حضرت قاری صاحب(رح) کی یاد میں

سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ سب کو’’عقلمندی‘‘ نصیب فرمائے. محترم و مکرم قاری عمر فاروق صاحب(رح) بھی آگے چلے گئے. بے شک ہم سب نے بھی جانا ہے.
انا ﷲ وانا الیہ راجعون

موت کا آنا. اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس کے بندوں پر کوئی ظلم نہیں. اﷲ تعالیٰ’’ظلم‘‘ سے پاک ہے. ایک بات تو یہ ہے کہ ’’موت‘‘ انسان کے سفر کا لازمی حصہ ہے. عالم ارواح سے یہ سفر شروع ہوتا ہے . وہاں سے ماں کا پیٹ. پھر دنیا کا پیٹ. پھر قبر و برزخ کا پیٹ اور پھر آخرت کا ہمیشہ ہمیشہ والا جہان. یا جنت یا جہنم. دوسری بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہم انسانوں کے لئے ایک پورا نصاب اور نظام اس بارے میں مقرر فرما دیا ہے کہ. اگر ہم اُس پر عمل کریں تو موت ہمارے لئے راحت اور خوشی کا ذریعہ بن جائے. اور تیسری بات یہ ہے کہ شیطان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ. انسان موت سے غافل ہو جائے. ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانکے. طرح طرح کے مفروضوں پر بہت سے لوگ. بلکہ اکثر لوگ خود کو موت سے مستثنیٰ سمجھتے ہیں. اور اسی خیال میں رہتے ہیں کہ ابھی میرا وقت بہت دور ہے. کسی کو یہ خیال ہے کہ فلاں آدمی نے میرے ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر بتا دیا تھا کہ تمہاری عمر لمبی ہے. استغفراﷲ، استغفراﷲ

کسی کو یہ خیال ہے کہ ابھی تو میرے والدین بھی زندہ ہیں. میرانمبر تو اُن کے بعد آئے گا. کسی کو یہ یقین کہ پانچ، دس روپے صدقہ کرتا ہوں. اور صدقہ سے عمر بڑھ جاتی ہے. صدقہ کی برکت میں کوئی شک نہیں. لیکن ایسے اعمال بھی تو ہیں جو برکت کو توڑ ڈالتے ہیں. شیطان کے عجیب جال ہیں. ابھی ایک پروفیسر صاحب کھڑے ہوگئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ موت کا وقت مقرر نہیں. ویسے اُن کا بھی قصور نہیں سگریٹ اور فلموں کے درمیان حاصل کئے گئے ’’تصوف‘‘سے ایسی ہی غلط باتیں دل میں اُترتی ہیں. ویسے بھی آقا مدنی ö کا فرمان ہے. آدمی بوڑھا ہوتا ہے تو اس میں دو چیزیں جوان ہوجاتی ہیں
﴿۱﴾ مال کا حرص ﴿۲﴾ عمر کا حرص.﴿صحیح مسلم﴾

افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سے لوگ اُس پروفیسر صاحب کی بات سنتے اور مانتے ہیں. فوج اور پولیس کے بڑے افسر اُن کے مرید ہیں. اور کئی نامور پاپ گلوکار بھی اُن سے فیض حاصل کرتے ہیں. اﷲ تعالیٰ اُمتِ مسلمہ کی حفاظت فرمائے. خلاصہ یہ ہے کہ اکثر انسان’’موت‘‘ سے غافل ہیں. موت کی سچی یاد انسان کو ایک منٹ بھی نصیب ہو جائے تو دل نور سے بھر جاتا ہے. مگر جنہوں نے نہ مرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے. اُن کو یہ یاد کیسے نصیب ہو؟.

ایک بیمار آدمی کے پاس جانا ہوا. اُن کو بیماری کی شدّت سے موت کا احساس ہو رہا تھا. رو رو کر کہنے لگے.میں مرگیا تو میرے والدین کا کیا بنے گا. میری بیٹی کا کیا بنے گا. حالانکہ اُن کے والدین کو ا ﷲ تعالیٰ اُس وقت سے کھلا پلا رہا ہے جب یہ صاحب پیدا بھی نہیں ہوئے تھے. اور بیٹی کا رازق بھی اﷲ تعالیٰ ہے. جو’’حیّ قیوم‘‘ ہے. معلوم ہوا کہ موت کی یاد بیماری میں بھی نہ آئی. ورنہ یہ فکر پیدا ہوتی کہ میرا کیا بنے گا؟. آگے اہم مراحل ہیں.﴿۱﴾ موت کی سکرات ﴿۲﴾ سؤال قبر﴿۳﴾ عالم برزخ کا ثواب یا عذاب﴿۴﴾ دوبارہ زندگی﴿۵﴾ میدان حشر﴿۶﴾ پوری زندگی کا حساب کتاب ﴿۷﴾ میزان اعمال ﴿۸﴾ اﷲ تعالیٰ کے روبرو پیشی ﴿۹﴾ جسم کے اعضا اور زمین کی گواہی.﴿۰۱﴾ پل صراط. اور پھر آخری فیصلہ. امام مُزَنی(رح) فرماتے ہیں: کہ میں امام شافعی(رح) کے مرضِ وفات میں اُن کے پاس گیا. اور عرض کیا. اے ابو عبداﷲ! کیا حال ہے؟. امام شافعی(رح) نے فرمایا. بس حال یہ ہے کہ. دنیا سے کوچ کر رہا ہوں، دوستوں بھائیوں سے جدا ہو رہا ہوں. اپنے بُرے اعمال سے ملاقات کرنے والا ہوں، موت کا جام پینے والا ہوں اور اپنے رب سبحانہ، و تعالیٰ کے ہاں پیش ہونے والا ہوں. مجھے نہیںمعلوم کہ میری روح جنت کی طرف جارہی ہے تو اُسے مبارک باد دوں. اور اگر جہنم کی طرف جارہی ہے تو اُس کے ساتھ تعزیت کروں.

حیرانی کی بات یہ ہے کہ. قرآن مجید میں جگہ جگہ موت کا تذکرہ ہے. ہمارے چاروں طرف جنازے ہی جنازے ہیں. ہمارے ہر طرف قبریں ہی قبریں ہیں. مگر ہمیں نہ موت یاد آتی ہے. اور نہ اس ضروری سفر کی تیاری کی فکر دل میں پیدا ہوتی ہے. چوبیس گھنٹے میں صرف ایک لمحہ تو کم از کم ہر مسلمان کو پورے یقین کے ساتھ موت کو یاد کرنا چاہئے کہ. میں ابھی مرنے والا ہوں. دعائ بھی سکھا دی گئی. اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لِیْ فی الْمَوْتِ وَ فِیْمَا بَعْدَالْمَوْتِ.

معلوم ہوا کہ. موت کوئی سزا نہیں. بلکہ یہ برکت والی چیز ہے اور اس کے بعد بھی برکتیں ہیں. مگر اُن کے لئے جو موت کا یقین رکھتے ہیں اور موت کی تیاری کرتے ہیں. اور اُن کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے. کتنے خطرے کی بات ہے کہ اچانک موت آجائے اور اُس وقت کسی گناہ میں مشغول ہوں. کسی بے ایمانی یا ظلم کا ارادہ کررہے ہوں. عربوں نے انٹرنیٹ پر طرح طرح کی چیزیں لگا دی ہیں. ایک آدمی جو محبوبہ کی یاد میں شعر پڑھتے مر گیا. ایک آدمی جو کسی عورت کے ساتھ گناہ کی حالت میں جل مرا. ہوٹل کے کمرے کو آگ لگ گئی. ایک لڑکی جو رقص کرتے ہوئے گری اور مر گئی اور اُس کے جسم نے کفن کو قبول نہ کیا. جب بھی کفن پہناتے تو وہ جسم سے ہٹ جاتا اور وہ حصے کھل جاتے جن کو کھول کر وہ ناچتی تھی. آج خواتین میں کھلے گلے اور کھلے بازوؤں والے بے پردہ لباس بُری طرح عام ہو رہے ہیں. کفن یادہو تو لباس ٹھیک ہوجاتا ہے. مگر کفن تو ایمان والوں کو یاد رہتا ہے. ہمارے حضرت قاری عرفان صاحب(رح) زندگی کے آخری کئی سال سفر حضر میں اپنا کفن اپنے ساتھ رکھتے تھے. اور جس جگہ بھی جاتے تو اور باتوں سے پہلے موت کے بارے میں وصیت فرماتے کہ. اگر میرا یہاں انتقال ہو جائے تو اسی کفن میں کفنا کر جلد نماز جنازہ ادا کریں اور اسی شہر میں دفنا دیں. وغیرہ وغیرہ.

یعنی اُن کو اصل مسئلے کی پہلے فکر تھی. باقی دنیا کے کام کاج تو چلتے ہی رہتے ہیں. اسلام نے موت کا کیا نصاب مقرر فرمایا. ایک چھوٹی سی جھلک پیش کرتا ہوں. تفصیل،زندگی رہی تو پھر کبھی انشائ اﷲ.

﴿۱﴾ زندہ انسانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ کثرت سے موت کو یاد کرتے رہیں. صرف زبان سے موت، موت نہیں. بلکہ دل کو یہ بات سمجھائیں کہ موت بغیر دستک دیئے آسکتی ہے تیار رہو، تیار رہو. اور تیاری کرو. اس بارے میں قرآن پاک کی کئی آیات اور رسول کریم ö کی کئی احادیث موجود ہیں.
﴿۲﴾ دو چیزیں جو انسان کی موت کو خراب کرتی ہیں اُن سے نہایت تاکید کے ساتھ روکا گیا. ایک حرص اور دوسرا لمبی لمبی دنیاوی امیدیں. تھوڑا سا غور کریں کہ یہ دو روگ کس طرح سے انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں. اور اُس کے خاتمے کو خراب کرتے ہیں.
﴿۳﴾ عقلمندی کا معیار دو چیزوں کو قرار دیاگیا. ایک اپنے نفس کو اپنے قابو میں لیکر شریعت کا تابع بنانا. اور دوسرا ایسے اعمال کرنا جو مرنے کے بعد کام آئیں. یعنی دنیا مقدّر ہو چکی اور آخرت کیلئے محنت کا حکم ہے.
﴿۴﴾ ایسے اعمال اور ایسی دعائیں سکھا دی گئیں جو موت کی سکرات کے وقت کام آئیں. موت کو شربت کی طرح میٹھا بنائیں. اور موت کے بعد راحتوں کا دروازہ کھلوائیں. ہمیں یہ سب دعائیں یاد کرنی چاہئیں اور دنیا کی حاجتوں سے زیادہ ان دعاؤں کو مانگنا چاہئے. حسن خاتمہ کی دعائ. آخری وقت کلمہ طیبہ جاری ہونے کی دعائ. غفلت کی موت سے حفاظت کی دعائ. مقبول شہادت کی دعائ. موت کے وقت آسانی کی دعائ. عذاب قبراور منکر نکیر کے فتنے سے حفاظت کی دعائ. اور آخرت کی باقی منازل کی دعائیں.
﴿۵﴾ قبرستان جانا، صالحین کی صحبت میں بیٹھنا. جنازوں میں شرکت کرنا. غافلوں کی صحبت سے بچنا. لمبی لمبی امیدیں نہ باندھنا. دنیا میں جو کچھ میسر ہو اُسی کو بہت اور کافی سمجھنا. یہ سب کام سکھائے گئے تاکہ دنیا کے شور شرابے کے درمیان موت یاد رہے.
﴿۶﴾عمر جیسے جیسے بڑھتی جائے موت کی یادکازیادہ سے زیادہ انتظام کیا جائے.مالی معاملات سے دور رہا جائے.کیونکہ اس عمر میں حرص کے پیدا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے. حالانکہ خاتمے کا وقت قریب ہوتا ہے.
یہ ابتدائی نصاب ہے. اس کے بعدمزید کئی نصاب ہیں. وجہ یہ ہے کہ موت کا سفر یقینی ہے. موت کا سفر لمبا اور طویل ہے. اور موت کے بعد یا بڑی راحت ہے یا بڑا درد ہے. دنیا تو بہت چھوٹی اور معمولی سی چیز اورجگہ ہے. یہاں کوئی انسان تنہائی برداشت نہیں کرتا. تو برزخ جیسے وسیع جہان میں تنہائی کتنی سخت ہوگی. اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہمیں وہاں کی وحشت اور تنہائی سے بچائے. اور وہاں قرآن پاک اور اونچی صحبت نصیب فرمائے. حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں. میں نے دیکھا کہ وفات کے وقت رسول اﷲ ö اپنے پاس رکھے پیالے میں ہاتھ ڈالتے پھر یہ پانی اپنے چہرہ مبارک پر پھیرتے. پھر فرماتے.
اَللّٰھُمَّ اَعِنیِّ عَلیٰ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَسَکَرَاتِ الْمَوْتِ
یا اﷲ! موت کی شدّت اور سختی میں میری مدد فرمائیے . ﴿ترمذی﴾
بخاری اور مسلم میں. حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ آخری وقت آپ ö کی زبان مبارک پر یہ دعائ جاری تھی.
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ
یااﷲ میری مغفرت فرمائے اور مجھ پر رحم فرمائیے اور مجھے رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملائیے.
چلیںیہ دو دعائیں یادکر لیں. ویسے اس موضوع کو ہمیں اپنی دعاؤں میں خاص اہمیت دینی چاہئے. اگلے ہفتے انشائ اﷲ کوشش ہوگی کہ. موت اور اُس کے تمام مراحل کی مسنون دعائیں ایک ہی کالم میں آجائیں. ہمارے مخدوم مکرم قاری عمر فاروق صاحب(رح) کافی عرصہ سے بیمار تھے. وہ قرآن پاک کے خادم تھے اور قرآن پاک کے ساتھ اُن کا جینا مرنا تھا. موت کو اکثر یاد کرتے تھے. ابھی چند ہفتے پہلے اُن کا سلام اور یہ پیغام ملا کہ مجھے انتقال کے بعد. حضرت ابّا جی(رح) کے قریب دفن کیا جائے. بندہ نے جواب بھیجا کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر عطائ فرمائے. ہماری طرف سے ’’تدفین‘‘ کی وصیت منظور ہے. مگر مٹی کا نظام بھی اوپر سے طے شدہ ہے. انسان اُسی مٹی میں مدفون ہوتا ہے جہاں کی خاک سے وہ بنایا جاتا ہے. اس بارے عجیب روایات، حکایات اور معارف کا ایک خزانہ کتابوں میں ملتا ہے. کہتے ہیں دو چیزیں انسان کو بہت دور سے اپنے پاس کھینچ لیتی ہیں. ایک رزق اور ایک قبر کی مٹی. حضرت قاری صاحب(رح) کا انتقال اسلام آباد میں ہوا. یعنی وہ اپنے پیدائشی علاقے ’’مری‘‘ کے قریب تھے.چنانچہ تدفین بھی مری میں ہوئی. اﷲ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے. اور اُن کو ’’مغفرت‘‘ کا اعلیٰ مقام نصیب فرمائے. اُن کا اور ہمارا تعلق بہت میٹھا، محبت بھرا. اور باہمی اکرام والا تھا.

جب اُن کے انتقال کی خبرآئی تو دل پر افسردگی چھا گئی. اور حضرت قاری صاحب(رح) کے ساتھ گزرے ہوئے کئی مناظر دماغ میں تازہ ہو گئے. بالاکوٹ کی مسجد خالد بن ولید(رض) میں. میرے بیان کے درمیان کھڑے ہو کر اُن کا تاحیات بیعت کا اعلان. اور پورے مجمع کی چیخیں نکلوا دینے والا جذبات سے لبریز خطاب . وہ منظر مجھے بار بار یاد آرہا تھا. مسجد جا کر دعائ کی. یا اﷲ! اُس دن حضرت قاری صاحب نے سب سے سبقت لی. اور ہزاروں ٹوٹے اور زخمی دلوں پر مرہم رکھا. یا اﷲ! اب وہ آپ کے پاس ہیں اُن کو اُس دن کے عمل کا ایسا بدلہ اور اکرام عطائ فرمائیے کہ. وہ خوش اور راضی ہوجائیں. حضرت قاری صاحب(رح) کی جماعت کے ساتھ محبت بہت عجیب تھی.ہمیشہ جماعت کی ترقی کے آرزو مند. اور مخالفانہ خبروں کے مقابلے میں صابر.
ایک زمانے بہت خوفناک فتنہ آیا. کئی لوگ صرف یہ بات پھیلانے کے لئے ہر طرف سفر کر رہے تھے کہ. جماعت ختم ہو گئی ہے اور اب ان لوگوں کا نام لینا بھی کوئی گوارہ نہیں کرتا. حضرت قاری صاحب(رح) کے پاس بھی ایک وفد یہی’’خبر‘‘ کان میں ڈالنے کے لئے پہنچا. اور ڈال آیا. وفد کے لوگ معززتھے. لوگ اُن کی بات سن لیتے تھے. اسی طرح چند اور افراد نے بھی یہ بات قاری صاحب(رح) کو جا کر بتائی. حضرت قاری صاحب(رح) دل ہی دل میں بہت پریشان تھے. محبت، ادب اور اکرام کی وجہ سے وہ ہمیں کبھی کوئی اعتراض نہ بتاتے تھے اور نہ سناتے تھے . بس خود ہی دل میں کڑھتے رہے. انہیں دنوں استاذمحترم حضرت مولانا منظور احمد نعمانی(رح) کا انتقال ہوا. بندہ نمازجنازہ کے لئے ’’طاہر والی‘‘ پہنچا. حضرت قاری عمر فاروق(رح) بھی رحیم یار خان سے تشریف لائے. نماز جنازہ کے بعد میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تو قاری صاحب(رح) کو بھی ساتھ لے لیا. اُسی وقت لوگ مصافحہ کے لئے ٹوٹ پڑے. بندہ اس مجمع کے درمیان پھنس گیا. حارسین ساتھی بڑی مشکل سے حصار بنا کر بندہ کو گاڑی تک لائے. تب مجمع نے گاڑی کو گھیر لیا. مگر میں گاڑی میں بیٹھ چکا تھا اور شیشے نیچے کر کے مصافحہ کر رہا تھا.ہمارے لئے یہ روز مرہ کا معمول تھا. اسی لئے نہ تنگی محسوس ہوتی تھی اور نہ دل میں کوئی بڑائی. اور نہ ہی یہ کوئی عجیب معاملہ لگتا تھا. کچھ لوگوں سے مصافحہ اور باقی مجمع سے بچ کر بھاگنے میں ہمارا قافلہ تاک ہو چکا تھا. مگر یہ کیا؟. مجھے گاڑی کی پچھلی سیٹ سے زور زور سے بولنے اور تقریر کرنے کی آواز آرہی تھی. اُدھر توجہ کی تو معلوم ہوا حضرت قاری صاحب(رح) نہایت جذب اور جذبے کی حالت میں دونوں ہاتھ لہرا لہرا کر. کچھ لوگوں کے نام لیکر پکار رہے تھے. او فلاں! اوفلانے. آؤ، مرجاؤ، یہاں دیکھو! تم کہتے ہو ان کا نام لینے والا کوئی نہیں. یہاں لوگ مصافحہ کے لئے پروانوں کی طرح گر رہے ہیں. اوفلانے، او فلانے. ایٹم بم مار دو پھر بھی ان کی محبت لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکتے. حضرت قاری صاحب(رح) پر رقت طاری تھی اور وہ اپنے قابو میں نہیں تھے. اور جن کا وہ نام لے رہے تھے وہ سب اُن سے سینکڑوں میل دور تھے. بندہ نے ارادہ کیا کہ قاری صاحب(رح) سے عرض کروں کہ وہ لوگ تو بہت دور ہیں. مگر حضرت قاری صاحب(رح) کی حالت دیکھ کر میں نے ہمت نہ کی. اور گاڑی چلنے کے بعد بھی کافی دیر اُن کی یہی حالت رہی. دراصل اُن کا دل زخمی اور بے تاب تھا اور بار بار ایک ہی بات سن کر اُن کو بھی اُس کی صداقت کا خیال ہو چکا تھا. اب جب دل پر مرہم لگا تو خوشی اور جذبات سے مغلوب ہوگئے.

کون کون سا واقعہ لکھوں. حضرت قاری صاحب(رح) کے ہاں بارعب اور پروقار جلسے. اُن کی اخلاص بھری دعوتیں. اُن کے ساتھ خوشگوار اسفار. اور اُن کی بے لوث خدمات. جماعت میں شعبہ احیائ سنت قائم ہوا تو. نظامت کے لئے اُنہیں پر نظر پڑی. وہ دل اور آنکھوں میں’’حیا‘‘ کی عجیب نعمت رکھتے تھے. ماشائ اﷲ انہوں نے یہ شعبہ خوب چلایا. اور اس وقت تک چلاتے رہے جب تک اُن کی صحت نے انہیں کام کرنے کی اجازت دی. اُدھر کل کراچی سے یہ افسوسناک خبر ملی کہ حضرت مولانا محمد اسلم شیخوپوری(رح) کو بھی شہید کر دیا گیا. حضرت مولانا مفسر قرآن اور داعی اسلام تھے. کئی کتابوں کے مصنف اور کامیاب دینی مدرس. ایک زمانے تک اُن کے ساتھ بہت. کریمانہ اور خوشگوار مراسم رہے. درس قرآن سے واپس آرہے تھے کہ. گمنام اور شقی قاتلوں نے اُن پر حملہ کر دیا. اﷲ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اوراُن کے درجات بلند فرمائے. اور اﷲ تعالیٰ مجھے اورآپ سب کو موت یاد رکھنے، اور موت کی تیاری کرنے کی توفیق عطائ فرمائے. اور ہم سب کو’’حُسن خاتمہ‘‘ نصیب فرمائے. آمین یا ارحم الراحمین
لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ، لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ.
اللھم صل علیٰ سیدنا محمد والہ وصحبہ وبارک وسلم تسلیما کثیرا کثیرا.
لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ.
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155041 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More