ساٹھ سال کا سفراور سرراہ لٹنے کا غم

نوآزاد ممالک میں ہندستان کو یہ شرف حاصل ہے کہ زاید از60سال سے جمہوری پارلیمانی نظام حکومت تسلسل کے ساتھ قائم ہے۔ساٹھ سال پہلے 13مئی کے دن پہلی لوک سبھا کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تھا، اس طرح یہ دن بڑی ہی تاریخی اہمیت کا ہے۔ اس موقع پر اتوار ہونے کے باوجو د پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے خصوصی اجلاس ہوئے او ر دن بھر تقریریں ہوتی رہیں۔ میرے ایک عزیز نے مجھے فون کرکے کہا کہ میں اپنا کمپیوٹر بند کرکے ٹی وی کھول لوں۔ میں نے پوچھا کیا کوئی خاص بات ہے، کہنے لگے ،”پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا ہے اور خاص بات یہ ہے نشستیں بھری ہوئی ہیں، تقریریں ہورہی ہیں اور شور بالکل نہیں ہورہا۔“ہم اپنے ساٹھ سالہ پارلیمانی سفر میں کہاں پہنچے ہیں، اس تین نکاتی ’خاص بات ‘کے بعد شاید بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے۔15ویں لوک سبھا کے ممبران اپنے وقار کے معاملے میں بڑے ہی حساس ہیں۔ ان کو یہ کیسے بتایا جائے کہ ”پارلیمنٹ کے وقار‘ ‘کے معنے کیا ہوتے ہیں اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری کس پر ہوتی ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی نظام کے استحکام میں رائے دہندگان نے پوری ذمہ داری سے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں رائے دہندگی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ اس کا ثبوت ہے کہ عوام جمہوری نظام کو فعال دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ہمارے منتخب نمائندوں کا کیا حال ہے؟ ایک زمانہ تھا جب لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے اجلاس دیر رات تک چلا کرتے تھے۔ اجلاسوںکی کاروائی کے رجسٹر ، جن میں تقریریں لکھی جاتی ہیں، تیزی سے بھرے جاتے تھے۔ ہر واقعہ پر، ہر مسئلہ پر بھرپور بحث ہوتی تھی۔ آج کیا حال ہے؟ ایسا گمان ہوتا ہے کہ دماغ کی ساری طاقت گلے میں آگئی ہے۔ سنجیدہ بحث و مباحثہ سے زیادہ دلچسپی کاروائی میں اڑچن ڈالنے اور شور مچانے میں نظرآتی ہے۔پارلیمنٹ کے پورے کے پورے اجلاس اس غیرجمہوری مزاج کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ اس پر دعوا یہ کی جمہوریت ترقی پذیر ہے!

تحمل اور برداشت جمہوریت کا سب سے بڑا خاصہ ہے۔باریک بینی سے ہر مسئلہ پر غور کرکے قومی مفاد میں اپنے نظریہ کا اظہار اور دوسرے کے موقف کو سکون سے سن کر اس پر رد عمل، ہمارے پارلیمانی اجلاسوں میں غائب ہوتا جاتا ہے۔ ایک مقرر تقریر کرنے کھڑا ہوتا ہے تو جملہ پورا کرنے سے پہلے ٹوکا ٹوکی شروع ہوجاتی ہے ۔گویا دوسرے کی بات کو سننے کا جذبہ ہی ختم ہوگیا ہے۔ اب یہ سب کچھ ٹی وی پر لایﺅ دکھایا جاتا ہے۔ پوری دنیا دیکھتی ہے کہ ہمارا جمہوری نظام جمہوری مزاج سے کتنا دور ہوتا جارہا ہے۔ جمہوریت صرف ووٹ کے ذریعہ انتخاب کانام نہیں، بلکہ اظہار رائے کی آزادی اور مخالف نظریہ کا احترام جمہوریت کی روح ہے۔ اظہار رائے کی آزادی صرف ذرایع ابلاغ تک رہ گئی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے جن موضوعات پر بحث پارلیمنٹ میں ہونی چاہئے ان پر بحث و مباحثہ صرف ٹی وی کے اسٹوڈیوز میںہوتا ہے ۔ پارلیمنٹ میں یا توشور ہوتا ہے یا اجلاس کا التوا ہوتا ہے۔

ہمارا پارلیمانی نظام برطانوی نظام کے طرز پر ہے۔ کئی اہم موضوعات پر برطانوی پارلیمنٹ کے بحثیں بی بی سی پر سننے کا موقع ملا۔ کیا مجال کہ ایک مقرر کے بولتے ہوئے کوئی دوسری آواز بلند ہوجائے۔ کسی کو کوئی مداخلت کرنی ہے تو وہ اسپیکر کے اشارے کا انتظار کرتا ہے۔ ایک وقت میں ایک ہی ممبر جو بولتا ہے کھڑا نظرآتا ہے۔ ہمارے یہاں کیا صورت حال ہے؟ سچی بات ہے کہ ہم جمہوری قدروں کو فروغ تو کیا دیتے ، اولین پارلیمنٹ سے جو قدریںہمیںورثہ میںملی تھیں وہ بھی بس تاریخ کی کتابوں کی زینت بن کر رہ گئی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ لیاقت میں کمی آئی ہے۔ ادھر کئی مواقع ایسے آئے جب ممبران کو بول سکنے کا موقع ملا اور ان کو سنا گیا۔ مثلاً انا ہزارے کی بھوک ہڑتال کے پس منظر میں 16اگست کو جس طرح کی تقریریں ہوئیں وہ ایک قابل ذکر واقعہ ہے۔ اسی اتوار کو چھٹی کے باوجود 60ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ اجلاس یاد گار رہیگا۔لیکن ہم اپنے وعدوں اور ارادوں کو کتنی جلدی بھول جاتے ہیں اس کااندازہ اس سے لگائیے کہ 50ویں سالگرہ کے موقع پر یہ عہد کیا گیا تھا کہ وقفہ سوالات میںرخنہ نہیں ڈالیں گے اور اجلاس چلنے دیں گے ۔ مگر اس کا الٹا ہوا ہے۔ قوم سے کئے گئے وعدوں کو اگر ایوان پارلیمنٹ کے ارکان بھی پورا نہیں کریں گے تواور کون کریگا؟ اس پر غمزہ یہ کہ کوئی ٹوکے نہیں۔

دیکھنے والوں کی نظروںسے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہے کہ ادھر دو تین دن کی کاروائیوں میں جب کہ درسی کتب میں کارٹونوں کا موضوع زیر بحث رہا، فکر اور معیار کی وہ بلندی مفقود رہی جو جمہوریت کی شان ہوتی ہے۔شنکرپلائی کا وہ کارٹون جو موضوع بحث بنا ،آج کا نہیں 1949کا بنا ہوا 63سال پرانا ہے، یقینانہرو اور باباصاحب دونوں ہی اس سے محظوظ ہوئے ہونگے۔ شنکر نے آئین سازی کی سست روی پربڑاہی فنکارانہ تبصرہ کیا ہے ۔ انہوں نے اس سست روی کو گھونگے کی چال سے تعبیر کیا ہے۔ بابا صاحب کو جو آئین کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیرمین تھے ، کوڑا اٹھائے ہوئے گھونگے پر سواردکھایا ہے۔ گویا وہ اس کو تیز چلانے کےلئے کوشاں ہیں۔ ان کے پیچھے نہروجی، جو اس وقت وزیر اعظم تھے شاید ان کی مدد کےلئے گھونگے پر کوڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ مقصود یا تاثر دینا تھا کہ ان ددنوں کی ہزار کوششوں کے باوجود آئین سازی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ اس میں خظ کے پہلو کونظر انداز کرکے اصرار کرنا یہ تو ضم کا پہلو ہے، خوش ذوقی اور وسیع النظری سے فرار ہے ۔

بابا صاحب امبیدکر ہمارا قومی ورثہ ہیں۔ ان کوصرف دلت ’آئی کون‘ قراردینا ان کے رتبہ کو گھٹانا ہے۔ یہ کیسی نادانی ہے ملک کے سب سے موقر آئینی ادارے کی سالگرہ کے موقع پر بلاوجہ کا تنازعہ کھڑا کرکے ایک ایسی ہستی کا قد چھوٹا کیا جارہا ہے جس کا آئین سازی میں سب سے نمایاں رول ہے۔ یہ جذباتی شوشہ دراصل مایاوتی نے چھوڑا تھا جن کو اس مرتبہ اسمبلی الیکشن میں دلتوں نے حسب سابق آنکھ بند کرکے ووٹ نہیں دیا۔ لوک سبھا الیکشن قریب ہیں اس لئے قوم کو یہ بتانے کے بجائے کہ ڈاکٹر بھیم راﺅ امبیدکر ہم سب کے ہیں، اور کارٹون سے ان کی یا دلتوں کی توہین کا شگوفہ سیاسی ہے، حکومت بھی سجدے میں آگئی اور ساری دیگر پارٹیاں بھی ایک مخصوص طبقے کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے جذباتیت کی رومیں بہہ گئیں۔یہ صحت مند جمہوریت کی علامت نہیں ہے۔

جس دن ہماری پارلیمنٹ کی ساٹھویں سالگرہ منائی جارہی تھی، بھوپال میں محکمہ صحت کے ایک افسر کے ھر سے 50 کروڑ سے زیادہ کی دولت برامد ہوئی۔ لوآیکت کے افسران جس وقت افسر مذکور کے گھر پہنچے ، ان کی بیوی نے چہک کر کہا، ہمارے پاس کیا رکھا ہے ان وزیروںکے گھر کیوں نہیںجاتے، جن کو ہر ماہ ایک کررڑ روپیہ چاہئے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کی رکنیت دولت کمانے کا ایک آسان ذریعہ بن گئی ہے۔ اسی لئے انتخابات دولت کاکھیل بن گئے ہیں۔14ویں لوک سبھا کے جن 304 ممبران نے 15ویں لوک سبھا کا چناﺅ بھی لڑا ان کی دولت میں اوسط 289فیصد اضافہ ہوا ہے۔مایاوتی نے اپنا پہلا الیکشن 1984میں کیرانہ سے لڑا تھا۔ اس وقت ان کے پاس ایک سائکل تھی۔ اب 2012کے اسمبلی الیکشن کے وقت ان کی خود اعلان کردہ دولت 112کروڑ ہے۔ یہ ایک ادنیٰ مثال ہے۔ مشہور ہے کہ ہر رکن اسمبلی جب دوسرا الیکشن لڑتا ہے تو اس کی دولت دوگنی سے زیادہ ہوچکی ہوتی ہے۔ افسران کی رشوت خوری تو مشہور ہے مگر وہ سب کچھ جمہوری طورپر منتخب نمائندوں کی سرپرستی میں ہوتا ہے اور اس میں ان کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ یہ اسٹور کیپر اور پٹواری جنہوں نے کروڑوں کے اثاثے جمع کرلئے ہیں ان جمہوری طور پر منتخب نمائندوں کی بدولت ہی بندعنوان کے شہنشاہ بنے ہیں۔پہلی لوک سبھا میں ممبران کی اکثریت ناداروں کی تھی تو اب زرداروں کی ہے۔ ساٹھ سالہ جشن کے ساتھ کچھ خود احتسابی کی بھی ضرورت ہے جس کی طرف بارہمولہ سے منتخب رکن پارلیمنٹ شرف الدین طارق نے اتوار کو لوک سبھا میںتوجہ دلائی مگر ان کی آواز کو شور میںدبا دیا گیا۔

افسوس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ پارلیمنٹ کی 60ویں سالگرہ کا یہ جشن ایوان پارلیمنٹ کی چار دیواری میںہی سمٹ کر رہ گیا۔ عوام نے بس دیکھا ،سنا اور تبصرہ ، تنقید کی۔ اگر اقدار کی پامالی اور معیار کی پستی کا المیہ ساتھ نہ رہا ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا کہ ہمارے ملک کے عوام اس جشن کے موقع پر جھوم نہیں رہے ہوتے۔ عوام کی یہ مایوسی یہ بددلی ہمارے منتخب لیڈروں کو کچھ پیغام دیتی ہے بشرطیکہ وہ اسی حسیت کا مظاہرہ کریں جس کا انہوں نے 63 سالہ کارٹوں یاانا کی تنقید پر کیا ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.