یہ کالم میں نے پچھلے سال ڈاکٹر
قدیر صاحب کے لئے بطور خاص تحریر کیا تھا لیکن آج کے حالات و واقعات کے پیش
نظر احقر کر دوبارہ اسی کالم میں تھوڑی تبدیلی کر کے دوبارہ لکھنے کی ضرورت
محسوس ہوئی۔پچھلے سال یہ کالم ”ڈاکٹر قدیر سے ایک گزارش“ کے نام سے چھپ چکا
ہے جو کہ اخباری ریکارڈ میں موجود ہے۔
بلاشبہ ڈاکٹر قدیر خان صاحب پوری پاکستانی عوام اور اس ملک کے ہیرو اور
محسن ہیں،احقر سمیت تمام پاکستانی اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے
اس قومی ہیرو کے ساتھ سابقہ صدر مشرف کے دورِ حکومت سے لیکر اب تک امتیازی
سلوک روا رکھا گیا۔تما م پاکستانی عوام اس موقف پر بھی قائم ہیں کہ محض
امریکہ نوازی کے لئے اتنے قیمتی انسان کی عزت خاک میں ملانا بھی ہمارے
حکمرانوں کی نااہلی ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان نے جب سے ایٹم بم ایجاد کیا ہے تب
سے لیکر اب تک پوری پاکستانی عوام ان کی تصویریں دل میں بسائے اور ان کا
اپنا سابقہ ادارہ ان کی تصویریں دیواروں پر سجائے ہوئے ہے۔ہم مانتے ہیں
ڈاکٹر صاحب کے دل میں پاکستانی عوام کے لئے بے لوث چاہت ہے اور وہ ا س قوم
کے لئے مزید خدمات بطور سیاسی لیڈر کے پیش کرنا چاہتے ہیں۔انسان اپنی زندگی
میں کئی دفعہ ایسے اعلیٰ کام کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے اس انسان کو پوری
انسانیت بھلائے بھلا نہیں پاتی اور بعض دفعہ انسان سے کوئی ایسی معمولی
غلطی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف اس کو جاننے والے لوگ اسے کوستے رہتے
ہیں بلکہ لوگوں کی بد دعائیں ملنے کا خدشہ بھی سر زد ہو جاتا ہے۔قدیر خان
وہ شخصیت ہے جس کو بھٹو دور میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تشکیل کے لئے
انڈیا سے لایا گیا اور پھر قدیر خان نے دن رات کی محنت سے نہ صرف پاکستانی
قوم کا سر فخر سے بلند کیا بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں میںخوشی کی لہریں
دوڑا دیں۔
آج کا کالم حقیقت میں صرف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان نے
خود کو میدانِ عمل یعنی بطور سیاسی لیڈر کے متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے
۔وہ کہاں تک در ست ہے؟۔یہاں تک ان کا فیصلہ سو فیصد درست ہے ، کہ وہ سیاسی
پلیٹ فارم پر آ کے الیکشن لڑیں!ویلکم!یہ بات ٹھیک ہے کہ عوام کو ان کی
مخلصانہ مگر بے لوث صلاحیتیں درکا رہیں اور ایسے لوگ ہی عوام کے لئے اپنی
گرانقد رخدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔جہاں تک ڈاکٹر قدیر خان کا یہ فیصلہ کہ
وہ پاکستان میں اپنی ایک نئی پارٹی پاکستانی عوامی انقلاب کے نام سے لانچ
کرنے جا رہے تھے یہ ایک غلط فیصلہ اس لئے بھی تھا کہ انہوں نے نئی تنظیم و
تشکیل کے لئے جناب علی مسعودسید کو (Recommend)کیا ،کوئی قابلِ ستائش فیصلہ
نہیں تھا۔ڈاکٹر صاحب کو اور ان کے پاکستان کے لئے بہترین کردار کو پوری
پاکستانی عوام جانتی ہے اور مذکورہ صاحب کی خدمت اور شخصیت محض چند لوگ
جانتے ہیں۔
دنیا کا کوئی فرد اپنے ملک میں کسی قسم کی ڈکٹیٹر شپ کو نہ تو پسند کرتا ہے
اور نہ ڈکٹیٹر کسی ملک کی ترقی کے ضامن ہوتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں تمام
سیاسی جماعتوں کی ابتداءکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ،ان پارٹیوں کی ابتداء
سے لیکر اب تک ان کی ملکی خدمات تقریباًبھی اتنی نمایاں نہیں ہیں۔عوام کی
پریشانیاں اور مایوسیاں ہر دور میں کم ہونے کی بجائے تیزی سے بڑھ رہی
ہیں۔ڈاکٹر صاحب اور قارئین کے لئے پاکستان کی کچھ بڑی سیاسی جماعتوںپر ایک
ہلکا سا تبصرہ حاضرِ خدمت ہے۔
٭پاکستان پیپلز پارٹی کا باقاعدہ قیام 30 نومبر1967ء کو جناب محترم
ذوالفقار علی بھٹوصاحب کی زیرِنگرانی عمل میں آیا اور تاحال روٹی ،کپڑا اور
مکان کا نعرہ لیکر آنیوالی یہ پارٹی جب بھی حکومت میں آئی عوام کے لئے کوئی
ثمرات پیش نہیں کر سکی بلکہ عوامی جذبات پر پانی پھیر رہی ہے۔کمر توڑ
مہنگائی کے بعد حکومت کی ناکام حکمتِ عملی کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے کہ جب
کراچی کا امن تباہ ہو کے رہ گیا ہے اور کراچی جیسا شہر اسی دور میں گینگ
وار کی خوفناک اور خونی وارداتیں عام ہوئیں ۔لوگ خوف سے اپنے گھروں میں بند
ہیں مگر حالات پر قابو نہیں پایا جا رہا۔نہ جانے کراچی میں اتنے پستول اور
بندوقیں کہاں سے آگئے اور کون ملک دشمن ہیں جن پر ہماری حکومت کنٹرول نہیں
کر رہی۔اس پر نہ جانے کیوں ہمارے ملک کی پولیس اور سیکورٹی فورسز کیوں
آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں حالانکہ الزاما ت کی تمام تر بوچھاڑ پیپلز امن
کمیٹی پر ہے ۔ عدالت عالیہ کی نشاندہی کے باوجود نہ تو وزیر اعظم استعفیٰ
کی طرف جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی صدر صاحب کے خلاف کوئی اقدام اٹھانا چاہتے
ہیں۔گویا ملک کے دونوں بڑے ایک دوسرے کی ”ایمانداری“ کے معترف ہیں۔
٭ شہیدجنرل ضیاءالحق کے دورمیں کامیاب وزیراعلی محترمی میاں نوازشریف نے
مسلم لیگ (ن) بنائی اور اس جماعت نے الیکشنوں میں زبردست کامیابی حاصل کر
کے تقریباً اچھی حکومت چلائی جو سابقہ صدرمشرف کے حکومت پر قبضہ کے بعد دو
حصوں میں تقسیم ہو گئی۔میاں نواز شریف کی وطن واپسی تک ان کے اصل وفادار
نمائندے ان کی جماعت میں شامل رہے اور تاحال کامیابی سے ان کے ساتھ ہیں۔یہ
جماعت ملک میں تاحال پسندیدگی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔پاکستان پیپلز
پارٹی کا ساتھ دینے سے اس کی (Reputation)کافی خراب ہوئی۔بہرحال یہ پارٹی
جب چاہے عوام کے لئے کچھ کر لینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ایماندارانہ
الیکشنوں کی صورت میں کامیاب پارٹی ہے۔
٭ق لیگ (ن) لیگ کے لو ٹے ہیں۔ان کو حقیقت میں موقع پرست نمائندے ہی کہا جا
سکتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایک ڈکٹیٹر کا ساتھ
دیا۔ابھی فلاپ حکو مت میں شامل ہونے میں اس پارٹی نے کوئی دیر نہیں لگائی
شاید مونس الہیٰ کو بچانے کے لئے اس پارٹی نے ایک بے ایمانہ چال چلی۔
٭پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی زیرِنگرانی ابھرتی ہوئی ایک اچھی جماعت
ہے ۔عمران خان کی قوم اور ملک سے والہانہ محبت کی وجہ سے عوام اس جماعت کو
(ن) لیگ کے بعد دوسری بڑی عوامی وفادار پارٹی تصور کرتے ہیں۔اس پارٹی میں
شامل بعض ”بھگوڑے“ اور خراب ساخت رکھنے والے افراد نے آکر اس پارٹی کو ڈی
ویلیو کیا ہے۔پھر بھی یہ ایک اچھی اور نئی پارٹی ہے۔
٭جماعت اسلامی پاکستان اور اسلام کی نمائندہ جماعت ہے لیکن کئی بار الیکشن
جیت جانے کے بعد اس جماعت نے عوام میں کوئی خاطر خواہ پذیرائی نہیں پائی۔ہو
سکتا ہے اس دفعہ یہ اپنی پرانی غلطیوں کی تلافی کریں اور ن لیگ سے الحاق
کرکے آگے چلیں۔
٭ایم کیو ایم جو کہ ایک دور میں بدنام زمانہ جماعت تھی آج کل سندھ بالخصوص
کراچی میں ایک پاپولر جماعت ہے۔لیکن ملک کے دیگر علاقوں میں تاحال لوگ اس
کی کارکردگی اور کردار سے مطمئن نہیں ہیں۔یہ پارٹی جب چاہے حکمران پارٹی سے
اپنی جائز ناجائز منوا لے۔
ڈاکٹر صاحب آپ کے سامنے عمران خان جیسے اس قوم کے بڑے ہیرو موجود ہیں جو کہ
سابقہ کئی سالوں سے اب تک اپنی پارٹی کو الیکشنوں میں نمایاں ثابت نہیں کرا
سکے۔دیکھا جائے تو محترمی عمران خان آپ کی طرح عوام اور ملک کے لئے بے لوث
جذبات رکھتے ہیں۔انہوں نے پاکستانی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرنے کے لئے
نہ صرف بہت سا وقت لگایا ہے بلکہ اربوں روپیہ بھی صرف کیا ہے،ان کی سیاسی
سر گرمیوں کی وجہ سے ان کی ازدواجی زندگی بھی بہت متاثر ہوئی ہے لیکن افسوس
تاحال وہ کامیاب سیاستدان نہیں بن سکے۔
سیاست کوئی خالہ جی کا گھر نہیں ہے اور بالخصوص پاکستانی سیاست میں ماسوائے
چند بڑے وڈیروں اور سیاسی لوگوں کی فیملی یاپارٹیوں کے ریفرنس کے علاوہ
کوئی بھی عوامی نمائندہ عوام کی دہلیز سے ووٹ لیکر کامیاب نہیں لوٹا ہے۔آپ
کو پاکستانی عوام عملی سیاست میں آنے پر مایوس نہیں کریں گے بلکہ آپ کا
والہانہ استقبال کریں گے لیکن پاکستانی سیاست اور تاریخ کا سبق یہی ہے کہ
آپ پاکستان کی کسی بڑی اچھی اور ایماندار پارٹی کی حمایت حاصل کریں ۔اس کے
بعد دیکھنا جیت انشاءاللہ آپ کا مقدر ہو گی اور آپ جس پارٹی کو جوائن کریں
گے وہ آپ کے لئے اپنی خدمات پیش کر دے گی۔ہر پارٹی کا مقصد عوام کی خدمت ہے
لیکن اس کے چند پوائنٹس کے علاوہ باقی مقاصد ایک ہی ہیں۔آپ خود سوچیں جب
آپکو میاں نواز شریف جیسا بہترین سیاستدان،عمران خان جیسا عوام دوست
نمائندہ پسند نہیں تو عوام آپ کی سفارش پر علی مسعود سید کو بھلا کون سا
مقام دیتا۔بے شک پارٹی بنانا ہر پاکستانی کا حق ہے اور یہی حق آپ کے پاس
بھی ہے لیکن اگر آپ کواپنے علاوہ کوئی سیاسی شخصیت یا جماعت پسند نہیں تو
دوسرا بہترین آپشن یہی ہے کہ آپ ایدھی یا انصار برنی کی طرح کوئی بہترین
ویلفئیر ادارہ بنا لیں ۔آپ کو اس فانی دنیا اور دائمی دنیا میں آسانیاں مل
جائیں گی۔اللہ تعالیٰ آپکو نہ صرف زندگی کے ہر میدان میں کامیاب کرے بلکہ
ابدی دنیا میں آپ جیسے نیک اور ایماندار شخص کو جنت عطا کرے۔انشا ءاللہ |