پاکستان سیاحت کے لیے انتہائی پر
کشش ملک اور آزاد کشمیر کو بر صغیر بھر میں سیاحت کے کیلئے موزوں ترین مقام
قرار دیا جاتاہے۔میرا ماننا ہے کہ اگر پاکستان و آزاد کشمیر میں کوئی مخلص
حکومت کو اقتدار میسر آجائے اورسیاحتی صنعت پر خاص توجہ دی جائے ،قومی
سیاحتی پالیسی کی جدید خطوط پر تشکیل ہو ،غیر ملکی سیاحوں کے تحفظ کے لیے
مناسب اقدامات کیے جائیں اور ملک میں امن وامان کی مجموعی صورت حال بہتر ہو
تو آئندہ 5سے 10 سال کے دوران یہ ملک اپنے قدرتی حسن کی بدولت 3سے5 ارب
ڈالر سالانہ کما سکتا ہے ، پاکستان و کشمیر میں سیاحت کو در پیش مسائل کو
حل کر نے کی ترغیب دینے کیلئے تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو اپنا کردار
ادا کرنا ہو گا تبھی ہماری سیاحت اس نہج پے پہنچ پائے گی جس کی ہم امید
لگائے بیٹھے ہیں ۔تفصیلی دیکھا جائے تو ہمارے وطن کا سیاحتی شعبہ غیر
معمولی کشش کا حامل ہے اور اس کے ذریعے قومی آمدنی میں بڑے پیمانے پر اضافہ
کرنا ممکن ہے اس مقصد کے حصول کے لیے ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے کی
ضرورت ہے تاکہ ملک میں ٹورازم انڈسٹری کامستقبل محفوظ اور افادی ہو ،ہمارے
ملک میں سیاحت کو حکومتی توجہ کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے 1960ءسے1970ءکے
دوران اس حوالے سے نتیجہ خیز اقدام بھی کیے گئے لیکن ”بہت دیر کی مہرباں
آتے آتے“کے مصداق سیاحت کو ”انڈسٹری “کا مقام بہت دیر سے دیا گیا،حالانکہ
دنیا کے باقی ممالک ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی ہم سے بہت آگے نکل چکے
ہیں ۔سیر وسیاحت کا انسانی شوق بہت قدیم زمانے میں بھی امیر لوگ عظیم الشان
عمارات ،تعمیراتی فن کے شاہکار ،قدرت کے حسین منظر ،مختلف خطوں کی موسمی
رنگینیاں دیکھنے مختلف ثقافتوں کے مشاہدے اور یہاں تک کے نئی زبانیں سیکھنے
کے لیے بھی اپنے آبائی خطوں سے دور دراز ممالک میں سیاحت کی غرض سے جاتے
تھے قدیم رومن شہنشاہوں نے بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں میں جگہ جگہ تفریح
گاہ بنائیں ،جہاں امراء سلطنت کے ہر حصے سے آکر سیر وتفریح کیاکرتے تھے ۔
لفظ سیاح1772ءتک استعمال ہونے لگا اورسیاحت کی اصطلاح 1811ءمیں سامنے آئی
1936ءمیں اقوام عالم کی زبانوں میں غیر ملکی سیاح کی تعریف یہ بیان کی گئی
کہ کم ازکم 24گھنٹے ملک سے باہر سے سفر کرنے والا مسافر سیاح کہلاتا ہے
1945ءمیں سیاح کی مذکورہ بالاتعریف میں اقوام متحدہ کی طرف سے یہ ترمیم کی
گئی کہ 24گھنٹے کا دورانیہ 6ماہ کی مدت سے بدل دیا گیا۔”تفریح وسیاحت “ کا
آغاز برطانیہ میں صنعتی انقلاب آنے کے نتیجہ میں ہوا ،یہاں یہ بیان کرنا
محل نہ ہو گاکہ سیاحت کی کئی اقسام ہیں مثلاًگروہی سیاحت ،انفرادی سیاحت ،زرعی
سیاحت ،جغرافیائی سیاحت ،ثقافتی سیاحت ،جنگلی سیاحت ،کوہی سیاحت ،جنگی
سیاحت ،خلائی سیاحت ،مذہبی سیاحت ،طبی سیاحت ،طویل والمدتی سیاحت ،مرحلہ
وار سیاحت ،معاشرتی سیاحت، بحری سیاحت ،پسماندہ علاقوں کی سیاحت ،شکاری
سیاحت ،مہماتی سیاحت وغیرہ۔بیسوی اور اکسویں صدی میں سیاحت کے فروغ کے لیے
دنیا بھرمیں نہایت تیزی سے کام ہو ا سیاحتی علاقوں کے قریب ہوائی اڈ ے ،ریستوران
،اعلیٰ معیار کی اقامت گاہیں ،انٹرنیٹ سمیت تمام جدید سہولتو ں کی فراہمی ،شاہراہوں
کی تعمیر ،صاف ماحول ،کھانے پینے کی کم قیمت ،اور افراد اشیاءکی فراہمی
یقینی بنائی گئی ۔عالمی سیاحتی صنعت کی یہ تیز رفتاری جاری تھی کہ امریکہ
پر 9/11کے حملوں کے باعث عالمی سیاحت کے خدوخال بدل گئے اور دنیا بھر میں
سیاحتی سر گرمیاں ٹھپ ہو کے رہ گئیں۔اس غیر معمولی واقع کے بعد ”دہشت گردی
کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ “کی وجہ سے عالمی سیاحت کی مثالی ترقی رک سی
گئی ۔تب سے لے کر آج تک دنیا بھر کے سیاح خود کو کسی بھی خطے میں محفوظ
تصور نہیں کرتے ،اور ایسا ہی ایک خطہ ہمارا پاکستان و آزاد کشمیر بھی ہے
جہاں ہر قسم کی سیاحت کے لیے بھر پور کشش اور بہترین مواقع ہیں ۔سیاحت کے
حوالے سے بھی پاکستان قدرت کی فیاضیوں کی منہ بولتی تصویر ہے،ہمارے ہاں ہر
قسم کا موسم زمینی ساخت اور بے شمار قدرتی مناظر ہیں۔سمندر سے گلے ملتی
ہماری سرزمین پر سندھ میں کراچی اور بلوچستان میں کندملیر کے ساحل ،جزیرے ،دنیا
کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی K-2،نانگاپربت ،گنگا چوٹی ،راکا پوشی ،پربتوں
کی شہزادی کہلانے والی دلفریب وادیاں،مسحور کر دینے والی منفرد جھیلیں،دریا
،برف پوش پہاڑی سلسلے ،لہردار سنہری صحرا،صحرائی شکار گاہیں،گنگناتی
ندیاں،جھرنے،شفاف پانی کے چشمے ،انتہائی مضبوط قلعے ،قدیم مساجد،تاریخی
عمارات ،تاحد نظرپھیلے ہوئے گلستان،وسیع وعریض جنگلات ،مند ر اور محلات
گویا قدرت انسانی کمال اورتاریخ کی وہ عظیم شہادتیں ہیں جو ارض پاک کے سینے
پر قلم بند ہیں ۔پاکستان کے تمام صوبوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیرمیں
قدرتی حسن اور قابل دید مقامات کی فراوانی اور من مو لینے والی ثقافتی
رنگارنگی ہے ۔ہمارے ملک کے رنگارنگ علاقائی اور قبائیلی ثقافتیں،پہناوے طرز
زندگی ،علاقائی رقص ،لوک گیت ،میلے ٹھیلے اور ثقافتی تہوار ،انتہائی
لذیذاور اشتہار انگیز مہک والے کھانے مہمان نواز لوگ اور دلچسپ رسوم و رواج
سیاحوں کے لیے موثر ترغیبات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہمارا خطہ دنیا کا وہ مختلف
خطہ ہے جہاں بلوچستان میں9ہزارسال قدیم اراضی آثا ربھی سیاحوں کے لےے
انتہائی دلچسپی کا باعث ہیں اور 23مارچ2007 کو اسلام آباد میں تعمیر ہونے
والی یاد گار پا کستان بھی سیر وسیاحت کے دلداوہ افرادکی توجہ کا مرکز ہے ۔ملک
کے دارلحکومت کو ہی لے لیں ،جہاں مارگلہ پہاڑیاں ،شکر پڑیا ں،نیشنل آرٹ
گیلری ،دامن کوہ ،نیشنل زو ،راول جھیل ،سملی ڈیم ،پیر
سوہاوا،شاہدرہ،پاکستان میوزم آف نیشنل ہسٹری ،لوک ورثہ عجائب
گھر،ٹیکسلاعجائب گھر ،فیصل مسجد ،گلستان گلاب و یاسمین بہترین سیاحی مقام
ہیں۔بلوچستان میں مہر گھڑھ اوریا کے آثا ر وادی ِسندھ کی تہذیب سے بھی
2سے3ہزار سال زیادہ قدیم ہیںنوشیروانی کے مقابر ،قلعہ لداگشت ،ہزارگنجی ،حنا
ءجھیل ،صوبائی اراضیائی،عجائب گھر،زیارت میں قائد اعظم محمد علی جناح کی
ریذیڈینسی اور جونی پیر کے قدیم جنگلات دیکھنے والے یہاں دوبارہ آنے
باندھتے ہیں پہاڑوں کے اندر سے ہو کر دوسر ی طرف نکلتے راستوں میں سے درہُ
لیک اور درہ ہرنائی قابل دید ہیں جبکہ گوادر یہاں کی سب سے بڑی بندرگاہ
ہے۔خیبر پختون خواہ عظیم سیاحتی اور ثقافتی ورثہ رکھتا ہے،گندھار ا تہذیب
کے آثار ،تخت بھائی ،پشکا لاوٹی ،قلعہ بالاحصار،ہٹکار ،اسٹوپا،کنشک
اسٹوپا،چکدارا،وادی پنج کور،پشاور میں کافر کوٹ کے مقام پر قدیم ہند ومنادر
کے آثار ،گور کھتری کی ارضیائی آثار اور شہباز گڑھی مشہور مقامات ہیں۔سوات
کی وادی بے مثال سیاحتی اہمیت کی حامل ہے اور پاکستان کا سوئٹزر لینڈ
کہلاتی ہے ،سوات اور پاکستان کے شمالی علاقہ کا جات کاحسن دیکھنے والوں کو
غیر اراضی محسوس ہوتاہے،وادی کاغان ،شاہراہ قراقرم ،بالاکوٹ ،ناران ،اور
پھر سب سے بڑھ کر جھیل سیف الملوک جس کے شفاف پانی میں مقامی روایت کے
مطابق پریاں نہانے آتی ہیں، سیاحت کے شوقین ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ
چودھویں کے چاند کی چاندنی میں اس جھیل کا نظارہ کریں اور دیکھنے والے یہ
روایت بھی کرتے ہیں کہ واقعی یہ طلسمی منظر دیکھنے والا آنکھ تک جھپکنا
بھول جاتا ہے۔کالام اور مالم جبہ کبھی برف کی چادر اوڑھتے ہیں اور کبھی
اتار پھینکتے ہیں اسی طرح ایوبیہ کا تفریحی اور سیاحتی مقام بھی سیاحوں کی
دلچسپی کا بڑا مرکز رہا ۔درہ لواری اور درہ بابو سر اور چلاس کے علاوہ یہاں
ملک کی بلند ترین کو ہی گزر گاہ درہ شندور بھی اپنی تمام تر رعنائی اور
تعمیر اتی شان وشوکت کے ساتھ سیاحوں کو دعوت نظارہ دیتا ہے”اور دنیا کی چھت
کے نام سے جانا جاتا ہے“
پنجاب کے جن تاریخی مقامات میں سیاح دلچسپی لیتے ہیں ان میں شالیمار باغ
،ٹیکسلا کے عالمی شہرت یافتہ آثار قدیمہ ،بادشاہی مسجد ،مقبرہ جہانگیر
،دریا راوی کے بیچوں بیچ واقع مزار کامران کی بارہ دری،مزار اقبال ،بارہ
دری حضوری باغ ،مینار پاکستان ،مزار قطب الدین ابیک ،انار کلی کا مشہور باغ
،رنجیت سنگھ کی سمادھی ،گورووار اجنم استھان ننکانہ صاحب،چھانگا مانگا کا
جنگل (قصور)ہرن مینار (شیخوپور)چودھویں صدی میں تعمیر ہونے والاشاہ رکن
الدین عالم کا مزار،(ملتان)قلعہ روہتاس ٹیلہ جوگیاں(جہلم)بھوربن پتریاٹا
،ملکہ کوہساری مری ،صحرائے چولستان اور تھر ،قلعہ شیخو پورہ اور ہڑپہ شامل
ہیں۔سندھ کا خطہ وادی سندھ کی ہزاروں سال قدیم تہذیب کا گہوارہ ہے اس صوبہ
میں مسجد شاہجہان مرزہ شاہ عبدالطیف بھٹائی ،کراچی کی بندر گاہ ،قلعہ کوٹ
دھجی مکلی ،مزار قائداعظم ،مانچھر جھیل ،جنگلی حیات کارن آف کچھ میں قائم
مرکز ،مشہور جزیرہ منوڑا ،مزار لال شہباز قلندر اور کلفٹن کا ساحل سیاحتی
حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔آزاد کشمیر میں ضلع پونچھ خصوصاً سیاحت
کیلئے آزاد کشمیر بھر میں مشہور ہے اس میں تولی پیر ،بنجوسہ،جنڈالی مشہور
سیاحتی مقامات ہیں،ضلع باغ بھی سیاحتی حوالے سے ایک خاص مقام رکھتا ہے ،
نیلم کے سرسبز جنگلات اور وہاں کا رہن سہن سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہی
چلا جاتا ہے ۔انٹر نیشنل ٹورسٹ آرگنائزیشن کی فہرست کے مطابق پاکستان میں
300 سے زائد مقامات غیر معمولی سیاحتی کشش کے حامل ہیں جو پاکستان کی
سیاحتی صنعت کو دنیا بھر میں مقبول ،ممتاز اور ترقی یافتہ بنانے کی غیر
معمولی خصوصیات رکھتے ہیں۔پاکستان میں K-2 ،نانگا پربت اور راکا پوشی کے
علاوہ کئی چوٹیاں 7ہزار میڑسے بلند ہیں۔حالیہ عالمی کساد بازاری کا آغاز
ہونے سے پہلے پاکستان اوسطاً5لاکھ غیر ملکی سیاحوں کی میزبانی کر رہاتھا
۔اس کے بعد 9/11،2005ءکے شدید زلزلے کی تباہ کاریوں اور 2010ءکے سیلاب کے
باعث قومی سیاحتی صنعت کو بے حد نقصان پہنچا ۔2006-07ءکے دوران سیاحتی صنعت
کی قدرے فروغ پذیر سرگرمیوں کے باعث اس شعبہ کی آمدن میں 6فیصد اضافہ
ریکارڈ کیاگیا ۔اس وجہ سے پاکستان کو ایک سال کے دوران 276ملین ڈالر سے
زائد آمدن ہوئی ۔2008-09ءکے لیے سیاحتی صنعت کے لیے 350ملین ڈالر کا ہدف
مقرر کیا گیا ،اس دوران اقتدار کی منتقلی اور موجودہ جمہو ری حکمرانوں کے
برسراقتدار آنے کے بعد 2009ءمیں پاکستان نے شعبہ سیاحت سے صرف 240ملین ڈالر
حاصل کیے جو اس جمہوری حکومت کیلئے ایک سوالیہ نشان ہے ۔2010-11ء کے اعداد
وشمار سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی کی وجہ سے قابل
ذکر نہیں ہیں ۔ایک تخمینہ کے مطابق 2011ءمیں 5ہزار غیرملکی سیاح پاکستان
آئے اور اگر اس سال امن عامہ کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں بہتر رہی تو
10سے 15ہزار سیاحوں کی آمد ممکن ہو سکتی ہے۔یہاں ہمیں یہ حقیقت نہیں بھولنی
چاہیے کے دنیا کے 50فیصد سے زائد ممالک اپنی اقتصادی بہتری کے لیے سیاحتی
صنعت پر انحصار کرتے ہیں اور ہمیں بھی ان کی صف میں شامل ہونے کے لیے سر
توڑ کوشش کرنی ہو گی ۔سیاحت کے حوالے سے پاکستان جنوبی ایشیاءہی نہیں بلکہ
ایشیاءپیسیفک ممالک میں بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی
ادارہ یونیسکو کی عالمی ورثہ کمیٹی نے شمالی امریکہ اور یورپ کے 73قدرتی
،432ثقافتی اور 11متفرق مقامات کو عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دے رکھا
ہے ۔ایشیا ءپیسیفک ریجن کے 52قدرتی ،142ثقافتی اور 9متفرق مقامات اس فہرست
میں شامل ہیں ،اٹلی کے 47سیاحتی مقامات عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ
ہیں۔لہذاوہ اس درجہ بندی میں سب سے آگے ہیں ۔سپین 42مقامات کے ساتھ دوسرے
جبکہ چین 41مقامات کے ساتھ 3نمبر پرہے۔ایران 13ممالک کے ساتھ اسلامی ممالک
میں سے اس فہرست میں سب سے آگے ہے۔بلجیم،جنوبی کوریا اور ترکی کے
10/10مقامات کو اقوام متحدہ نے عالمی ثقافتی ورثہ تسلیم کیا ہے۔عالمی ورثہ
قرار دیے جانے والے قدرتی اورثقافتی سیاحتی مقامات کی اس درجہ بندی
میںجنوبی ایشیاءکے 41مقامات شامل ہیں۔پاکستان کے جو سیاحتی مقامات عالمی
تاریخی ورثہ قرار دیئے گئے ہیں۔ان میںخیبر پختون خوا میں بدھ مت سے متعلق
آثار قدیمہ ،موئنجودڑو ،لاہورکا شاہی قلعہ ،شالامار باغ اور ٹیکسلا ،مسکلی
کے تاریخی آثار اور قلعہ روہت اس شامل ہیں۔پاکستان کی وزارت سیاحت اگر اپنی
ذمہ داریاں قومی سیاحتی مقامات کی اقتصادی اہمیت کے حوالے سے پوری محنت
،منصوبہ بندی اور شفاف انداز میں انجام دے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہمارا
پاکستان و آزادکشمیر اپنی سیاحتی صنعت کے ذریعے قومی آمدنی میں غیر معمولی
اضافہ نہ کر سکے۔ترکی اس شعبے کے ذریعے سالانہ 20ارب ڈالر کمارہا ہے اور
مصر صرف اہرام مصر کی سیاحتی سرگرمی سے سالانہ ساڑھے 6ارب ڈالر کماتا
ہے۔نیپا ل کی سیاحتی آمدن ہم سے کہیں زیادہ ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ
بیرون ملک پاکستان کے تمام سفارت خانوں اور مشیروں کے ذریعے قومی سیاحتی
مقامات کا بھر پور تعارف کروایا جائے تاکہ غیر ملکی سیاح بھاری تعداد میں
اس سر زمین پاک و کشمیر کے خوبصورت مناظر اور عظیم مقامات کا رخ کر سکیں
۔اس حوالے سے اندون ِملک بھی سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہوگا،تاکہ رفتہ
رفتہ سیاحت ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن جائے ،سیاحت کی اقتصادی اہمیت پر
مذاکرے ،سیمینارزاور تقاریب کے انعقاد کے لیے پی ٹی ڈی سی کو پوری طرح منظم
،فعال اور موثر ہونا چاہئے ۔ہمارے سینکڑوں مقامات عالمی سیاحتی دنیاکے لیے
اہمیت کے حامل ہیں۔اگر ہم ان جگہوں پر سرما یہ کاری کر کے سیاحوں کو
سہولتیں فارام کریں،انفراسٹرکچرکو بہتر بنائیں ،ترکی کے سیاحتی ماڈل کو
سامنے رکھیں تو آئندہ ایک عشرے میں کیری لوگر بل کے تحت ملنے والی مشروط
امریکی امداد سے تین گنازیادہ رقم پاکستان کی سیاحتی صنعت سے حاصل کی
جاسکتی ہے ۔دلکش نظارے منتظر ہیں کہ لاکھوں آنکھیں انہیں دیکھنے کو آئیں
۔حکومت کو چاہیے کہ بد امنی سے متاثرہ علاقوں میں امن کی فوری بحالی کا
لائحہ عمل اپنائے تاکہ پورے ملک میں سیاحتی سرگرمیاں پوری طرح عروج
پاسکیں۔اس سے ایک طرف قومی آمدن میں اضافہ ہو گا اور دوسری طرف ہمارا ملک
انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسی اصطلاحوں سے نہیں پہچانا جائے گابلکہ اپنے
قدرتی حسن اور رعنائی ،تاریخی اہمیت ،ثقافتی دلفریبی اور سیاحتی کشش کی وجہ
سے شہرت پائے گا۔موجودہ دنوں میں آزادکشمیر میں خصوصاً راولاکوٹ پونچھ میں
سیاحوں کیلئے ایسا ماحول میسر ہے جس کیلئے سیاح پورا سال انتظار کرتے رہتے
ہیں ان دنوں یہاں سیاحوں کا رش بھی زیادہ ہوتا ہے اور موسم میں ہلکی ٹھنڈک
دور سے آنے والے سیاحوں کو اور بھی زیادہ لطف مہیا کرتی ہے ۔
دلکش سیاحت کی رنگارنگ اقسام
تفریخی سیاحت کا آغاز برطانیہ میں صنعتی انقلاب آنے کے نتیجہ میں ہوا ۔امید
ہے کہ سیاحتی صنعت کے حوالے سے دنیا بھر میں تسلیم کیے جانے والے حقائق کے
مطابق آپ کے لیے یہ حقیقت بہت دلچسپ ہوگی کہ سیاحت کی کئی اقسام ہیں
۔مثلاًگروہی سیاحت ،انفرادی سیاحت ،زرعی سیاحت،جغرافیائی سیاحت،جنگلی سیاحت
،کوہی سیاحت ،جنگی سیاحت،خلائی سیاحت ،مذہبی سیاحت،طبی سیاحت ،طویل المدتی
سیاحت ،مرحلہ وارسیاحت،معاشرتی سیاحت ،بحری سیاحت،پسماندہ علاقوںکی
سیاحت،شکاریاتی سیاحت،مہماتی سیاحت وغیرہ۔بیسویں اور اکیسویں صدی میں سیاحت
کے فروغ کے لےے دنیا بھرمیںنہایت تیزی سے کام ہوا۔ |