چوہدری احمد مختار کا بیان اور زمینی حقائق

قوموں کی تاریخ میں اس کے رہنماؤ¿ں کا کردار ہمیشہ کلیدی حیثیت کا حامل رہا ہے کیوں کہ وہ مشکل وقت میں قوم کے مسائل کے حل کیلئے بہتر منصوبہ بندی اور حکمت عملی سے حالات کو بدل دیتے ہیں جس سے قوم ایک بارپھر ترقی و خوشحالی کے راستے پر رواں دواں ہو جاتی ہے یا دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مصیبت پڑنے پر یہ قومی رہنما قوم کا مورال بلند رکھتے ہیں جس سے قوم بڑی سے بڑی مشکل اور پریشانی کے کوہِ گراں کو بھی ہنسی خوشی پار کرلیتی ہے کیوں کہ انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کے پار اُن کی منزل اُن کی راہ تک رہی ہے جہاں پہنچتے ہی اُن کی ساری تھکاوٹ اور تکلیفیں ختم ہو جائیں گی۔ لیکن افسوس ہماری منطق ہی نرالی ہے ہم پر جب بھی کوئی مصیبت آئی ہمارے قومی رہنماؤں نے قوم کو یا تو بیچ منجھدھار چھوڑ دیا اور یا پاکستان کا کھاکر غیروں کی وفاداری شروع کردی اگرچہ ایسے راہنما نما راہزنوں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن اس سلسلے کی تازہ ترین مثال پاکستان کے وزیرِ دفاع جناب احمد مختار کی ہے جنہوں نے گزشتہ روز یہ ارشاد فرمایا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بندش عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے اور یہ کہ اگر نیٹو سپلائی بحال نہ کی گئی تو امریکہ ناراض ہوسکتا ہے جس کا نتیجہ ہم پر پابندیوں کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے ۔ایک اسلامی اور ایٹمی قوت کی حامل مملکتِ خداداد کی وزارتِ دفاع جیسی اہم ترین ذمہ داری پر فائز جناب احمد مختار کی جانب سے اس قسم کا بیان پہلی دفعہ سامنے نہیں آیا موصوف اس سے پہلے بھی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ڈراوے دیتے رہتے ہیں عوام کو یاد ہو گا کہ ڈرون حملوں کے جواب میں جب قوم نے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان ان ڈرون طیاروں کو کیوں نہیں گراتا تو موصوف نے فوراََ یہ بیان داغا کہ پاکستان کے پاس ڈرون کو گرانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے جس سے قوم کو بڑی مایوسی ہوئی کہ ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک کے پاس آخر کیوں ایسی ٹیکنالوجی نہیں ہے وہ ان ظالم ڈرونز کو گراسکے جو آئے روز ہماری سرحدوں کو پامال اور ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کررہے ہیں ؟ وہ تو بھلا ہو ائر چیف راؤ قمرسلیمان کا کہ انہوں نے اگلے روز ہی یہ بیان دے کر احمدمختار کے بیان کا پول کھول دیاکہ پاکستان کے پاس ڈرونز گرانے کی بہترین ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن اس کیلئے ہمیں سول حکومت کی جانب سے حکم کا انتظار ہے ہم سمجھتے ہیں کہ چوہدری صاحب کا یہ بیان نہ صرف کہ زمینی حقائق کے بالکل خلاف ہے کیوں کہ ایک ایسے وقت میں جب پوری قوم نیٹو سپلائی کی مستقل بندش پر متفق ہے اور امریکی جنگ سے علیحدگی و ڈرون گرانے کا مطالبہ پوری شدومد سے کررہی ہے ایسے میں چوہدری صاحب کی جانب سے نیٹو کے صیہونی اتحاد کو راستہ فراہم کرنااُن کی طرف سے ایک بار پھر شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا ثبوت دیا ہے ۔قوم چوہدری صاحب سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ انہیں تین ماہ سے تعطل کا شکاررہنے والی نیٹو سپلائی تو عالمی معاہدوں کے خلاف نظر آرہی ہے لیکن وہ قوم کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ امریکہ کی جانب سے گزشتہ سات سال سے جاری ڈرون حملے کن عالمی معاہدوں کی پاسداری ہیں جن میں ہمارے بے شمار فوجی و شہری جاں بحق ہو چکے ہیں یہ بات بہت قابلِ غور ہے کہ جب سے پاکستان نے نیٹو سپلائی بند کی ہے اُس کے بعد نہ صرف ڈرون حملوں کی تعداد نمایاں حد تک کم ہوئی ہے بلکہ ملک میں جاری دہشتگردی و بدامنی کے واقعات بھی حیرت انگیز حد تک کم ہو گئے ہیں اور یہاں شیخ رشید صاحب کا یہ بیان کافی لائقِ توجہ ہے کہ اگر حکومت نے نیٹو سپلائی بحال کی تو خودکش حملے پھر سے شروع ہوسکتے ہیں آخر کیاوجہ ہے کہ چوہدری صاحب کو اپنے ہم وطنوں کے خون سے زیادہ امریکی جنگ زیادہ عزیز ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چوہدری صاحب کو ایک ایسے وقت میں نیٹو سپلائی کی بحالی کی فکرسرزد ہورہی ہے جب افغانستان میں امریکی طاقت کا غرور سر پٹخ پٹخ کر دم توڑ رہا ہے اور وہ امریکہ آج اُن بوریا نشینوں کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہے جن کے خاتمے کیلئے اُس نے نیپام و ڈیزی کٹر سمیت اپنے اسلحہ خانے کا ہر اسلحہ جھونک دیا ۔آخر میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا مانے یا نہ مانے افغانستان کا مستقبل طالبان نے ہی سنبھالنا ہے اور ایسے میں ہمیں بھی زمینی حقائق کو دیکھ کر ہی فیصلے کرنا ہوں گے جو یہ ہیں کہ اس end gameکے وقت نیٹو سپلائی کی بحالی افغانستان کے غیور عوام کی پیٹھ میں ایک بار چھرا گھونپنے کے مترادف ہو گابلکہ یہ بہترین وقت ہے کہ ہم ڈکٹیٹر پرویز کی ہوئی غلطی کا ازالہ کرتے ہوئے کھل کر امریکہ کو نومور کہہ دیں کہ اسی میں ملک و قوم کی بھلائی بھی ہے اور یہی وقت کا تقاضا بھی ہے ۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100764 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.