بسم اللہ الر حمن الرحیم
امریکیوں نے قبائلی علاقوں پرڈرون حملوں کی ایک بار پھر بو چھاڑ کر کے
پاکستانیوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کر دی ہے ،شمالی وزیرستان کے مختلف
علاقے میں دو حملوں کے نتیجے میں چشم زدن میں بیس کے قریب لوگوں کو موت کے
گھاٹ اتار دیا گیا۔ان تازہ حملوں کے حوالے سے ایک پاکستانی معاصر نے خبر دی
ہے کہ امریکہ نے بزور ِ بازو ناٹو سپلائی بحال کروانے کی خاطر ڈرون حملوں
میں تیزی لانے کافیصلہ کر لیا ہے ، واشنگٹن نے سلالہ واقعہ پر معافی مانگنے
کے مطالبہ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ڈرون حملے کرنے کافیصلہ کیا ہے تاکہ اس
طرح سے پاکستان پر دباﺅ ڈال کر ناٹو سپلائی بحال کروائی جا سکے، دوسری طرف
افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکی صدر کے نمائندے مارک گراسمین نے اس
نئی امریکی پالیسی پاکستان کو آگاہ کر دیا ہے اور واضح کر دیا گیا ہے کہ
امریکہ سلالہ واقعے پر معافی مانگنے کے معاملے پر کوئی غور نہیں کر رہا ،
نیٹو سپلائی بارے پاکستان کے سخت موقف کے بعد امریکی وزیر خارجہ ہیلری
کلنٹن نے بھی اپنا دورہ پاکستان ملتوی کر دیا ہے جو انہوں نے اس ماہ کے
آغاز میں کرنا تھا ۔ ایک غیر سر کاری تنظیم کے مطابق دو ہزار چار سے اب تک
تقریبا تین سو سے زائد ڈرون حملوں میں ہزاروں افراد ماردیے گئے اور لاتعداد
اپاہج ہو چکے ہیں۔ تاریخ کاستم دیکھیے جو سپر پاور امریکہ اپنے بیالیس
اتحادیوں کے ہمراہ افغانستا ن کے جہنم زار میں ذلیل و خوار ہو رہا ہے ،
غیور اور نہتے افغانوں سے بری طرح پٹ رہا ہے اور مذاکرات کی آڑ لے کر
افغانوں کے اس کاری وار سے بچنے کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے وہی امریکہ ا
یک مضبوط ایٹمی پاور مسلم ریاست کو مسلسل گیدڑ بھبھکیاں دیے جار ہاہے، اس
کے ڈر سے اس ریاست کے حکمرانوں پر ایک کپکپی اور لرزہ سا طاری ہے اور ان کے
سوتے خشک ہوتے نظر آتے ہیں ۔ وزیر دفاع نے حالیہ پریس کانفرنس میں جس طرح
سے ڈرون حملوں کے خلاف بے بسی اور نیٹو سپلائی بحالی پر اصرار کیا ، یہ سب
ایک مضبوط دفاعی طاقت کی مالک آزاد ریاست کے لیے لمحہ فکریہ نہیں تو کیا ہے
۔۔۔؟ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے ایک طرف سفارتی سطح پر پاکستان پر دباﺅ
بڑھایا جا رہا ہے تو دوسری جانب تو پ و تفنگ کی زبان میں بھی بات کی جا رہی
ہے ۔انہی وجوہ کی بناءپر آج پاکستان ایک بار پھر دو راہے پرآن کھڑا ہے،
امریکی دوستی یا ”غلامی “اس کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے جسے نہ تو نگلا جا
سکتا ہے اور نہ ہی اگلا جا سکتا ہے ۔اس میں اب کوئی شک نہیں رہا کہ امریکہ
اور اس کے اتحادی عراق ، افغانستان کی طرح پاکستان کا امن بھی تباہ کر نے
کے در پے ہے ،امریکیوں کی خواہش ہے کہ افغانستا ن سے اپنا بوریا بستر
سمیٹتے سمیٹتے پاکستان کو خانہ جنگی کے اندو ہناک انجام سے دو چار کر تے
جائیں، اسی لیے قبائلی علاقوں پر امریکی جارحیت ایک نئی پالیسی کے تحت شروع
کر دی گئی ہے ،امریکہ ایک ایسا شتر بے مہار ہے جسے روکنا یا نکیل ڈالنا ویت
نامیوں یا افغانوں کے علاوہ کسی کے بس کا روگ نہیں کیونکہ اقوام متحدہ اور
عالمی قوانین تو اس کے گھر کی لونڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، امریکی سفارتی
نہیں بندوق کی زبان سمجھتے ہیں۔ مثل مشہور ہے ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں
مانتے “۔ اب بھلا افغانوں کی لاتوں سے ہار ماننے والا یہ بھوت ہماری ہوائی
باتوں سے کہاں باز آنے والا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ حافظ سعید او ر ایمن
الظواہری کے معاملے پر بھی پاکستان کو آنکھیں دکھائی جا رہی ہیں اور ان کی
آڑ لے کر اپنی سپلائی بحال کروانے کے جتن کیے جا ر ہے ہیں،پھر ہمارے وزیر
دفاع تو اپنے بیانات سے امریکہ کا ایجنڈا پورا کرنے کی پو ری کوششوں میں
لگے ہوئے ہیں ، نیٹو سپلائی کی بندش سے ان کی بے چینی اور بے کلی ہے کہ
تھمنے کا نام نہیں لے رہی، ان کے نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں پر ڈگمگاتے
بیانات کے بعد امریکی وزیر خارجہ بھی دھمکیوں پر اتر آئیں ،ہلیری کلنٹن نے
کہا ہم حافظ سعید کے معاملے پر بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں او ر ایمن الظواہری
بارے ٹھوس شواہد ہیں کہ وہ پاکستان میں موجود ہیں ، چوہدری احمد مختار اور
امریکی وزیر خارجہ کے بیانات کے بعد یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ وزیر
دفاع بزدلی پر مبنی بیانات داغ کر در اصل امریکیوں کی راہیں ہموار کرنے میں
مصروف عمل ہیں ۔ نائن الیون کے بعد نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کا
خمیازہ جس قدر پاکستان کو بے روزگاری ، مہنگائی ، خستہ حالی ، غربت ، بد
امنی کی صورت بھگتنا پڑرہا ہے وہ ایک کڑوی حقیقت ہے ، سو ارب ڈالرز کا
نقصان اٹھا کر اور چالیس ہزار پاکستانیوں کی قربانی دے کر بھی ہم بے مزہ نہ
ہوئے ،امریکی ڈومور کا تقاضا ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی جا رہا ہے
۔ اسامہ ، عافیہ صدیقی ، ڈرون حملوں کے بعد ایمن الظواہری اور حافظ سعید کے
خلاف کارروائی کا کہا جا رہا ہے ۔ یہاں عوام کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ
امر یہ ہے کہ ا قتدار کے ایوانوں میں عقل و خرد ، دانائی اور فہم و فراست
ہے کہ پسپا ہوتے دکھائی دے رہی ہے ، ڈالروں کی چکا چوند نے آنکھوں کو اس
قدر چندھیا دیا کہ قومی سلامتی ، داخلی خود مختاری نامی چیزیں عنقا، بے نام
و نشاں اور فرسودہ ہو کر رہ گئیں ۔ تمام تر ناگفتہ بہ حالات کو دیکھتے ،
سمجھتے ہوئے بھی قومی لیڈر آپس میں ہی دست و گریباں ہیں ، قومی سلامتی کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے انہیں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے سے ہی فرصت
نہیں۔نواز لیگ ، پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کی چھتری تلے ایک دوسرے سے
تعاون کرتی آئی ہیں اب الیکشن قریب آرہے ہیں تو اپنا اپنا ووٹ بنک محفوظ
کرنے کی خاطر ایک دوسرے کی مخالفت کی جار ہی ہے ۔ اس وقت جب کہ عالمی
طاقتوں کی پاکستان کےخلاف ریشہ دوانیاں عروج پر ہیں اور پاکستان کو
استعماری طاقتیں اپنے پنجے میں جکڑنے کے لیے میدان عمل میں اتر چکی ہیں
اگرسیاسی جماعتوں کے اس طرح کے طرز سیاست سے ان قوتوں کی طرف سے مملکت
خداداد کو کچھ ہوا تو ان کی یہ سیاست ، ان کی جماعتیں اور لیڈری کہاں جائے
گی ؟ کیا سب دھرے کا دھرا نہیں رہ جائے گا۔۔۔ ؟ وقت ہے کہ ان نامساعد ،
ناموافق حالات سے نبر د آزما ہونے کے لیے تمام سیاسی جماعتیں آپس کے
اختلافات بھلا کر ملکی سلامتی کے تحفظ کی خاطر ایک ہو جائیں ، ایک نکتے اور
ایک سٹیج پر جمع ہوملکی اور قومی سلامتی کا یہ مقدمہ ٹھوس بنیادوں پر لڑا
جائے ، بالخصوص ڈرون حملوں ، نیٹو سپلائی پر ٹھوس موقف اختیار کیا جا ئے ۔
ان حالات میں بزرگ شاعر ہدایت اللہ شاہ شاعر کی غزل ”نالہ دل“ کے یہ اشعار
یاد آرہے ہیں۔
خدایا مشکلیں آساں کر دے
مصائب ختم اے رحمان کر دے
بلاﺅں نے ہمیں ہے آن گھیرا
مداوا یا کوئی درمان کر دے
کہاں ہیں اب ابابیلوں کے لشکر
گھرا غیروں کے نرغے میں ترا گھر
نیا اک ابرہہ کعبے کے آگے
جو پہلے سے کہیں بڑھ کر ستم گر
مسلمانوں کے حاکم اس کے نوکر
اسی کی چاکری کرتے ہیں چاکر
اسی کو کرتے ہیں سجدے یہ سارے
یہ بندے اور وہ ہے ان کا داور
جدھر دیکھیں ادھر مسلم کا خوں ہے
ہوا بغداد بھی اب سر نگوں ہے
وہ افغانی کہ تھا بطل ِ حریت
پھرے دنیا میں وہ خوار و زبوں ہے
ہمیں پھر خوگرِ صبر و رضا کر
وہی پھر جذبہ غیرت عطاءکر
مرے نالہ و شیون سے خدایا
دل مسلم میں طوفاں اک بپا کر |