” سرائیکی صوبہ کی راہ میں
رکاوٹ ڈالنے والے غدار اور عوام دشمن ہیں، ان کے سر قلم کردیئے جائیں گے
لیپ ٹاپ، ییلو کیپ اورروٹی سکیم میں کرپشن ہوئی،اگر یہی رقم درست استعمال
کی جاتی توبجلی کا بحران نہ ہوتا(؟) اس کرپشن پر سپریم کورٹ نے ایکشن کیوں
نہیں لیا وزیراعظم گیلانی کے خلاف سازش کی گئی ہے، انہیں سرائیکی صوبہ
بنانے کے جرم میں سزادی گئی ہے عجلت میں فیصلہ کامقصد سرائیکی صوبہ کے قیام
کے اعلان کو روکنا تھا“
غداری کے مجرم کا سرقلم کرنے کا رواج اگرچہ پرانا ہوچکاہے، مگر کیا کیجئے
کہ ہمارے حکمرانوں، ان کی اولادوں اور بیوروکریسی کے بعض افسران کے ذہنوں
سے بادشاہی اور شہزادگی نہیں جاتی، جہاں بادشاہ اور شہزادے ہونگے، وہاں
غداری بھی ہوگی اور جہاں غداری ہوگی تو اس کا ارتکاب کرنے والے کا سرقلم
بھی ہوگا۔پاکستان کی تاریخ میں تو ایسے واقعات نہیں پائے جاتے، لیکن ضروری
نہیں کہ جو واقعہ تاریخ میں نہ ہو وہ رونما ہی نہ ہو، آخر نئے واقعات ہی
تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ روایات میں سزا یافتہ لوگوں کے علاوہ حکمرانوں کے
مخالفین کے بھی بغاوت وغیرہ کو بہانہ بناکر سرقلم کردیئے جاتے تھے،اب یہی
سلوک سرائیکی صوبہ کے مخالفین کے ساتھ روا رکھا جائے گا۔
”سرقلم“ قسم کا اعلان ”شہزادہ“ خرم کھوسہ نے ایک تقریب سے خطاب کے دوران
کیا، واضح رہے کہ موصوف پنجاب کے موجودہ گورنر لطیف کھوسہ کے خلف الرشید
ہیں، اپنے بزرگوں کی طرح شعبہ قانون سے وابستہ ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے بعد
چونکہ قانون دانوں کا رویہ کافی جارحانہ اور بعض اوقات ظالمانہ قسم کا
ہوگیا ہے، وہ اپنی زبان سے نکلنے والی ہر بات کو قانون کا ہی درجہ دیتے ہیں،
اور انحراف کرنے والوں کو قابل گردن زدنی قرار دیتے ہیں۔ اس لئے خرم کھوسہ
نے بھی اسی رو میں بہتے ہوئے یا جذبات سے مغلوب ہوکریہ بیان دے دیا ہے،
امید ہے کہ انہوں نے اپنے قول کی عملی صورت پر غور کرنے کے بعد ہی اعلان
کیا ہوگا، انہوں نے یہ اندازہ بھی لگا لیا ہوگا کہ تقریباًً کتنے لوگوں کو
اس امتحان سے گزرنا ہوگا، جلادوں کا بندوبست کیسے ہوگا، اس ضمن میں ہوسکتا
ہے کہ خورشید شاہ کی خدمات حاصل کرکے سعودی حکومت سے مدد طلب کی گئی ہو۔ یہ
بھی ممکن ہے کہ تارا مسیح کی اولاد میں سے انہیں لوگ مل جائیں، جن سے کام
لے کر وہ پرانے ”قرض“ بھی اتار سکتے ہیں۔
قلم کا دور گزر چکا ہے، تاہم ابھی اس دور کو گزرے زیادہ زمانے نہیں بیتے،
اس لئے قلم کے نام اور کسی حد تک شکل سے بھی لوگ واقف ہیں۔ مگر یہ سردار
لوگ تو جدید زمانے کی ہر سہولت سے بہرہ مند ہیں، انہیں قلم کو صرف محاورے
میں استعمال کرنے کا علم ہوگا، کبھی استعمال کا موقع شاید نہ ملا ہو۔ خبر
میں خرم کھوسہ کو ’سردار‘ لکھا گیا ہے، کسی قبیلے کا سردار تو شاید ایک ہی
ہوتا ہوگا، اگر ہر بندہ ہی سردار ہے تو پھر ایسے قبیلے کااللہ ہی حافظ ہے۔
یہ اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتا کہ آیا صرف انہی لوگوں کے سر قلم کئے جائیں
گے جو سرائیکی علاقے کے اندر رہتے ہوئے صوبے کے قیام کی مخالفت کریں گے ،
یا اس ”قلم کہانی“ کا دائرہ کار خطے سے باہر بھی ہوگا؟ سرقلم کرنے کے
پروگرام کے داعی چونکہ قانون دان ہیں ، اس لئے انہوں نے تمام انتظامات مکمل
کررکھے ہونگے، کوئی ایسا قانونی راستہ نکال لیا ہوگا، جس کے ذریعے سے یہ
’قلم کاری‘ کی جائے گی، یہ بھی طے ہوچکا ہوگا کہ سرقلم کرنے کا فیصلہ
موجودہ عدالتیں ہی کریں گی یا پی پی کے قانون دانوں پر مشتمل الگ بندوبست
ہوگا۔ جس ملک کا صدر ایک پارٹی کا ہو،اسی پارٹی کاامیدوار پارلیمنٹ کا
متفقہ امیدوار قرار پاکر اورکامیاب ہوکروزیراعظم کے منصب پر فائز ہو، سب سے
بڑے صوبے کا گورنر بھی اسی پارٹی سے ہواور نامور قانون دان ہو، ایسے میں
”سرداروں“ کے سردار بچے کسی کا بھی سر قلم کرسکتے ہیں، یا ایسا کرنے کی
خواہش کرسکتے ہیں، خوابوں کی تعبیر ملے نہ ملے ، خواب دیکھنے پر تو کوئی
پابندی نہیں لگا سکتا ۔گورنرباپ ہواوروہ بھی بڑھکوں کا عادی (کہ آخر جیالا
ہے)ایسے بچوں کو باپ سے چار قدم آگے ہی ہونا چاہیئے۔(نوٹ؛ گورنر کے ٹماٹروں
والے بیان پر ”ٹماٹرانہ کالم “ بعد میں لکھا جائے گا۔) |