدعنوانی کیلئے کتنے سال درکار ہوں گے ۔ یہ نہایت احمقانہ دلیل ہے ۔ اس طوالت کا رشوت کی کمیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو ایک علامتی سیاسی جنگ ہے ۔ جس میں شہ اور مات کا سلسلہ جاری رہتاہے کبھی کو سپاہی بادشاہ کے مقابلے کھڑا ہو جاتا ہے تو کبھی کوئی ہاتھی وزیراعظم سے پنجہ آزمائی کرتا ہے لیکن سارا معاملہ شطرنج کی بساط تک محدود رہتا ہے۔ حقیقت حال پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

تہلکہ کی ویڈیو میں ۳۴ لوگوں کو رشوت لیتے ہوئے دکھلایا گیا تھا جن میں لکشمن کے علاوہ تین اہم نام سمتا پارٹی کی سابقہ صدر جیا جیٹلی،سمتا پارٹی کے خازن آر کے جین اور آر کے گپتا نامی ایک سویم سیوک ہے ۔جیا جیٹلی نے وزیر دفاع جارج فرنانڈیس کے گھر کے اندر بیٹھ کر رشوت لی ۔ اس خاتون کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ جارج کی اہلیہ کو گھر سے بھگا کر پہلے گھر پر قبضہ کیا اور پھر پارٹی کو قبضے میں کیا ۔ اسکے بعد بدعنوانی کا بازار گرم کر دیا ۔ جین نہ صرف رشوت لیتے ہوئے بلکہ اس کی افادیت اور استعمال کا درس دیتے ہوئے ویڈیو میں نظر آتے ہیں ۔ آر کے گپتا نے بڑے بڑےدفاعی سودوں میں ملوث ہونے کا اقرار کیا ہے اور آرایس ایس کے دہلی میں واقع مرکز کو ۵۰ لاکھ کے خرچ سے بنانے کی بات بھی کہی ہے ۔ اس شخص کو گرفتار کرکے اس سے سچ اگلوانا چاہئے تاکہ معاملہ ایک لاکھ سے آگے بڑھے۔

آر ایس ایس نے گپتا کے متعلق یہ صفائی پیش کی کہ وہ لاکھوں سویم سیوکوں میں سے ایک ہو سکتا ہے ہم ان کا ریکارڈ نہیں رکھتے۔لیکن جب بھی تہلکہ والوں بنگارو لکشمن یا ان کے سکریٹری ستیہ مورتی کے سامنے گپتا کا ذکر کیا انہوں نے لاعلمی نہیں ظاہر کی اس سے معلوم ہوتا ہے وہ معروف شخص تھا ۔ آرایس ایس کا کہنا ہے کہ وہ چیف ٹرسٹی نہیں ہوسکتا اس لئے آرایس ایس ٹرسٹ نہیں ہے لیکن ویڈیو میں اس نے غیرممالک میں بسنے والے ہندوستانیوں کی تنظیم فرینڈس آف انڈیا کے چیف ٹرسٹی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اوریہ سنگھیوں کی حامی مشہور تنظیم ہے ۔آر ایس ایس کے ترجمان کا کہنا یہ ہے کہ دہلی کا دفتر صرف پانچ لاکھ میں تعمیر ہوا یہ ایک ایسا جھوٹ ہے جو چغلی کھاتا ہے دال میں کالا ہے ۔ روپیوں کی آمد کے بارے میں کہا گیا کہ یہ گرودکشنا ہوتی ہے ۔اس کو کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا اورایک تھال میں جمع کر کے سب ملا دیا جاتا ہے جس سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کس نے کیا دیا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اس بات کا پتہ لگانا ناممکن ہوجاتا ہے کہ دولت لوٹ کی ہے رشوت ہے۔ سنگھ پریوار جو نظم و ضبط کے بلند بانگ دعویٰ کرتا ہے اگر خود نہ اپنے افراد کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار ہے اور نہ دھن دولت کا حساب دینے کیلئے آمادہ تو اس کی بگڑی ہوئی اولاد بی جے پی سے کیا توقع کی جاسکتی ہے اور اسے یہ کہنے کا کیا حق ہے بنگارو لکشمن ایک بگڑا ہوا سویم سیوک ہے ۔

رامائن نامی رزمیہ داستان کا سب سے اہم موڑ وہ نہیں ہے جس میں کیکئی ایک سیاسی چال چل کر رام جی کو ایودھیا سے چلتا کر دیتی ہے اور اپنے لخت جگربھرت کو اقتدار پر بٹھا دیتی ہے بلکہ وہ ہے جہاں روان کی بہن سوروپ نکھا لکشمن کو شادی کا پیغام دیتی ہے ۔ اس موقع پر ایک باعزت خاتون کی تجویز کو پر وقار طریقے سے نامنظور کرنے کے بجائے لکشمن اس کی ناک کٹ کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں ۔ اس حرکت کی بھاری قیمت رام اور سیتا دونوں کو چکانی پڑتی ہے ۔ست یگ کے لکشمن ہی کی مانند اپنی نادانی کا ثبوت بنگارو لکشمن نے بھی دیا اور اپنی پارٹی کی ناک کاٹ کر ہوا میں اچھال دی ۔ اس حماقت کی بھاری قیمت بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں کو ادا کرنی پڑی ۔ دونوں کا عزت و وقار سربازار نیلام ہوگیا ۔ست یگ میں تو قسمت اچھی تھی جو ہنومان مدد کیلئے آگئے لیکن کل یگ کے ہنومان تو اپنے مفادات کے پیشِ نظر راون یعنی کانگریس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اس لئے دوبارہ بی جے پی کے اقتدار حاصل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا ۔رام جی کے دور میں سری لنکا کے اندر قائم راون راج نے اسے سونے کی لنکا بنا دیا تھا لیکن لکشمن کی نادانی کے باعث وہ بھی جل کر خاک ہوئی ایسا ہی کچھ ہندوستانی سیاستدان کل یگ کے ہندوستان کے ساتھ اس کے دوبارہ سونے کی چڑیا بننے سے قبل ہی کر رہے ہیں وہاں تو ایک ہنومان کے دم میں آگ لگائی گئی تھی یہاں ہر ہنومان کی دم بدعنوانی شعلے اگل رہی ہے ۔ بقول شاعر 
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی لچھمن کافی تھا
ہر شاخ پہ لچھمن بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449784 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.