افغانستان میں امریکہ کا جمہوری تماشہ

کوئی شخص اگر کسی کے گھر میں رات ۱۰ بجے کے بعد چوری چھپے اچانک بلا بتلائے داخل ہو جائے اور کچھ پر اسرار حرکتیں کرنے کے بعد صبح چار بجے بھاگ کھڑا ہو تو اسے عام طور پر چور یا ڈاکو کہتے ہیں ۔ لیکن اگر وہ شخص ِ خاص ریاستہائے متحدہ امریکہ سے افغانستان جیسے کسی ملک میں وارد ہوا ہو تو اسے امریکہ بہادر کا صدر مملکت کہتے ہیں ۔ اس امر کا ثبوت گزشتہ ہفتہ ہونے والا صدر اوبامہ کا کابل کا دورہ تھا ۔امریکہ کا صدر جب کسی ملک کا دورہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تودورے سے کئی ماہ قبل اس کی تیاریوں کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ اس کی معمولی سے معمولی تفصیل نہ صرف طے ہو جاتی ہے بلکہ ان کا اعلان کردیا جاتا ہے ۔ ذرائع ابلاغ میں ان پر قیاس آرائیاں شروع ہو جاتی ہیں اور اس کے مثبت و منفی اثرات پر بحث و مباحثہ شروع کردیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ ایک ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے گویا یہ غیر معمولی واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ اس دورے سےامن ِ عالم کا بول بالا اور دہشت گردی کا منہ کالا ہو جائیگا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ان دوروں کے حوالے سے جو خیالی پلاؤ بنائے جاتے ہیں ان میں سے بہت کم حقیقت بن پاتے ہیں ورنہ دکھاوے کے کام مثلاً گارڈ آف آنر (توپوں کی سلامی) پارلیمانی خطاب، نام نہادعوامی تقریبات میں شرکت (جن میں صرف کچھ مخصوص لوگوں کو شرکت کی سعادت فراہم کی جاتی ہے)، مشترکہ اخباری بیانات اور اعلامیہ کے علاوہ کوئی ٹھوس بات نہیں ہو تی ۔ پسِ پردہ کچھ سازشیں اور سودے بازیاں ضرور ہوجاتی ہیں جنھیں گوں ناگوں وجوہات کی بنا پر صیغہ ٔراز میں رکھا جاتا ہے ۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ سب ناٹک بازی ان ممالک میں ہوتی ہے جہاں امریکی افواج موجود نہیں ہوتیں ۔اس کے برخلاف ان ممالک میں جہاں ہزاروں کی تعداد امریکی فوجی موجود ہوتے ہیں نہ صدر صاحب کسی فوجی پریڈ کا معائنہ کرتے ہیں اور نہ توپوں کی سلامی لیتے ہیں یہاں تک کے دورے کاپیشگی اعلان تک کرنے کی جرأت نہیں دکھائی جاتی اور نہ ہی کوئی اور چونچلے بازی ہوتی ہے بلکہ اچانک کسی چور کی مانند امریکی صدر کبھی بغداد تو کبھی کابل پہونچ جاتا ہے اور واپس اپنے بل میں لوٹنے کے بعد چوہے کی مانند اکڑ کہتا ہے کہاں ہے بلی ؟

اس معاملے میں تمام ترشخصی ، نظریاتی اور جماعتی اختلاف کے باوجودجارج ڈبلیو بش اور براک اوبامہ کےرویے میں بلا کی یکسا نیت پائی جاتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ریپبلکن گھوڑے اور ڈیموکریٹک گدھے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے بلکہ ان معاملات میں وہ دونوں خچر نظر آتے ہیں۔جارج بش کے بغداد سے جوتا کھا کر جانے کا یہ اثر تو ضرورہوا کہ اپنے بول بچن کے لئے مشہوراوبامہ نے کابل میں رات کے اندھیرے میں بھی پریس کانفرنس تک کرنے کی جرأت نہیں کی ۔پہلے توایک فرضی مصروفیت کاپروگروام بنا کر عوام وخواص کو دھوکے میں رکھا گیا اور پھر ایک ایسے جہاز میں جس کی تمام روشنیاں گل کر دی گئی تھیں چند مخصوص لوگوں کو جنھیں ساتھ لیا گیا تھا موبائل تک استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے امریکی صدر اپنے چنندہ افراد پر بھی کس قدر اعتماد کرتا ہے رات کے اندھیرے میں بگرام فوجی چھاؤنی میں لے جایا گیا ۔ جہاز کے اترنے بعد مسافروں کو بتلایا گیا کہ وہ کہاں ہیں ۔

کابل پہنچنے کے بعد ایک فوجی ہیلی کاپٹر انہیں صدارتی محل میں لے آیا اور وہاں ایک معاہدے پر دستخظ کئے گئے جسے تاریخی قرار دیا گیا حالانکہ دنیا بھر کی عوام تو کجا افغانی و امریکی عوام بھی نہیں جانتی کہ اس میں کیا لکھا ہے بلکہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس میں جو کچھ لکھا تھا اس سے خود حامد کرزئی یا براک اوبامہ بھی واقف تھے یا نہیں بلکہ اس میں بھی شک ہے کہ جن کاغذات پر حامد کرزئی نے دستخط کئے اس پر کچھ لکھا ہوا بھی تھا یا اس مجبور غلام نے اپنے آقا کے حضور بلینک چیک پر اپنا انگوٹھا لگا کر پیش کردیا۔اس عظیم کامیابی کا جشن براک اوبامہ نے فوجی چھاؤنی کے اندر جاکر منایا اور امریکی مقاصد کی برآوری کے بلند بانگ دعوے کئے جن کی قلعی اوبامہ کے نکلنے کے صرف ڈیڑھ گھنٹے کے اندر اسی فوجی چھاؤنی سے چند میل کے فاصلے پر کئے جانے والے لاقائدہ کے حملے نے کھول کر رکھ دی ۔اس حملے کے بعد یقیناً ہر امریکی فوجی نے اپنے آپ سے اور ایک دوسرے سے یہ کہا ہوگا کہ اگر یہ احمق یہاں نہیں آتا تو اچھا تھا ممبئی کی زبان میں کہیں تو ’کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنا‘

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنی فوجوں کی موجودگی کے باوجود امریکی صدرکو اس طرح کے اچانک اور خفیہ دورے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟ اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہے امریکی صدر اپنی سیاسی ضرورت کے پیش نظر یہ سب کرتا ہے ۔ امریکہ کے صدراتی انتخاب اب صرف ۶ ماہ کا قلیل فاصلے پر ہیں ۔ان انتخاب میں کامیابی کا منصوبہ براک اوبامہ نے ایک سال قبل بنایا اور اسامہ بن لادن کے نام پر نہ جانے کس غریب کو ہلاک کر دیا۔ اس سے براک اوبامہ نے دو فوائد حاصل کئے اول تو ڈرون حملوں کی مدد سے پاکستانی عوام پرکئے جانے والے سارے مظالم کا جواز فراہم ہو گیا اس اعلان کے ساتھ اسامہ پاکستان میں پناہ گزین تھا دوسرے جس کام کو ریپبلکن پارٹی اپنے دور اقتدار کے ۸ سالوں میں نہیں کر سکی اس کے کر گزرنے کا کریڈٹ بھی مل گیا۔ ریپبلکن اس کی تردید اس لئے نہیں کر سکتے تھے کہ خود ان لوگوں نے اسامہ بن لادن کی اصلی موت کی خبر پر پردہ ڈال کر برسوں ان کے نام سے امریکی عوام کو خوفزدہ کر کے اپنے سیاسی مفادات حاصل کئے ۔

دنیا بھر کی جمہوری سیاست میں بشمول امریکہ کےسنجیدہ مسائل سے صرفِ نظر کرکےجذبات کو ہوا دینے کا رحجان عام ہے اور ایسا رویہ خاص طور پر بر سرِ اقتدار جماعت کی جانب سے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے پیشِ نظر اختیار کیا جاتا ہے ۔ امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں اس معاملے میں یکساں مجرم ہیں ۔ جارج ڈبلیو بش نے عراق کے شعلوں کو ہوا دے کر دوسری بار کا میابی حاصل کی حالانکہ اس وقت امریکی معیشت کے بحران کا آغاز ہو چکا تھا ۔ بیروزگاری میں اضافہ ہونے لگا تھا اس کے باوجود اس نےغریبوں کو حاصل مراعات میں کٹوتی کی اور امیروں پر سہولیات کے ڈونگرے برسائے ۔ اوبامہ نے جب میک کین کے خلاف اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تو عوام کی فلاح و بہبود پر اپنی توجہ مرکوز کی اورعظیم تبدیلی کا وعدہ کیا ۔ اوبامہ کا نعرہ تھا ’ہم یہ کر سکتے ہیں ‘ پریشان حال عوام اس کے جھانسے میں آگئے اور ان کے دلوں میں امید کی ایک شمع روشن ہو گئی ۔ لوگوں بڑھ چڑھ کر اوبامہ کی حمایت کی اور بڑے زور و شور کے ساتھ وہ اقتدار پر قابض ہوگئے لیکن اس کے باوجودنہ معاشی اصلاحات ہوئیں اورامریکہ کی غریب عوام کے دن نہیں بدلے بلکہ اعداو شمار اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے۔

امریکی حکومت کا خسارہ لگاتار چوتھے سال ایک لاکھ کروڈ ہے اس گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالنے میں اوبامہ پوری طرح ناکام رہے ۔سرکاری اخراجات جو گزشتہ سال کل قومی آمدنی کا ۲۰ فیصد تھے وہ اب بڑھ کر۵ء۲۳ فیصد ہو گئے ہیں یہ تشویشناک ہے۔ اوبامہ فرض کا بوجھ تو ہلکا نہ کر سکے ہاں اس پر لگی پابندی کو بڑھانے میں کامیاب ہونے لگے ورنہ امریکہ کے دیوالیے پن کا باقائدہ اعلان ہونے لگتا ۔ وہ ٹیکس کی شرح میں اضافے کی خاطر بش کی پابندی کے خاتمے کا نتظار کررہے ہیں لیکن ان کے مخالف مٹ رومنی بھی ان ان اصلاھات کے حامی ہیں اس لئے اس بابت انہیں کو ئی فوقیت حاصل نہیں ہے اور پارلیمان میں موجود ریپبلکن کی حمایت سے فیصلہ ہوا ہے اس لئے اس کا کریڈٹ لینے کا حق ریپبلکن پارٹی کو حاصل ہے۔ اس دورن امریکی معیشت کی ابتری کا ایک ثبوت ان دونوں جماعتوں کا آئندہ دس سال تک کے فوجی اخراجات میں ۷ء۴۸ لاکھ ڈالر کی کٹوتی پر بھی اتفاق ہے ۔

ان اعدادو شمار کی روشنی میں اس بات فیصلہ کرنا کوئی مشکل کام نہی ہے کہ براک اوبامہ عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکے۔ اس کا علم خود انہیں بھی ہے اس کے باوجود وہ ایک مرتبہ اور صدر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ انتخاب سے پورے دو سال قبل اوبامہ نے اپنی انتخابی حکمت ِ عملی کو آخری شکل دے دی اور اسامہ بن لادن کے قتل کاناٹک رچایا۔ایک سال تک عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ یہ عظیم کارنامہ خود صدر صاحب کی نگرانی میں انجام دیا گیا ہے اور اس کے ذریعہ امریکی عوام کی سب سے بڑی خدمت انجام دی گئی ہے حالانکہ اوبامہ نے انتخابی مہم کے دوران جو حسین خواب دکھلائے تھے ان میں تو معیشت کا احیاء، طبی سہولیات کی فراہمی ۔عوام کے ٹیکس میں کٹوتی جیسے وعدے سرِ فہرست تھے لیکن جب ان میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوسکا اس لئے کہ وہ ان لوگوں کے مفادات سے ٹکراتا تھا جن لوگوں نے انتخاب لڑنے کیلئے چندہ دیا تھا تو پھر شروع ہو گیا جذباتی استحصال کا پرانا کھیل ۔فلمی انداز کا حملہ ۔ لاش کو دریا برد کیا جانا اور اب اس واقعہ کی سالگرہ کے موقع پر کابل کا دورہ۔ یہ سب سیاسی شعبدہ بازی نہیں تو اور کیا ہے کہ وابامہ نے اپنے خفیہ کابل کے دورے کیلئے اسی تاریخ کا انتخاب کیا اور اس کا پھر ایک بار کریڈٹ لینے کی کوشش کی حالانکہ وہ ایک قابلِ فخر نہیں بلکہ لائقِ شرم واقعہ تھا ۔

فیڈل کاسٹرو نے کہا تھا کسی بھی نہتے شخص کو گرفتار کرنے کے بجائے اس کے اہل خاندان کے سامنے اسے ہلاک کر دینا کوئی دلیری نہیں ہے ۔ اس سے آگے بڑھ کر معروف یہودی مفکر نام چومسکی نے یہاں تک کہا تھاکہ ہمیں (یعنی امریکی عوام کو)یہ سوچنا چاہئے کہ اگر عراق سے کچھ حملہ آور آکر جارج بش کے کمپاؤنڈ پر دھاوا بول دیں اور اسے مار کر اس کی لاش کو سمندر میں پھینک دیں تو ہمیں کیسا لگے گا ؟ لیکن سچ تو یہ ہے کہ امریکی معاشرے نام چومسکی جیسے لوگوں کی جانب توجہ دینے والے بہت کم ہیں اور براک اوبامہ جیسے بازیگروں کے بہکاوے میں آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ اس بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ براک اوبامہ کے واپس لوٹتے ہی کابل پر طالبان کو جو زبردست حملہ ہوا ہے وہ کس بات کا ثبوت ہے ۔ کیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گیا یا کہ وہ بارہ سال بعد بھی پوری طرح ناکام و نامراد رہا ہے ؟

اوبامہ کے مخالف مٹ رومنی نے ؁۲۰۰۷میں ایک سمجھداری بات کہی تھی کہ کسی ایک فرد کو گرفتار کرنے کی خاطر آکاش پاتا ل کو ایک کردینا اور کروڈہا کروڈ ڈالر خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔وہ قیمت چکائے گا اور اپنی موت مرے گا ۔ فی الحال اوبامہ اور اس کے حواری اس بیان کی سیاست کھیل رہے ہیں ۔ اوبامہ کا کہنا ہے کہ میں نے کہا تھا اگر مجھے اطلاعت موصول ہوں گی تو اقدام کر گزروں گا اور میں نے ایسا کیا لیکن جولوگ کچھ کہتے تھے بتلائیں کے اب کیا کہتے ہیں ۔ان پارٹی اشتہار بازی کر رہی ہے کہ کیا’کیا رومنی میں ایسا اقدام کرنے کی ہمت ہے‘اس کے جواب میں ریپبلکن کا کہنا ہے کہ یہ تو کوئی بھی کرسکتا تھا ۔جمی کارٹر جیسا کمزور ڈیموکریٹ بھی اس معاملے میں پس وپیش نہیں کرتا ۔ گویا اب انتخابی مہم کو جان بوجھ کر عوام کے اصلی مسائل سے دور لے جانے کی کوشش اوبامہ کی جانب سے کی جارہی ہے ۔سیاسی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ اوبامہ اور رومنی کی مقبولیت کے درمیان فرق نہایت معمولی ہے ۔ اگرکامیابی و ناکامی کا درومدار اس بات پر ہے انتخاب میں مرکزیت کس مسئلے کو حاصل ہوتی ہے ۔ اگر اسامہ کا مسئلہ چل جاتا ہے تو اوبامہ کامیاب ہو سکتے ہیں اور اگر معیشت پر انتخابات لڑے جاتے ہیں تو رومنی کی کامیابی کے امکانات روشن ہیں ۔

فرانس کے انتخابات نے یہ ثابت کردیا کہ سرکوزی بین الاقوامی سطح پر تین بڑی کامیابیوں کے باوجود عوام کو متاثر نہیں کرسکے اور داخلی محاذ پر ان کی ناکامی انہیں لے ڈوبی ۔برطانیہ کے حالیہ مقامی انتخابات میں بر سر اقتدار جماعت کی ناکامی اور لیبر پارٹی کی کامیابی بھی اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ عوام اب اپنے بنیادی مسائل کی جانب سنجیدہ ہو رہے ۔ معاشی بحران یوروپ کے ۱۱ سربراہاں کو نگل چکا ہے ۔اس لئے اوبامہ کی حتی الامکان یہ کوشش ہے کہ عوام کو ورغلا کر ان سے دور رکھا جائے ۔اس کے برعکس ریپبلکن امیدوار میٹ رومنی کی انتخابی مہم کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ تمام مسائل جن کو گزشتہ انتخاب میں اوبامہ اٹھا رہے تھے وہ اب رومنی کی زبان پر ہیں ۔

رومنی سوال کرتے ہیں کہ اوبامہ کو اسامہ کے بجائے یہ بتلانا چاہئے کہ وہ بسترِ مرگ پر پڑی معیشت کی صحت بحال کرنے کیلئے کیا کریں گے ؟ یہ سوال اب پوری طرح بے معنی ہو کر رہ گیا ہے کہ اگر رومنی اقتدار میں ہوتے تو وہ اسامہ کے قتل کے احکامات جاری کرتے یا نہیں ؟ ہزاروں کلومیٹر دور محفوظ مکانات میں بیٹھ کر کسی کمپاؤنڈ پر اپنے دہشت گردوں کے ذریعہ حملہ کروا دینا کو دلیری نہیں ہے ۔ لیکن اوبامہ کے پاس رومنی کے سوالات کا جواب نہیں ہے اس لئے وہ رومنی پر ذاتی قسم کے حملے کرنے لگ گئے ہیں ۔ ان کی دولت کس قدر ہے ؟ انہوں نے ٹیکس کس شرح سے ادا کیا ۔ ان کی وجہ سے کتنا کام دیگر ممالک میں گیا اوراس سے کس قدر بے روزگاری بڑھی وغیرہ وغیرہ۔امریکہ میں ہوتا یہ ہے کہ مسائل موجود رہتے ہیں لیکن غلط ہاتھوں میں جس کے پاس اقتدار نہیں ہوتا وہ ان کا شور مچا کر عوام کی ہمدردیاں جمع کرتا ہے تاکہ اقتدار حاصل کر لے اگر کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر ان کو بھلا دیتا ہے اور اگر ناکام ہوجاتا ہے تو ان کی گردان جاری رکھتا ہے ۔ اوبامہ نے بھی یہی کیا اور رومنی بھی یہی کر رہا ہے ۔ انتخابات آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے عوام کے نمائندوں کے مسائل حل ہو تے رہیں گےان کی خوشحالی میں اضافہ ہوتا رہے گا اور عوام کی بدحالی بڑھتی رہےگی ۔ ساتھ ہی جمہوریت کا بول بالا ہوتا رہے گا۔

اہل مغرب سے اگر دریافت کیا جائےکہ سیاست کی تعریف کیا ہے تو جواب ملے گا یہ ایک ایسا عمل ہے۔جس سے قانون کے مطابق عوامی معاملات کا تصفیہ کیا جاتا ہے۔مغرب میں زمانۂ تک قانون نام کی کسی چیز کا وجود نہیں تھا اور حکمرانِ وقت کی من مانی ہی دستور حیات ہوا کرتی تھی ۔ اس زمانے کو مغربی دانشور تاریک دور کے نام سے منسوب کرتے ہیں ۔ اس لئے بعد میں جب تہذیب و تمدن کی دھندلی سی روشنی آئی اور نظام سیاست کو وضع کیا گیا تو اس میں قانون اور دستور کی بالاتری پر زور بہت دیا گیا ۔سیاست کی یہ تعریف کسی خاص نظام حکومت کیلئے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کا اطلاق سبھی نظامہائے سیاست پر ہوتا ہے گویا فن ِحکمرانی ہی دراصل سیاست ہے۔اسی لئےامور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیٹکس کا پیشہ اختیار کرنے والوں کیلئے مغرب میوزیشین سے مشابہ پولیٹی شین کی اصطلاح وضع کی ۔ایسا لگتا ہے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سیاستداں بھی آگے چل کر موسیقاروں کی مانند نت نئے راگ الاپ کر عوام کی تفریح طبع کا سامان بہم پہنچائیں گے ۔

مغرب کےدانشوروں سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ تمام نظامہائے سیاست میں بہترین نظام کون سا ہے تو سب بیک زبان ہوکر یہ کہیں گے نظامِ جمہوریت۔شاید اس لئے کہ اس نظام کے تحت کام کرنے والے سب سے اعلیٰ اورارزاں تفریح فراہم کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کا براہِ راست اعتراف کرنے کے بجائے یہ کہہ دیا جاتا ہے جمہوریت ایک ایسا سیاسی طریقۂ کار ہے جس میں حکومتی فیصلے عوامی رائے عامہ کی روشنی میں عوام کے مفاد کی خاطر ان کے نمائندوں کے ذریعہ کئے جاتے ہیں۔ویسے تو یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ۔ جمہوری عمل میں کامیاب ہونے والے نام نہادنمائندوں کو عوام کی اکثریت کی نہیں بلکہ سب سے بڑی اقلیت کی حمایت حاصل ہوتی ہے جسے اکثریت کا نام دے دیا جاتا ہے ۔ وہ نمائندے کسی سرکاری فیصلے کو کرنے کیلئے عوام کی رائے لینا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اگر ہندوستانی جمہوریت ہو تو اپنے ہائی کمانڈ کے تابع و فرمانبردار ہوتے ہیں اور اگر امریکی ہو تو بڑے بڑے سرمایہ داروں کے احکامات کی تعمیل کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ جیسا کہ بش اور اوبامہ کے کردار سے واضح ہے ان دونوں کا عوام کے مفاد سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا ہے ۔دنیا بھرکے جمہوری اتھل پتھل کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے گویاسیاستداں مداری بنے ہوئے ہیں اور پارٹی کے کارکنان کو انہوں نے اپنا جمہورا بنا رکھا ہے اور یہ دونوں مل کر عوام کو ہاتھ کی صفا ئی سے نظر بندی کے کھیل میں مبتلا کئے ہوئے ہیں ۔نہ جانے کیسے کسی منچلے نے مداری کے نائب کو جمہورا کا نام دے دیا یقیناً وہ شخص جمہوری نظام کی اصلیت سے واقف رہا ہوگا ۔

مغرب میں رائج جمہوری نظام کی بنیادکا پتھرمشہور زمانہ میگنا کارٹا کو قرار دیا جاتا ہے جس کی داغ بیل ؁۱۲۱۵ میں کچھ اسی طرح سے پڑی کہ برطانوی بادشاہ جان کی اوٹ پٹانگ حرکات سے اس کی عوام تو کجا مصاحبین بھی پریشان تھے اورایسے میں درباریوں نے اپنے آپ کو آئے دن ہونے والی زیادتی سے محفوظ رکھنے کی خاطر چند حقوق کو تسلیم کروایاجس سے حکمراں کے اختیارات میں کسی حد تک تجدید کی گئی ۔ یہ سلسلہ جاری و ساری رہا آگے چل کر عام انسانوں کے بنیادی حقوق کا تعین پر منتج ہوا ۔یہی فرانس کے انقلاب کا سبب بنا اورپھر سیکولر جمہوری نظام کے تحت ایک دستور کو بالا دستی حاصل ہوئی ۔ حالانکہ اس سے نصف صدی قبل مدینہ میں ایک ایسی ریاست عملاً قائم کر دی گئی تھی ۔ جس میں نہ صرف خواص بلکہ عوام کے حقوق کو مکمل طور محفوظ کر دیا گیا تھا اور ایسا دائمی الہامی دستور نافذ کردیا گیا تھا جس میں ذرہ برابر کمی بیشی کی اجازت نہ تو عوام کو تھی اور نہ ان کے حکمرانوں کو ۔ یوروپ کا جب اسلام سے سابقہ پیش آیا تو اس کے علماء اور دانشوروں نے مسلمانوں سیاست سیکھی اور ظلمات سے نور کی جانب سفر کا آغاز کیا لیکن درمیان میں بھٹک گئے لیکن جب مسلمانوں نے انگریزوں سے سیاست کا سبق سیکھنا شروع کیا تو وہ اجالے سے اندھیروں کی جانب نکل گئے اور اب حال یہ ہے کہ ہم بھی ان کی مانند در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.