سوال یہ ہورہا ہے کہ لیاری میں۴
مئی تک ہونے والا آٹھ روزہ پولیس آپریشن آخر کیوں کیا گیا؟اس کے مقاصد کیا
تھے ؟ اور اس کے پیچھے کیا عوامل تھے ؟آٹھ روزہ اس پولیس ایکشن میں 35افراد
کی ہلاکتوں اور متعدد کے زخمی ہونے کے ذمہ دار کون ہیں ؟کیا ان کے خلاف بھی
کارروائی کی جائے گی؟
اس انوکھے پولیس ایکشن میں کم و بیش32لاکھ روپے خرچ کئے گئے اور پولیس کی
طرف سے ایک لاکھ سے زیادہ گولیا ں چلائی گئیں اے کے 47 اور جی تھری رائفل
کا کھل کر استعمال کیا گیا، پورا لیاری ہر قسم کی سرگرمیوں سے آٹھ دن تک
محروم رہا ،کراچی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھے
کہ آخر اس ”جنگ“ کے پیچھے کن اہداف کا حصول تھا؟
سب نے دیکھا کہ فلمی ہیرو یا ولن کی طرح ایس ایس پی چوہدری اسلم پولیس فورس
کے ساتھ گلیوں میں گھوم رہے تھے ان کا لباس اس بات کا گواہ تھا کہ وہ سی
آئی ڈی والے ہیں۔لیکن ان کی کاروائی کا ماسوائے جانی اور مالی نقصان کے کچھ
بھی نتیجہ نہیں نکلا اور آپریشن کے تحت جن کو گرفتار کرنا تھا وہ تو ہزاروں
لوگوں کے احتجاجی مظاہرے کی قیادت میں مصروف رہے اور چوہدری صاحب کی
چوہدراہٹ کو چڑاتے رہے کوئی اور ملک ہوتا تو ناکام کاروائی پر آپریشن کو
گرفتار کرلیا جاتا اور متعدد پولیس افسران کو معطل کرکے محکمہ جاتی کاروائی
کا آغاز کردیا جاتا لیکن خوش قسمت ہیں یہ پولیس افسران کا تعلق سندہ پولیس
سے ہے اور وہ پاکستانی ہیں جہاں ہر بااثرشخص کو ہر قانون اور قاعدے سے
استثناء حاصل کرنے کا اختیار خود اس کے ہاتھ میں ہے ،یا یوں سمجھ لیا جائے
کہ وہ خود اپنے آپ کو ہر طرح کی پکڑ سے محفوظ کرسکتا ہے۔
پورا کراچی 29/30 سال سے اسلحہ کی نوک پر ہے پرویز مشرف کے دور حکومت کے
علاوہ اس دوران جو بھی حکومتیں رہیں جو بھی نظام رہا امن و امان کی صورتحال
نا گفتہ بہ رہی لیاری جیسا پولیس ایکشن پہلی بار ہی لوگوں نے دیکھا۔ جب تک
لیاری میں گولیاں چلتی رہیں پورا شہر ٹارگیٹ کلنگ سے محفوظ رہا جیسے ہی
لیاری میں سکون ہوا شہر کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں شروع
ہوگئیں۔۔۔۔۔آخر کیوں؟
تاثر ملتا ہے کہ سیاست کی آڑ میں کھل کر دہشت گردی کرنے ،بات بات پر احتجاج
کرنے اور حکومتوں کو بلیک میل کرنے والی سیاسی جماعت اس آپریشن کی پروڈیوسر
تھی کیونکہ یہ آپریشن بھی اسی طرح ختم ہوگیا جیسے اس جماعت کی دیگر مطالبات
وقتی طور پر ختم ہوجاتے ہیں۔
بس آر ملک کی آمد کا انتظار ہوتا ہے وہ پہنچتے ہیں پرانی باتیں نئے انداز
سے کرتے ہیں اور سب معمول پر آجاتا ہے۔ لیاری میں ایسا ہی نہیں تو اور پھر
کیا ہوا؟وفاقی وزیر داخلہ اے آر ملک لیاری کے واقعات پر بھی کراچی آتے ہیں
اور بڑے بڑے دعوے کرکے شہریوں کو ایک بار پھر ہنسنے کو موقع فراہم کرکے چلے
جاتے ہیں، یہ بات خوش آئند ہے کہ سنجیدہ کرداروں کے روپ میں مسخرے ارکان
کابینہ کا حصہ ہیں ورنہ تو لوگ صرف رو نے پر ہی مجبور ہوتے ۔
لیاری آپریشن دراصل شرپسندوں کے نام پر وہاں کے مزاحمت کاروں کے خلاف تھا
اور ان مزاحمت کاروں سے اسے خالی کرانے کی ایک ناکام کوشش تھا ۔
اسے ان قدیم لیاری والوں سے خالی کرانے یا ان کی اواز کو دبانے کی کوشش کی
گئی ؟اس کوشش میں کامیابی ہوتی تو کس کو فائدہ پہنچتا؟اور کس کے لئے لیاری
کو فتع کرنے کا موقع ملتا؟میں بوجوہ یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہوں کہ کون اس
علاقے کو فتع کرپاتا یا کس کے لیئے راستہ ہموار کرنی کی کوششیں کی جارہی
تھی البتہ میرا خیال ہے کہ لیاری میں اس طرح کے آپریشن سے سب سے شدید نقصان
پیپلز پارٹی کو پہنچتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچ چکا
ہے ۔
پیپلز پارٹی جو بنیادی طور پر کراچی کے کسی علاقے میں تھی تو وہ لیاری
تھااور یہ حقیقت ہے کہ یہی حکومتی جماعت کا مضبوط گڑھ کہلاتا تھا یہاں سے
بے نظیر بھٹو اور ان کے نامزد کردہ ہی کامیاب ہوکر ایوانوں میں پہنچتے رہے
جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کو ہمیشہ ہی اس علاقے میں ناکامی کا سامناکرنا پڑا
اسے یہ بھی صدمہ رہا کہ کوئی کونسلر بھی وہ اس علاقے سے نہیں جتواسکے۔
شائد یہ ہی وجہ ہے کہ متحدہ اس آپریشن کی حمایت کرتی رہی جبکہ دوسری طرف
پیپلز پارٹی کے موجود ہ حکومتی سیٹ اپ میں ”شاہ سے زیادہ شاہ “کے وفاداروں
نے غلط مشورے دے کر لیاری میں آپریشن کرایا اورپیپلز پارٹی کو اس علاقے سے
ہمیشہ کے لیئے رخصت کرنے کے لیئے راہ ہموار کردی اور یہ ہی راہ آنے والے
دنوں میں پیپلز پارٹی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردے گی لیکن اس وقت لیاری
کے لوگوں کے خلاف دہشت گردوں کے نام پر کارروائی کرنے والے” زرداری سے
زیادہ زر “ کے وفادار بہت دور نکل جائیں گے اور اس کا خمیازہ پیپلز پارٹی
اور اس کے حقیقی رہنماﺅں کو بھگتنا پڑے گا۔
لیاری دوبارہ پیپلز پارٹی کا گڑھ بن سکتا ہے ،اس سے ناراض لوگ دوبارہ راضی
ہوکر ایک بار پھر اس کے لیئے جان تک دینے تیار ہوسکتے ہیںاس کے لیئے پیپلز
پارٹی کے مخلص رہنماﺅں اور موجودہ حکومت کی پسندیدہ شخصیات کو جنگی بنیادوں
پر ایسے اقدامات کرنے ہونگے جس سے علاقے میں پولیس آپریشن کے دوران جاں بحق
اور زخمی ہونے والے افراد کا مداوا ہوسکے املاک کے نقصان کی مثالی تلافی
ہوسکے ساتھ ہی پیپلز پارٹی اور موجودہ حکومت نے جن افراد کو دلی صدمہ سے
دوچار کیا ہو انہیں گلے لگائے اور اس واقعے کی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کی
نشاندہی کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اگر ایسا نہیں ہوا تو پیپلز
پارٹی کا یہ قلعہ ٹکڑے ہوکر مسلم لیگ نواز، جماعت اسلامی، متحدہ قومی
موومنٹ اور تحریک انصاف کے حلقوں میں تبدیل ہوسکتا ہے ۔ |