عدالتی قتل

جب ا س بات کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ عوامی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرنا اور اس کی راہ میں میں روڑے اٹکانے ہیں تو پھر اس کےلئے بے شمار راستے موجود ہیں ۔ جس ملک کے وز یرِ اعظم کے پاس اپنے سٹاف کو تر قیاں دینے ،ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے اور انھیں ٹراانسفر کر نے کے اختیارات بھی نہ ہو وہاں پر بخوبی اند ازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ وزیرِ اعظم کتنے پانی میں ہے اور کتنا با اختیار ہے۔وزیرِ اعظم کو کوئی دوسرا ادارہ انتظامی امور پر ڈکٹیشن دینا شروع کر دے تو یہ باور کر لینا چائیے کہ یہ عوامی مینڈیٹ کی کھلی توہین ہے۔یک طرفہ ٹریفک جہاں بھی چلے گا اسی قسم کے نتائج آئیں گئے جیسے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں۔ آزاد عدلیہ کی جنگ میں لہو سے رنگ بھرنے والوں کو جب دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جائے گی تو پھر عدالتیں اپنا وقار کھو دیں گی۔پاکستان کے لوگ باشعور ہیں وہ کھوٹے اور کھرے میں پہچان کا مادہ رکھتے ہیں اور جو کوئی بھی انھیں بیوقوف بنانے کی کوشش کرے گا وہ خود رسوا ہو جائے گا ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے والے دن (26 اپریل) کو ملتان میں ضمنی انتخاب تھا او رجس نشست پر انتخاب ہو رہا تھا وہ مسلم لیگ (ن) کی روائیتی نشست تھی اور اس نے فروری2008کے انتخابات میں وہ نشست بڑی واضح برتری سے جیتی ہو ئی تھی لیکن عدالتی فیصلے والے دن و ہی نشست مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک معمولی کارکن سے ہارگئی ہے ۔ ہونا تو یہ چائیے تھا کہ عدالتی فیصلے کے بعد پی پی پی کی پیشانی پر لگائے گے داغ کی وجہ سے اس حلقے سے پی پی پی کا صفایا ہو جاتا لیکن نتائج اس کے بالکل بر عکس نکلے اور پی پی پی کا صفایا دیکھنے والوں کو ہزیمت اٹھا نی پری ۔پنجاب میں میاں شہباز شریف وزیرِ اعلی ہوں اور انتظامیہ میاں شہباز شریف کے اشاروں پر ناچتی بھی ہو تو ہر شخص بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایسی صورتِ حال میں الیکشن کتنا مشکل ہو گا ۔ میاں شہباز شریف کی موجودگی میں پاکستان پیپلز پارٹی کا امتخاب جیت جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

فروری 2008کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے یہی نشست چودہ ہزار (14000) ووٹوں سے ہاری تھی لیکن اس دفعہ مسلم لیگ (ن) کی یہی پکی سیٹ جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے ہاتھ لگ گئی ہے وہ یہ ثابت کرنے کےلئے کافی ہے کہ سیاسی جنگ ہمیشہ سیاسی میدان میں ہی لڑی جاتی ہے۔ عدالتی سہارالینا ، میڈیا کا سہارا لینا اور پھر اسی طرح کے دوسرے عوامل سیاسی جنگ کی جیت میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کر سکتے ۔ عوام کو بخوبی یاد ہو ناچائیے کہ جمشید دستی کے ضمنی انتخاب کے وقت بھی میڈیا نے جس طرح جمشید دستی کی کردار کشی کی تھی اور اس کے خلاف جس طرح کی غلیظ مہم چلائی تھی اس کے نتیجے میں جمشید دستی کو وہ الیکشن ہار جانا چائیے تھا لیکن جمشید دستی نے خان گڑھ میں نوابزادہ نصراللہ خان کے روائیتی حلقے میں ان کے فرزندِ ارجمند نواب زادہ منصور خان اور پنجاب کے مردِ آہن غلام مصطفے کھر کو جس طرح چاروں شانے چت کیا تھا اس نے میڈیا کو بر ا نگیحتہ کر دیا تھا اور اسے خاک چاٹنی پڑی تھی ۔ اس فیصلے کے بعد میڈیا کو بھی اپنی صفوں میں تبدیلی کا ڈول ڈال دینا چائیے تھا اور کچھ حدو دو قیود کا تعین کر لینا چائیے تھا لیکن اس نے ایسا نہ کیا جسکا اسے خود ہی خمیازہ بھگتا پڑ رہا ہے کیونکہ میڈیا کی نیک نامی دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ میڈیا بعض اوقات اپنی حدود سے اس حد تک تجاوز کر جا تا ہے کہ لوگوں کو گھن آنے لگتی ہے۔ میڈیا کومیں اس لئے زیادہ موردِ الزام نہیں ٹھہراتا کہ یہ ایک کمرشل ادارہ ہے اور میڈیا کو اپنی ریٹنگ قائم رکھنے کےلئے کبھی کبھی سنسنی خیزی کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے اور میڈیا کبھی کبھی اپنی ریٹنگ کےلئے وہ کچھ کر گزرتا ہے جو اسے زیب نہیں دیتا ۔ میڈیا کےلئے خود احتسابی کی راہ اپنائی جانی ضروری ہے تا کہ عوام اس کے فوائد سے بہرہ ور ہو سکیں لیکن عدلیہ جس کا کام غیر جانبداری، دیانت دار ی اور ایمان داری کے ساتھ انصاف کو یقینی بنانا ہو تا ہے جب وہ ایک فریق کی جانب جھکاﺅ کا مظا ہرہ کرتی ہے تو پھر انصاف پسند حلقے تڑپ کر رہ جاتے ہیں۔کیا پنجاب میں فرشتے رہتے ہیں کہ وہاں پر جر ائم نہیں ہوتے ہیں؟ مجھے تو ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ پنجاب کے حکمران نہ کو ئی کرپشن کرتے ہیں اور نہ ہی کسی غلطی کا ان سے ارتکاب ہو تا ہے اور نہ ہی پنجاب میں ڈاکے، چوریاں، ڈکیتیاں اور ورداتیں ہوتی ہیں بلکہ وہاں پر عدل و انصاف کی نہریں بہہ رہی ہیں کیونکہ یہی وہ پیغام ہے جو عدالتوں کی جانب سے سارے پاکستا نیو ں کو دیا جا رہا ہے۔ پنجاب حکومت کے وزرا اور دوسرے اہم حکومتی عہد یداروں کے خلاف کو ئی بھی اہم مقدمہ عدالتوں کے رو برو نہیں ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کہ عدالتیں مسلم لیگ (ن) کی جانب ہاتھ ہولا رکھے ہو ئے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ عدالتوں کا پہیہ صرف پی پی پی کو روندھے جا رہا ہے جب کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہر قسم کے عدالتی پریشر سے آزاد ہے اور کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ انھیں کٹہرے میں کھڑا کر کے ان کا احتساب کر سکے اور انھیں یہ جتانے کی جرات کر سکے کہ وہ قانون سے بالا تر نہیں ہیںاور انھیں بھی اپنے آپ کو قانو ن کے حوالے کرنا ہو گا جس کے فی ا لحال آثار نظر نہیں آرہے۔۔۔

ملتان کا الیکشن ان تمام قو توں کو جو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں ایک کھلی وارننگ ہے کہ یہ پارٹی اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے ختم ہونے والی نہیں ہے۔اس طرح کی حرکتیں ماضی میں بھی اس کے خلاف ہو تی رہی ہیں لیکن ان کے نتائج بھی اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے بالکل بر عکس نکلتے رہے ہیں اور آئیندہ بھی جب کبھی اسی طرح کا کھیل کھیلنے کی کوششیں کی جائیں گی نتائج پھر بھی ان کی مرضی کے خلاف نکلیں گئے۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ پاکستان پیپلز زپارٹی کے خلاف گہرا وار ہے اور عوام اسے عدالتی قتل سے تعبیر کر رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو عدالتوں کے ہاتھوں ہمیشہ ہی نقصان پہنچایا گیا ہے اور ان کی قیادت کو جھوٹے مقدمات میں الجھا کر زندانوں کی صعوبتوں کے حوالے کیا گیا ہے اور ان کی شہرت کو داغدار کرنے کی مذموم کوششیں کی گئیں ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی سے عوام کی محبت کو کسی بھی طرح سے کم نہیں کیا جا سکا ۔ ذولفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ، محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف عدالتی سزائیں اور آصف علی زرداری کو سا ڑ ھے گیارہ سالوں تک زندانوں کی اذیتوں میں رکھنا پاکستانی عوام کو یہ باور کروانے کےلئے کافی ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو عدالتوں سے کبھی بھی انصاف نہیں ملا۔ سید یوسف رضا گیلانی کا قصور صرف اتنا ہے کہ اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے انکار کیا تھا اور انھوں نے وہ کردار ادا کرنے سے معذرت کر لی تھی جو اس سے قبل سردار فاروق خان لغاری نے ادا کیا تھا لہذا سید یوسف رضا گیلانی کو ان کے اس انکار کی سزا دینا ضرور ی تھا اور سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ملک کے منتخب وزیرِ اعظم کو عدالتی فیصلوں سے نہ نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی جھکایا جا سکتا ہے کیونکہ اسے نکالنے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے اور اس کے لئے آئین میں ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ جمہوریت کی بقا کی خاطر ہمیں اسی راہ کا ا نتخا ب کرنا ہے تا کہ جمہورت کی گاڑی اپنی پٹری پر گامزن رہے اور کوئی مہم جو شب خون مار کر اسے پٹری سے اتار کر اقتدار پر پھر قابض نہ ہو جائے

ایک انتہائی دلچسپ بات عدالتی کاروائی کے بارے میں جو عوام کے شکو ک و شبہات کو مزید تقویت عطا کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ مارچ 2008 میں جب جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس ا فتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے سبکدوش کیا تھا تو چیف جسٹس ا فتخار محمد چوہدری اپنی اس سبکدوشی کے خلاف ایک اپیل دائر کرنا چاہتے تھے لیکن اس وقت کے ایس پی اسلام آباد نے چیف جسٹس ا فتخار محمد چوہدری کے ساتھ بد تمیزی کی، ان کا راستہ رو کا، ان کے ساتھ دھکم پیل کی، انتہائی نا رواہ اور بیہودہ رویہ روا رکھا اور چیف جسٹس کو دھکے دے کر ذلیل کرنے کی جسارت کی۔ چیف جسٹس ا فتخار محمد چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد اسی ایس پی کے خلاف توہینِ عدالت کی کاروائی کر کے اسے سزا سنائی تھی جس کے خلاف اس ایس پی نے اپیل دائر کر دی تھی لیکن اس کی مجوزہ اپیل کا آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ وہ اپیل آج بھی التواءمیں پڑی ہو ئی ہے۔ وہ ایس پی اپنی سروس پوری کر کے ریٹا ئر بھی ہو چکا ہے لیکن عدالت نے اس کی جانب کبھی بھی مڑ کر نہیں دیکھا لیکن ایک وزیرِ اعظم پاکستان کو جس طرح بار بار عدالتوں میں بلایا گیا ہے وہ عدالت کے عزائم کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں عدالتیں جوڈیشل ا یکٹو ازم کا شکار ہیں اور ہمیں اس پر کو ئی اعتراض نہیں ہے بشر طیکہ یہ اپنی حدود و قیود میں رہ کر ایسا کریں اور عوام کا یہ باور کر وائیں کی انصاف سب کے لئے یکساں ہے اور انصاف کی نگاہ میں کسی کو کوئی خصوصی رعائت نہیں ہے ۔ سید یو سف رضا گیلانی پاکستان کے وزیرِ اعظم ہیں اور ۰۲ کروڑ پاکستانیوں کی عزت، وقار اور شان کی علامت ہیں اور انھیں روز بروز عدالتوں میں بلا کر ان کی جس طرح تضحیک کی گئی وہ 20 کروڑ پاکستانیوں کی تضحیک ہے جو کہ ناقابلِ برداشت ہے۔ میں سید یو سف رضا گیلانی کی ہمت، برداشت، جرات اور صبر کی داد دیتا ہو ں کہ انھوں نے اف تک نہیں کی اور عدالت کے ہر بلاوے پر عدالت میں حاضر ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کر نے کی کوشش کی حالانکہ قانوں انھیں حاضری سے استثنی عطا کرتا ہے۔ وہ شخص جو وزیرِ اعظم پاکستان ہو کر تین دفعہ عدالت کے سامنے پیش ہو جائے اس پر توہینِ عدالت کا الزام لگانا خود عدالت کا اپنی توہین کرنے کے مترادف ہے۔فرض کریں کی عدالت یہ محسوس کر رہی تھی کہ سید یو سف رضا گیلانی توہینِ عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں تو وہ ان کی حاضریوں کا انھیں کریڈٹ دے کر ان کے مقدمے کو پارلیمنٹ کو ریفر کر سکتی تھی تا کہ اس سے نکلنے کی کوئی راہ نکال لیتی لیکن یہاں پر ایک مختصر فیصلے کے بعد انھیں سزا سنا کر جس طرح غیر یقینی کیفیت پیدا کی گئی ہے اس نے ماحول میں کشیدگی کا نیا عنصر داخل کر دیا ہے جو ملکی ترقی، سالمیت اور استحکام کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449832 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.