توانائی بحران پاکستان میں
بدترین صورت اختیار کرچکاہے غضب خدا کا بیس بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے نہ
صرف لوگوں کا کاروبارتباہ کردیا ہے بلکہ اس قدر لوڈشیڈنگ نے عوام کو صحیح
معنوں میں نفسیاتی مریض بناکے رکھ دیا ہے جس کا مظاہرہ عوام میں موجود
چڑچڑے پن اورغصے کو دیکھ کر بخوبی ہوجاتا ہے جووہ بات بات پرایک دوسرے
پرنکالتے نظرآتے ہیں ہم اپنے کالموں میں اس بات کا کئی بار ذکرکرچکے ہیں کہ
پاکستان کو توانائی بحران سے نکلنے کیلئے فوراََ اور ہنگامی اقدامات کرنا
ہوں گے ورنہ یہ بحران نہ صرف پاکستان کی economyکوتباہ کردے گا بلکہ عوام
کی بڑھتی ہوئی بے چینی پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر بھی اثرانداز ہوسکتی
ہے اور پھر وہی ہوا کہ بجلی کے بدترین بحران کا نوٹس آخر کار خود صدرزرداری
کولینا پڑا اور اور اُن کی زیر صدارت اجاس میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے
اعلانات کے باوجود اس پرتاحال قابو نہیں پایا جا سکا جس کے بعد ہی پاکستان
مسلم لیگ ق نے پیپلزپارٹی پر واضح کیا وہ عوام کواس حال میں نہیں دیکھ سکتے
کل ہم کس منہ سے عوام کے پاس جائیں گے اگرجلدہی لوڈشیڈنگ پر قابو نہ پایا
گیا تو وہ حکومتی اتحاد سے باہر نکل آئیں گے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ توانائی
بحران کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ق کا موقف درست اور عوامی امنگوں کے
عین مطابق ہے یوں لگتا ہے کہ حکومت توانائی بحران کے حل کیلئے سرے سے
سنجیدہ ہی نہیں ہے ورنہ گزشتہ دنوں ہونیوالی انرجی کانفرنس میں چوہدری
شجاعت کی طرف سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے پیش کیا جانیوالافارمولے پر عمل
کرکے اس بحران پر باآسانی قابو پایا جاسکتا تھا جس میں کہاگیا کہ اگر تمام
صوبے تین ماہ تک این ایف سی ایوارڈ کی رقم آئی پی پیز کوادا کردیں تو اس سے
لوڈ شیڈنگ پر فوری قابو پایاجاسکتا ہے لیکن افسوس اس فوری طور پر قابل عمل
منصوبے کو نظرانداز کردیاگیا اس کے علاوہ ترکی،کرغیزستان،اورتاجکستان سے
سستی بجلی فراہم کئے جانے کی پیشکشوں کے باوجود اُن پر غور نہیں کیا
گیااورسب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر ثمرمند مبارک
یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں وسائل فراہم کئے جائیں تو وہ
توانائی بحران کو نہ صرف ہمیشہ کیلئے ختم کرسکتے ہیں بلکہ تھر کول ذخائر سے
پیدا ہونیوالی یہ بجلی تین سے چار روپے یونٹ میں دستیاب ہوگی لیکن حکومت اس
قابل ترین سائنسدان پر بھی عدم اعتماد کرتے ہوئے انہیں فقط ایک ارب روپے کی
رقم فراہم نہیں کررہے جس سے وہ تیس سال تک روزانہ دس ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا
کرنے کا دعوٰی کررہے ہیں حالانکہ بجلی پیدا کرنیوالی کمپنیوں سے خریدی
جانیوالی بجلی پر اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ کی جارہی ہے اس ضمن میں ڈاکٹر
ثمرمند مبارک کا یہ بیان بھی کافی اہم ہے کہ جن لوگوں کو پرائیویٹ
پروڈیوسرز سے بجلی خریدنے میں فائدہ نظر آتا ہے وہی اس منصوبے کی مخالفت
کرکے اس کیلئے فنڈز فراہم کرنے میں رکاوٹ ہیں ۔توانائی بحران کے حل کا ایک
اور اہم منصوبہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر بھی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ انقلابی
منصوبہ بھی سیاست کی نذرہوگیا ہے حالاں کہ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف یہ
کہ عوام کو ایک روپے یونٹ کی سستی ترین بجلی ملتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ
70لاکھ ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت بناکر اس سے اربوں روپے کمائے جاسکتے تھے
اور تقریباََ تیس ہزارافراد کو فوری روزگار بھی مل جاتا لیکن باوجود قوت
ہونے کے پیپلزپارٹی نے اس ڈیم کو بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ سابق وفاقی
وزیر پانی و بجلی نے تو آتے ہی یہ بیان دیاکہ کالاباغ ڈیم اب ہمیشہ کیلئے
دفن کردیاگیا ہے ایک اندازے کے مطابق کالا باغ ڈیم کے تعمیر نہ ہونے کی وجہ
سے پاکستان کو ہرسال550ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے لیکن اب ق لیگ کی قیادت
نے کالا باغ ڈیم پر عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اس کیلئے
چوہدری برادران تمام صوبوں کے ہنگامی دورے کرکے اور تمام پارٹیوں سے رابطے
کرکے انہیں بھی اس منصوبے کی تکمیل کیلئے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ہم
سمجھتے ہیں کہ توانائی بحران کے حل کیلئے ق لیگ کا موجودہ مضبوط موقف اور
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے عوامی رابطہ مہم بہت اچھے فیصلے ہیں جن سے
یقیناََ عوام کو اس انتہائی خوفناک بحران سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ |