یہ اُن دِنِوں کی بات ہے جب میں
میٹرک کے ایگزام سے فارغ ہوکر اپنے مستقبل کی تیاری کر رھا تھا آنکھوں میں
ہزار سپنے تھے دِل میں جوانی کی ترنگ تھی میں اکثر اپنے فیوچر کے بارے میں
سوچا کرتا مجھے بس ایک ہی دُھن سوار تھی کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
لیکچرار بننا ہے مجھے مُعاشرے میں اساتذہ کا پیشہ سب سے مُقدس اور جاذِب
نظر محسوس ہوتا تھا۔
مذہب سے قربت فقط اتنی تھی کہ پانچ وقت کی نماز پڑھ لیا کرتا تھا۔ اُنہی
دِنوں ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور بس اُس واقعہ سے میری زندگی کا رُخ ہی
بدل گیا۔
میرے خاندان والوں کا عجب حال تھا اُن میں اکثر بُغض اولیاءَاللہ میں حد سے
بَڑھےہوئے تھے اولیاءَاللہ کو بُتوں سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اور اُنہیں نعت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور فلمی گانوں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا اور
ہرہر معاملے میں مُتشدد تھے ایک رات میں عشاء کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکل
رہا تھا کہ میری نظر مسجد کے دروازے میں کھڑے اپنے کلاس فیلو پر پڑی میں نے
لپک کر اُسے خود سے بغلگیر کرلیا چُونکہ مسجد کے احترام سے ناواقف تھا اس
لئے مسجد کے دروازے کے اندر ہی کلاس کے دیگر ساتھیوں کا حال احوال پوچھنا
شروع کردیا۔
بات سے بات نکلتی چلی گئی اور ہم نے نا سمجھی میں کسی فلم سے مُتعلق گفتگو
شروع کردی ہماری گفتگو جاری تھی کہ کسی نے دھیرے سے میرے کاندھے پر ہاتھ
رکھا میں نے چونکتے ہوئے پلٹ کر دیکھا تو ایک نوجوان جس کے چہرے پہ داڑھی
تھی اوروہ اپنے سر پہ ناسی رنگ کا عمامہ سَجائے میرے مُقابل کھڑا تھا۔
میں نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا جی فرمائیے؟ اُس نُوجوان نے
نہایت شفقت بھرے لہجے میں کہا آپ کے قیمتی وقت میں سے چند لمحے درکار
ہیں!میں نے کہا جی کہیئے تب اُس نُوجوان نے کہا بھائی چند لمحوں کے لئے اگر
مسجد میں ہی بیٹھ کر بات کرلیں تو بہتر ہوگا آپ کو بھی ثواب مِلے گا اور
مجھے بھی میرا دوست تو مولوی نما نوجوان کو دیکھتے ہی یہ کہہ کر کھسک لیا
کہ مجھے دیر ہورہی ہے اور گھر والے پریشان ہورہے ہونگے جبکہ میں شرمیلی
طبیعت کی وجہ سے انکار نہ کرسکا اور دوبارہ مسجد میں داخل ہوگیا۔
مسجد کے ایک کونے میں چند نوجوان قُرآنی قاعدہ ہاتھ میں لئے سبق یاد کر رہے
تھے وہ نوجوان مجھے لیکر ایک طرف بیٹھ گیا اور بڑے دھیمے لہجے میں سمجھانے
لگا کہ بھائی مسجد میں دُنیا کی بات کرنے سے نیکیاں ضائع ہوجاتی ہیں اور
فلموں کی باتیں وہ بھی مسجد میں یہ تو اور بھی سخت گُناہ کا کام ہے ۔
میرا ندامت سے سر جُھک گیا تب اُنہوں نے میری حالت دیکھ کر کہا بھائی کوئی
بات نہیں شاید آپ نے بھولے سے یہ گناہ کا کام کیا ہے ۔ آپ رَب عزوجل سے
معافی مانگ لیجئے گا وہ نہایت ہی کریم ہے مُعاف فرمادیگا اُس کے بعد اُنہوں
نے مجھے تجوید سے قرآن پڑھنے کی دعوت دی جو میں نے کچھ پس وپیش کے بعد قبول
کرلی ۔ اب میں روزانہ عشا کی نماز کے بعد درس اور مدرسے میں بیٹھنے لگا
جمعرات کو مدرسے کی چُھٹی ہوا کرتی کہ وہ سب ہفتہ وار اجتماع میں جایا کرتے
تھے چند ہفتے تو میں اپنے اُستاد کو ٹالتا رہا لیکن ایک مرتبہ اُنہوں نے
ایسے دلنشین انداز میں التجا کی کہ میں انکار نہ کرسکا اور اجتماع میں جانے
کی حامی بھر لی ۔
اور جب میں پہلی مرتبہ اجتماع میں گیا تو میری زندگی میں انقلاب برپا ہوگیا
۔ اصلاحی بیانات سُن کر میری طرح طرح کی ساری پلاننگز جو میں نے فیوچر کے
لئے بنا رکھی تھیں ریت کی دیوار کی طرح ڈھنے لگیں۔ لیکن جب میں اجتماع سے
واپس گھر پہنچا تو ابو نے ڈانٹ ڈپت سے میری خوب تواضع کی اور جب میں نے
اجتماع کا بتایا۔ تو وہ مزید سیخ پا ہوگئے اور سمجھانے لگے کہ بیٹا اِن
مولویوں کے چکر میں پڑوگے تو بہت پیچھے رہ جاؤ گے۔ میرے ابَّا پَکے
کاروباری تھے دین کے معاملے میں وہ بالکل میری طرح ہی کورے تھے۔ اُس رات تو
جیسے تیسے میری جان چھوٹ گئی لیکن جلد ہی مجھے بڑے ابا (تایا) کا بُلاوہ
آگیا ۔ اور مجھے سمجھایا گیا بیٹا یہ ناسی پگڑی والوں کے چکر میں تُم کب سے
آگئے بیٹا یہ لوگ اچھے نہیں ہیں ۔شرک کی دعوت دیتے ہیں مزاروں پہ سجدے کرتے
ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خُدا کے برابر سمجھتے ہیں اور اِنہوں نے
اپنا نیا دین بنایا ہوا ہے اسلئے خبردار جو آج کے بعد کبھی اِن کیساتھ بھی
نظر آئے ۔
میں اپنے تمام تایا بلخصوص بڑے ابو کی بہت عزت کیا کرتا تھا اُن کے مُنہ سے
یہ انکشافات سُن کر بھونچکا سا رِہ گیا قصہ مُختصر اُس دَن کے بعد میں نے
اُس مسجد اور مدرسہ میں جانا چُھوڑ دیا۔ مگر ایک دَن سَرِ راہ اُسی نوجوان
سے میری دُوبارہ مُلاقات ہوگئی۔ اُنہوں نے جب مدرسے نہ آنے کا سبب پوچھا تو
میں نے تایا ابو والی تمام باتیں دُھرا دیں جِنہیں وہ بَڑے تَحمُل سے سُنتے
رہے اور میری گُفتگو خَتم ہونے کے بعد گویا ہوئے اقبال بھائی آپ ہمارے ساتھ
کافی دِن رہے ہیں کیا آپ نے اِن الزامات کو۔ جو آپکے تایا ابو نے ہم پر
لگائے ہیں اُن میں سے کوئی بھی بات ہم میں پائی ؟ میں یہ تو نہیں کہوں گا
کہ آپ کے تایا ابو جھوٹ بُول رہے ہیں مگر اتنا ضرور کہونگا کہ وہ دعوتِ
اسلامی کے مُتعلق کچھ نہیں جانتے بھائی دعوتِ اسلامی تو اُسی دعوت کو عام
کررہی ہے جِسے ہمارے پیارے آقا علیہ السلام نے بڑی محنت سے لوگوں تک
پہنچایا ۔صحابہ کرام رضوانُ اللہ علیہم اجمعین نے پھیلایا اوربُزرگان دین
نے جسکی آبیاری اپنے پسینے اور خون سے کی ہے۔
اقبال بھائی مجھے آپکی جانب سے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ آپکے خاندان والے
آپکو ضرور بھڑکائیں گے میں تو صرف دُعا ہی کرسکتا ہوں کہ اللہ کریم آپ کے
لئے منزل کی تلاش آسان فرمادے بس اتنی استدعا ضرور کرونگا کہ آپ مجھ سے
رابطہ نہ توڑیں جب تک کہ آپ حقیقت کو نہ پالیں اگر آپ مُناسب سمجھیں تو کل
میرے پاس تشریف لائیں میں آپکو چند کتابیں دونگا جنہیں پڑھ کر آپ کے لئے
منزل کا انتخاب آسان ضرور ہوجائے گا اُس نوجوان کی باتوں میں ایسا اخلاص
تھا کہ باوجود اِس کہ مجھے بڑوں کی طرف سے سختی کیساتھ سمجھایا گیا تھا کہ
دعوتِ اسلامی والوں سے رابطہ نہ رَکھوں میرے قدم خود بخود اُسی مسجد کی
جانب اُٹھتے چلے گئے جہاں میری پہلی ملاقات اُس اسلامی بھائی سے ہوئی تھی۔
مسجد میں مجھے صرف ایک کتابچہ پیش کیا گیا جسکا نام تھا کنزالایمان اور
دیگر تراجم کا تقابلی جائزہ یہ ایک چھوٹا سا کتابچہ تھا جس میں امام احمد
رضا (علیہ الرحمہ) اور دیگر علماء کے تراجم کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا
تھا بِلا مُبالغہ صرف اس ایک کتابچہ نے مجھ پر آشکارہ کردیا کہ جو لوگ قران
کے ترجمہ میں اسقدر احتیاط پیش نظر رکھیں کہ کوئی دوسرا ترجمہ اُسکا مُقابل
نہ بن سکے وہ لوگ غلط نہیں ہوسکتے چونکہ میرا خاندان والد صاحب اور ایک چچا
کو چھوڑ کہ انتہائی مذہبی تھا اس لئے اچھی خاصی دینی کُتب موجود تھیں اب
میں دونوں طریفین کی کُتب پڑھ رھا تھا البتہ فرق صرف اتنا تھاکہ دعوت
اسلامی والوں کی کتابیں صرف مسجد میں ہی پڑھ سکتا تھا چند ماہ میں ہی مجھے
مطالعے سے اندازہ ہوگیا کہ جِنہیں بدعتی اور بے دین کہا جارہا ہے حقیقت میں
وہی لوگ اعتدال پسند ، عُشاقِ مصطفیٰ ، اور سُنتِ رسول (صلی اللہ علیہ
وسلم) کی پیروی کرنے والے ہیں اور مجھے کونسی منزل کا انتخاب کرنا ہے میں
عِلم کی روشنی اور اللہ کریم کے فَضلِ خاص سے خُوب جان چُکا تھا۔
چند دن کے بعد ہی امیرِ اھلسُنت مدظلہُ العالی میرے شہر میرپورخاص تشریف
لائے اور اُن کے چہرے پہ نظر پڑتے ہی میرے دِل نے کہا واللہ یہ چہرہ کسی
اللہ کے ولی کامل کا ہی ہوسکتا ہے۔ میں نے کُھل کر دعوتِ اسلامی کا ساتھ
دینے کا خود سے پیمان کیا اور اُسکے بعد میرے خاندان والوں کے لئے جیسے میں
دُنیا میں نہ زِندہ نہ رَہا ۔پہلے پہلے تو مجھے صرف سمجھایا گیا بعد میں
سوشل بائیکاٹ کردیا گیا کبھی سر سے عمامے کو نُوچ کر بازار کی گندی سڑک پر
پھینکا گیا تو کبھی شادی میں بُھلا دیا گیا کبھی محفل میں بیگانہ بنایا گیا
تو کبھی خلوت میں ڈرایا گیا۔ یعنی ہر وہ سِتم کیا گیا جس سے میرے دِل کو
زخم پہنچے جب میں کبھی بُہت زیادہ دِل برداشتہ ہوجاتا تو امیر اھلسُنت
مُدظلہُ العالی کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتا تھا۔
اُس وقت چونکہ دعوتِ اسلامی کا تنظیمی کام ابتدائی مراحِل میں تھا۔ اسلئے
کبھی نشست مُیسر آجاتی۔ تو کبھی امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی کیساتھ عام
بسوں میں سفر کا موقع مِل جاتا۔ کبھی آپ اپنے کاشانہ اقدس پہ لیجا کر ساتھ
کھانا کھلاتے۔ تو کبھی عام دِنوں میں اپنےساتھ افطار پہ بِٹھالیتے( کیونکہ
آپ تقریبا پورا سال ہی روزے رکھا کرتے تھے) اُس وقت جس فیض کا دریا امیر
اھلسُنت مُدظلہُ العالی کی ذات سے جاری تھا اور جسقدر آسانی سے ملاقات کے
مواقع مُیسر تھے آج اُسکا تصور بھی مُحال ہے۔
ایک مرتبہ میرے والد اس نیت کیساتھ کراچی پہنچے کہ مولانا سے لڑوں گا کہ آپ
نے ہمارے بچے کو بِگاڑ دیا اچھا بھلا میرا کاروبار میں ہاتھ بٹاتا تھا آپ
نے مولوی بنادیا لیکن جب امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی سے مُلاقات ہوئی آپ
نے میرے والد کو گھر چلنے کی دعوت دی گھر لیجا کر اپنے ساتھ کھانا کھلایا
میرے ابو اُس درمیان امیر اہلسنت کے گھر کی سادگی اور امیر اھلسُنت مُدظلہُ
العالی کے آداب طعام اور ادبِ رزق اور آپکے اخلاق سے اسقدر مُتاثر ہوئے کہ
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی نے میرے والد سے
کراچی آمد کا سبب پوچھا تو فقط اتنا کہہ سکے ،، مولانا میں تو آپ سے اپنا
ایک بیٹا واپس لینے آیا تھا مگر آپ سے ملنے کے بعد دِل چاہتا ہے سارے بیٹے
آپ ہی کو دے دوں ۔
آج الحمدُللہ دُنیا میں میری جو بھی پہچان ہے یہ سب میرے مُرشِد کریم سیدنا
سراج الدین وارثی اور امیر اھلسُنت مولانا ابوالبلال محمد الیاس عطار قادری
دامت برکاتہم عالیہ کی فیضان نظر کی مرہونِ مِنت ہے القصہ مختصر دعوت
اسلامی اور امیر اھلسُنت مُدظلہُ العالی کے میری فیملی پر اسقدر احسانات
ہیں جنکا شُکریہ میں تا زیست ادا نہیں کرپاوں گا اسلئے یہ چھوٹی سی نظم پیش
کررہا ہُوں۔
شُکریہ اے دعوتِ اسلامی تیرا شُکریہ
آکہ فِتنوں سے ہمیں تونے بچایا شُکریہ
ظُلمتوں کی رات تھی اِک اِک دیا تھا بُجھ رہا
تُونے فانوسِ رضا آکر جلایا شُکریہ
دُور ہوتے جارہے تھے سُنتوں سے اُمتی
سُنتوں کی راہ پہ تونے چلایا شُکریہ
تھے لباسِ خضر میں رہزن یہاں جلوہ نُما
تونے سیدھا راستہ ہم کو دکھایا شُکریہ
کاش عشرت وارثی محشر میں جب بیدار ہو
ساتھ ہو عطار کے ۔ اِنکا نِکما شُکریہ |