15فروری کو ہم کتنے پرعزم تھے اس
کیمپ میں موجودسینکڑوں اور ملک بھر کے ہزاروں مصیبت زدہ مظلوم خاندانوں نے
امید یں باندھ لیں تھیں ڈیڑھ ماہ کی بریرہ اپنے بابا کو لینے سکھر سے سفر
کرکے اسلام آباد چلی آئی تھی لیکن آج 76دن گزرنے کے بعد میرے پاس اسے دینے
کے لیے تسلیوں کے سوا کچھ نہ تھا اس عرصے میں کھلے آسمان تلے اس پر بادل
بھی برسا ....مری کی یخ بستہ ہوائیں بھی اس کے عزم کو متزلزل نہ کرسکیں
.... تپتی دھوپ میں بھی بریرہ ثابت قدم رہی .... لیکن کیا نام دیں اس بے
حسی کو جس نے اس کا مان توڑ دیا ۔کچھ دیر بعد قبل اس پر عزم خاتو ن آمنہ
مسعود جنجوعہ سے فون پر بات ہو ئی وہ بتارہی تھیں ”ہاں بریرہ خالی ہاتھ
سکھر لوٹ گئی ہے اس کے بابا اظہر اقبال آج بھی لاپتہ ہیں“۔ پاکستان کی
سینکڑوں ایجنسیز ٬بیسیوں صوبائی وقومی وزارتیں اور سب سے بڑھ کراعلٰی عدلیہ
بھی بریرہ اور اس جیسے لاکھوں معصوم بچوں کو ان کے بابا نہ لوٹا سکیں ....ا
س وقت جب میں یہ الفاظ تحریر کررہاہوں میری آنکھوں میں آنسو ہیں میرادل بے
چین ہے میں کرب میں مبتلا ہو ں ....حضور آپ بھی کہتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے
بچوں کو دیکھتا ہو ں تو میر ے آنسو نکل آتے ہیں .... لیکن کیا میں اور آپ
برابر ہیں ....نہیں چیف صاحب اس قوم کے کروڑوں لوگوں نے آپ کےلئے جان قربان
کردینے کا عزم ہی نہیں کیا بلکہ .... 12مئی کو اس پر عمل بھی کردکھایا 50سے
زائد جیتے جاگتے انسان آپ پر قربان ہو گئے ۔ ....وکلاءاس لیے زندہ جل گئے
کہ شاید ہماری اس قربانی سے اٹھارہ کروڑ عوام کو انصاف مل جائے ۔لیکن بریرہ
آپ کی بلند وبالا کرسی سے چند گز کے فاصلے پر 76تک د ن کھلے آسمان تلے سر
ٹکراتی رہی لیکن.... حضور آ ج وہ ناکام لوٹ گئی ہے اس کی ذمہ داری صدر
زرداری ٬ و زیر اعظم گیلانی ٬رمی چیف سے بڑھ کر آپ پر عائد ہو تی ہے ....
خدارا اپنا کردار ادا کریں قبل اس کے کہ دیر ہو جائے اور بریر ہ بھی قبائلی
علاقے کے نوجوانوں کی طرح اپنے معصوم جسم سے بارود باندھ کر آپ کے سامنے
آکھڑی ہو ....گربریرہ کو انصاف نہ ملا تو شاید یہاں دہشت گردوں کی قطاریں
لگ جائیں ۔ جنرل کیا نی صاحب ! چیف جسٹس صاحب ! خدارا بریرہ کو اس کے بابا
لوٹا دیں....ابھی بھی دیر نہیں ہو ئی ....لیکن ....شاید اب دیر ہو جائے ۔
|
|