سیاسی رشوت

پاکستان کی تاریخ میں عجب کرپشن کی غضب کہانی میں چونکا دینے والے حیرت ناک انکشافات نے وطن عزیز کے سیاست دانوں کا مکروہ کردارطشت از بام کر دیا ہے۔ماضی کا سب سے بڑا سیاسی گناہ منظر عام پر آ گیاہے۔آمریت کے پجاریوں اور جمہوریت دشمنوں کی پاکستان پیپلزپارٹی کے خلاف ماضی میں ہونے والی بے شمار ناکام اور کامیاب محلاتی سازشوں میں سے آخر کار ایک کامیاب سازش بے نقاب ہو گئی ہے۔ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بدترین دشمن اصغر خان کے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں مہران بنک کے چیف یونس حبیب نے آئی ایس آئی کی جانب سے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سمیت دیگر سیاستدانوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام کیلئے ایک ارب اڑتالیس کروڑ روپے سیاسی رشوت دینے کا اعتراف کرکے سیاسی منظر میں بھونچال برپا کر دیا ہے۔پی پی پی کی معمولی خطاؤں پرحشر برپا کرنے والے اب کیوں خاموش ہیں۔؟
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

سابقہ صدر غلام ا سحاٰق خان، سابقہ چیف آف سٹاف جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ ،آئی ایس آئی کے سابقہ چیف جنرل حمیدگل اور اسددرانی کی جانب سے جمہوریت کے خلاف سازشیں بے نقاب ہونے پر قومی سیاست میں تلاطم پیدا ہو گیا ہے۔جنرل ضیا کے واصل جہنم ہونے کے بعد جنرل اسلم بیگ نے آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتے ہی سیاست میں غیر آئینی دخل انداز ی کرتے ہوئے پی پی پی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹوکی سیاسی جدوجہد کوناکام اورنو زائیدہ جمہوریت کو زہر ہلاہل پلانے کیلئے آئی جے آئی کے نام سے دو نمبر اور مفاد پرست سیاسی جماعتوں کا قومی اتحاد تشکیل دینے کیلئے سیاست دانوں میں 148 کروڑ روپے سیاسی رشوت تقسیم کی۔آئی ایس آئی کے سابقہ سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمیدگل میڈیا پر اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے بے نظیر حکومت کے خلاف سیاستدانوں کے ضمیروں کے سودے کئے تھے۔
جب بھی کبھی ضمیر کا سودا ہو دوستو
قائم رہو حسین ؑ کے انکار کی طرح

علی بابا اور چالیس چوروں کی سیاسی رشوتوں اور بے شمار سازشوں کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو عوام کی قوت سے الیکشن جیت کر بر سر اقتدار توآ گئیں مگر ایوان صدر،چیف آف آرمی سٹاف،آئی ایس آئی،ایم آئی ،آئی جے آئی کے اتحادنے جمہوریت کے خلاف سازشیں جاری رکھیں اور بالآخرانہی سازشوں کے تحت جلد ہی غلام اسحاٰق خان نے 6 اگست1990 کو پی پی پی کی منتخب وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کر دیا۔جنرل اسلم بیگ کی ہدایت پر 14 کروڑ روپے سیاستدانوں میں ریوڑیوں کی طرح ناجائز بانٹنے اوروصول کرنے والوں کا بھانڈہ سر راہ پھوٹ گیا ہے۔ثابت ہو گیا کہ فوج ،خفیہ ایجنسیاں اور بیورو کریسی پی پی پی کی جمہوری حکومت کے خلاف غیر آئینی ، غیر اخلاقی اور نتقامی کارروائیاں کرتی رہی ہیں۔پاکستان کی تاریخ کے تاریک ترین چھپے ہوئے مزید سربستہ رازوں سے پردہ اٹھنے کی نگاہیں منتظر ہیں۔ ہمارے بد بو دار ماضی کی گلی سڑی یادیں اگر چہ ناخوشگوار اورقابل مذمت ہیں لیکن کیا کریں ہماری قومی تاریخ کا جزو لاینفک اور اہم کردار رہی ہیں۔یونس حبیب نے کہاکہ مجھ پر آصف علی زرداری کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کیلئے بے انتہا دباؤ ڈالا گیاحتیٰ کہ انکار کرنے پر مجھے پانچ روز تک غیر قانونی حراست میں رکھا گیا۔صدر اور آرمی چیف کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
قوم کو پاؤں کی زنجیر بنا رکھا ہے
کشتہۂ درد کو تصویر بنا رکھا ہے
ان وڈیروں نے فقط حرص وہوس کی خاطر
کشور پاک کو جاگیر بنا رکھا ہے

یونس حبیب نے مزید کہا کہ اس سیاسی رشوت سے میاں نواز شریف ، میاں شہباز شریف ،غلام مصطفی جتوئی اور پیر پگاڑہ کے علاوہ متعدد صحافیوں اور فوجیوں نے بھی اپنے ضمیر فروخت کئے ۔ضمیر فروشوں کے اس نیلام گھر میں جن کالے سیاستدانوں نے اپنے آپ کو نیلام کیاان میں میاں نواز شریف نے35 لاکھ،میاں شہباز شریف نے25لاکھ،سابقہ وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے30 لاکھ،میر افضل نے ایک کروڑ،جنرل رفاقت نے 56 لاکھ بمعہ میڈیا مافیا کیلئے50لاکھ،عابدہ حسین نے 10لاکھ،معروف صحافی الطاف حسین قریشی نے 5لاکھ ، مصطفیٰ صادق نے 33لاکھ،غلام مصطفی جتوئی نے50لاکھ،جام صادق نے 50لاکھ،محمد خان جونیجو نے 25لاکھ،پیر پگاڑا نے 25لاکھ، یوسف ہارون نے 50لاکھ،میر ظفراللہ جمالی نے15لاکھ،ہمایوں مری نے10لاکھ،جام یوسف نے7لاکھ،بزنجو نے 5لاکھ،نادر مینگل نے 10لاکھ،ارباب فیض محمد نے3لاکھ،اسماعیل راہو نے2لاکھ،صحافی صلاح الدین ایڈیٹر تکبیر نے3لاکھ،کے بلوچ نے 50 لاکھ،کاکڑ نے 10لاکھ،مظفر حسین شاہ نے15لاکھ،ارباب غلام نے2لاکھ،علی اکبر نظامانی نے3لاکھ اورغلام علی نظامانی نے بھی 3لاکھ روپے میں اپنے ضمیر کا سودا کیا تھا۔
ضمیر جاگ تو جاتا ہے اگر زندہ ہو
کبھی گناہ سے پہلے کبھی گناہ کے بعد

اس خطیر رقم کا اجرأمہران بنک کے بورڈآف گورنرز کی منظوری سے کیا گیا۔جنرل اسلم بیگ رعونت اور فرعونی تکبرکے باعث سپریم کورٹ میں معافی مانگنے پر مجبور ہوئے۔گذشتہ روزمؤرخ نے عجیب منظر دیکھا کہ ایک سابقہ جنرل نے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ندامت سے سر جھکاکر عاجزی سے معافی مانگ لی۔ہمیں یقین کرنا پڑا کہ انقلاب تو شروع بھی ہو گیا ہے۔یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے کہ وطن عزیز پر تین عشروں سے زائد حکمرانی کرنے والے جنرل بھی سپریم کورٹ کے کٹہرے میں کھڑے معافیاں مانگ رہے ہیں۔؟
بے جہت فکر کے ہاتھوں میں کماں کیوں دی تھی
اب ہدف تو ہے تو کیا، تیر تو چل جانا تھا

آزاد عدلیہ کا بھی یہ امتحان ہے۔قوم بڑے غور سے دیکھ رہی ہے کہ پاکستانی تاریخ میں سیاسی رشوت کے سب سے بڑے مہران سکینڈل میں ججوں کے فیصلے کیا بولتے ہیں۔؟وحیدہ شاہ کو تھپڑ مارنے پر نااہل کرنے والی عدلیہ کیالاکھوں روپے سیاسی رشوت لینے والے ان بدکردار سیاستدانوں کو بھی نااہل کر سکے گی۔؟ سیاسی شیطانوں کوبد فعلیوں کی کیا سزا ئیں ملتی ہیں۔؟جمہوریت کے قاتلوں اور عوام کا مینڈیٹ چرانے والے ناعاقبت اندیش سیاسی چوروں کاحشر نشرکب ہو گا۔؟وقت آ گیا ہے کہ ملک وقوم کا سیاسی قبلہ تبدیل کرکے وطن عزیز کو بحرانوں اور زوالوں کے سپرد کرنے والے ان تنگ نظرملاؤں، ننگ ملت جمہوریت دشمن جرنیلوں، بدعنوان بیوروکریٹوں،قلم فروش صحافیوں اور جمہوریت دشمن بکاؤ سیاستدانوں کا منہ کالا کرکے عبرت ناک تاریخی سزائیں دی جائیں۔صدر پاکستان آصف علی زرداری اور حکومت کی کرپشن پرمیڈیا ٹرائل اور مسلسل تنقید کرنے والے صحافتی،فوجی اور سیاسی مخالفین اس آئینے میں اپنا کالا منہ دیکھیں ۔برائے فروخت کی تختیاں گلے میں لٹکائے نیلام گھر میں بکنے والے ان بے ضمیروں کی قیمتیں دیکھ کر باشعور عوام خود ہی کھرے کھوٹے کی پہچان کریں۔عصر حاضر کا ناگزیر تقاضہ ہے کہ قومی تاریخ کے آمرانہ،جابرانہ،ظالمانہ اورتاریک ادوار کے فرعونوں کے گلے میں رسی ڈال کرسخت سے سخت محاسبہ کیا جائے ۔ پی پی پی کی چیئر پرسن محترمہ بے نظیر بھٹو اور کروڑوں جیالے کارکنوں کی جانگسل جدوجہد اور قربانیوں پر پانی پھیرنے اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے کیلئے سیاسی رشوتیں بانٹنے والے سابقہ چیف آف اسٹاف جنرل ریٹائرڈاسلم بیگ،آئی ایس آئی کے سابقہ سربراہ جنرل ریٹائرڈ حمید گل،اسد درانی اور دیگرذمہ داربدکردارقومی مجرموں کے گرد شکنجہ کسا جائے اور سیاسی رشوتیں وصو ل کرکے منتخب جمہوری حکومت گرانے والے بے ضمیرملاؤں،سیاستدانوں،صحافیوں اورفوجیوں کو نیست و نابود کر دیا جائے تا کہ ملک و قوم ،پی پی پی اورجمہوریت سے کھلواڑ کرنیوالوں کو آئیندہ ایسے مذموم اقدامات کی جرأت نہ ہو سکے۔حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے کہ
نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نامیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں کہ روش بندہ پروری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
main m arshad bazmi
About the Author: main m arshad bazmi Read More Articles by main m arshad bazmi: 16 Articles with 13296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.