پاکستان کی دلفریب جھیلیں

اسسٹنٹ پروفیسر: گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلبہ نارتھ کراچی

پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ قدرت نے پانی کے ذخائر گلیشئر، ندی، دریا، جھیل اور سمندر کی شکل میں محفوظ کردئے ہیں۔ پانی انسانی ضروریات کے علاوہ بجلی بنانے، سفر کرنے اور خوراک (مچھلی) کی فراہمی کے علاوہ خوبصورت نظارہ بھی فراہم کرتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پانی کے نظارے سے انسان کا ذہنی تناﺅ کم ہوجاتا ہے۔

پاکستان اس لحاظ سے دنیا کے خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے، جہاں بڑی تعداد میں جھیلیں پائی جاتی ہیں۔ کراچی کے ساحل سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک اور یہاں سے لے کر شمال کے بلند و بالا پہاڑوں تک بے شمار جھیلیں اپنی وسعت کی وجہ سے اور کچھ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے قابل دید ہیں۔

آئیے آج ہم ان میں سے کچھ اہم جھیلوں کی سیر کرتے ہیں۔

حب ڈیم
کراچی سے متصل صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں ہمدرد یونیورسٹی روڈ پر واقع حب ڈیم نا صرف کراچی کو پانی فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے بلکہ ایک بہترین تفریح گاہ بھی ہے۔ یہاں مچھلی کے شکار کے شوقین بڑی تعداد میں شکار کرنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ ڈیم حب ندی پر قائم ہے۔

کلری (کینجھر) جھیل
ٹھٹھہ شہر سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر وسیع و عریض جھیل کلری واقع ہے۔ یہ 32 کلومیٹر طویل اور 6 کلومیٹر چوڑی ہے۔ اس جھیل سے کراچی اور ٹھٹھہ کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ جھیل اپنی وسعت اور لہروں کی وجہ سے سمندر کا منظر پیش کرتا ہے۔ چھٹے والے روز یہاں کراچی اور صوبے کے دوسرے مقام سے سیاحوں کی ایک بہت بڑی تعداد آتی ہے اسی لئے یہاں سندھ ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن نے رہائشی ہٹ قائم کئے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی افراد نے بھی یہاں کھجور اور دوسرے درخت کی چھالوں سے رہائشی ہٹ بنائے ہوئے ہیں جو مناسب کرائے پر یہاں کی سیر کرنے والوں کو دیتے ہیں۔ جھیل کے مرکز میں سندھ کے مشہور رومانی کردار نوری جام تماچی کا مزار ہے، یہاں تک لوگ موٹر بوٹ کے ذریعے آتے ہیں۔

ہالیجی جھیل
کراچی سے 82 کلومیٹر کے فاصلے پر نیشنل ہائی وے پر ہالیجی جھیل واقع ہے۔ یہ جھیل سردیوں کے موسم میں آنے والے ہجری پرندوں کی و جہ سے ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ یہاں لال سر والی فلیمنگو، بگلا، تیتر اور چکور کے علاوہ تقریبا 90 اور دوسرے اقسام کے پرندے آتے ہیں۔ ان پرندوں کو دیکھنے کے لئے سندھ وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ نے ایک مرکز بنایا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی ہے۔ اس جھیل میں بڑی تعداد میں مگرمچھ بھی پائے جاتے ہیں اور کنول کے بے شمار پھول کھلے ہیں۔

منچھر جھیل
سہون شریف حضرت لال شہباز قلندر کے مزار کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کی ایک اور و جہ شہرت پاکستان کی سب سے بڑی جھیل منچھر ہے۔ منچھر جھیل میں پانی دریائے سندھ اور برسات کے موسم میں کیرتھر کی پہاڑیوں سے آتا ہے۔ جب جھیل مکمل بھری ہوتی ہے تو اس کا رقبہ 510 مربع کلومیٹر ہوتا ہے۔ اس جھیل میں موہانا قبیلے کے افراد کشتیوں میں رہتے ہیں ان کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔

راول جھیل
اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی میں موجود راول جھیل اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحوں کے لئے بھی کشش رکھتی ہے۔ سرکنڈوں کے جھنڈ میں گھری اس جھیل کے ساتھ ریسٹورنٹ، اسنیک بار موجود ہیں۔ یہاں روئنگ اور بوٹنگ کلب بھی ہے۔

ہنّا جھیل
کوئٹہ شہر سے 10 کلومیٹر ہنّا جھیل 2 مربع کلومیٹر کے رقبے میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی خوبصورتی سبزی مائل پانیوں میں آس پاس کے بھورے پہاڑوں کے عکس میں پنہاں ہے۔ جھیل کے مرکز میں ایک چھوٹا سا جزیرہ بھی ہے جہاں تک جانے کے لئے کشتیاں چلتی ہیں۔

جھیل کلرکہار
اسلام آباد اور لاہور کے درمیان موٹر وے کلرکہار کے مقام سے گزرتی ہے۔ یہ ایک خوبصورت مقام ہے اس کی خوبصورتی میں چار چاند جھیل کلرکہار لگاتی ہے جسے پنجاب کی خوبصورت ترین جھیل ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں مور بھی پائے جاتے ہیں۔ چاندنی رات میں جھیل کنارے مور کا رقص دیکھنے کے لئے بڑی تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

تربیلا ڈیم
تربیلا ڈیم دنیا کا سب سے بڑا مٹی کا ڈیم ہے۔ یہ ڈیم پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس ڈیم کے دروازے جب کھلتے ہیں تو ان سے گرنے والے پانیوں کا خوبصورت آبشار دیکھنے والوں کو مسحور کردیتا ہے۔ یہ ڈیم دریائے سندھ کے اوپر تربیلا کے مقام پر بنایا گیا ہے۔ اکثر سیاح اس ڈیم کو موٹر بوٹ کے ذریعے غازی سے ٹوپی تک عبور کرتے ہیں۔

منگلا ڈیم
میرپور آزاد کشمیر میں پہاڑ کے دامن میں واقع منگلا ڈیم اپنے حجم کے حساب سے دنیا کا دسواں بڑا ڈیم ہے۔ میرپور جی ٹی روڈ پر واقع شہر دِینا سے محض 16 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں بچوں کے لئے ایک باغ اور ایک فِش ایکوریم بھی ہے۔

جھیل مہوڈنڈ
پاکستان کے سوئٹزرلینڈ وادی سوات میں کالام سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر خوبصورت جھیل مہوڈنڈ ہے یہ جھیل اُشو دریا کے پانی سے سیراب ہوتی ہے۔ اس جھیل کے اردگرد پائن کے درخت اور گھاس کے میدان اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اسی لئے یہاں سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں اور جھیل میں ٹراﺅٹ مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ یہاں ایک ریسٹورنٹ بھی موجود ہے۔

جھیل شیندور
شیندور اپنے روایتی پولو میچ کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ میچ ہر سال گلگت اور چترال کے درمیان جھیل شیندور کے ساحل پر کھیلا جاتا ہے۔ یہ جھیل سطح سمندر سے 12258 فٹ بلند ہے۔ اس کے پرسکون پانی اور اطراف کے فلک بوس برفانی چوٹیاں حسین منظر پیش کرتی ہیں۔

جھیل پھنڈر
گلگت سے 110 کلومیٹر دور سطح سمندر سے 2800 میٹر بلند پھنڈر جھیل پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس جھیل کے آس پاس درختوں کی بہتات ہے یہاں تک کہ جھیل کے اندر بھی درخت اگے ہوئے ہیں اس کے نیلگوں پانی میں درختوں کا عکس آنکھوں کو بہت بھلا لگتا ہے۔ اس جھیل میں بڑی تعداد میں ٹراﺅٹ مچھلی پائی جاتی ہے اور شکار کی مکمل آزادی ہے۔ یہاں قیام کے لئے ایک ریسٹ ہاﺅس بھی ہے۔

جھیل کرومبر
گلگت سے 83 کلومیٹر کے فاصلے پر وادی اشکومن واقع ہے۔ اس وادی میں ایک خوبصورت جھیل کرومبر واقع ہے۔ رستہ دشوار گزار ہے اور جھیل تک پہنچنے کے لئے کچھ دور پیدل بھی سفر کرنا پڑتا ہے مگر ان مشکلات کے بعد برف پوش پہاڑوں میں گھری اس جھیل کا خوبصورت منظر تمام تھکان دور کردیتا ہے۔ یہ جھیل سطح سمندر سے 12000 فٹ بلند ہے۔

بورت جھیل
وادی ہنزہ کے شہر گلگت سے ایک راستہ گلیشئر عبور کرکے جھیل بورُت پہنچتا ہے۔ یہ سفر پیدل تین تا چار گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اس سفر کے لئے مقامی گائیڈ کی خدمات حاصل کریں اس لئے کہ گلیشئر میں خطرناک دراڑیں ہوتی ہیں۔ بورُت جھیل دراصل ان ہی گلیشئروں کے پانی سے تشکیل پاتی ہے۔

سنولیک جھیل
وادی ہنزہ میں نگر سے آگے ہسپر گلیشئر عبور کرکے بیافو گلیشئر آتا ہے اس گلیشئر کے درمیان پانی کا ایک عظیم مجموعہ سنولیک کہلاتا ہے۔ یہ 80 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے کئی دن تک برف پر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ عموماً پروفیشنل ٹریکرز ہی یہاں تک پہنچ پاتے ہیں اور کئی برفانی گلیشئروں کی کسی دراڑ میں گم ہوجاتے ہیں۔

شنگریلا جھیل (لوئر کچورا)
اسکردو سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر جھیل شنگریلا اپنے شفاف اور پرسکون پانی اور اطراف میں بنے خوبصورت رہائشی ہٹ کی و جہ سے مشہور ہے۔ یہاں ایک ڈکوٹا جہاز بھی رکھا ہے جسے ایک ہوٹل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ جھیل کا پانی اس قدر شفاف ہے کہ ان کے اندر تیرتی ہوئی ٹراﺅٹ مچھلیاں بھی صاف نظر آتی ہیں۔ اس جھیل میں پانی زیر زمین ابلنے والے چشموں سے آتا ہے۔ اس جھیل کو ہنی مون لیک بھی کہا جاتا ہے۔

ایرکچورا
شنگریلا سے اوپر 3 کلومیٹر کے فاصلے پر، جس میں سے آخری ایک کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا ہے ایرکچورا جھیل ہے۔ اس جھیل کے اطراف میں چھوٹی پہاڑی چوٹیاں ہیں اور یہ جھیل چاروں اطراف سے درختوں سے گھری ہوئی ہے۔ اس جھیل کی سیر کے لئے یہاں کشتی بھی موجود ہے۔ ساتھ میں ریسٹورنٹ اور رہائش کے لئے ہوٹل بھی ہے۔

جھیل صد پارہ
جھیل صد پارہ اسکردو سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ اس جھیل میں پانی دیوسائی سے آتا ہے اور یخ بستہ ہے۔ اس جھیل کے وسط میں ایک جزیرہ بھی ہے جزیرے تک پہنچنے کے دو طریقے ہیں یا تو کشتی استعمال کریں یا پھر روایتی طریقے سے لفٹ چیئر استعمال کریں جو ہاتھ سے رسیاں کھینچ کر چلائی جاتی ہیں۔ اس جھیل پر ایک ڈیم زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل کے بعد جھیل کا رقبہ کافی بڑھ جائے گا مگر جزیرہ زیر آب آجائے گا۔ جھیل کے ساتھ PTDC کا ریسٹورنٹ بھی موجود ہے جہاں ٹراﺅٹ مچھلی بھی آرڈر پر مل سکتی ہے۔ اور اگر خود ٹراﺅٹ کا شکار کرنا چاہتے ہوں تو اس کا اجازت نامہ اسکردو سے حاصل کرنا ہوگا۔ جھیل کے ساتھ ہی ایک راستہ عظیم دیوسائی کے میدان کو جاتا ہے۔

جھیل شیوسر
12677 فٹ بلند جھیل شیوسر سطح مرتفع دیوسائی کی واحد اور دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس جھیل میں ٹراﺅٹ اور سنوکارپ مچھلی بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ جھیل کا یخ بستہ پانی اس قدر شفاف ہے کہ اس کے اندر رنگ برنگ پتھر اور ٹراﺅٹ صاف نظر آتی ہیں۔ جھیل کا پانی جب کناروں سے ٹکراتا ہے تو جلترنگ سا بجتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اسلام آباد سے گلگت جانے والی پرواز سے بھی یہ جھیل نظر آتی ہے۔ پائلٹ اور مسافروں کے بقول بعض زاویوں سے یہ جھیل اپنی شفافیت کی وجہ سے بالکل خالی نظر آتی ہے۔ چھٹی والے دن اسکردو کے باسی بڑی تعداد میں یہاں پکنک منانے آتے ہیں اور اس کے ساحل پر کیمپنگ بھی کرتے ہیں۔

راما جھیل
شمالی علاقہ جات کے تاریخی شہر استور کے قریب ایک گھنٹے کے جیپ کے سفر کے بعد جو مکمل طور پر چڑھائی پر مشتمل ہے راما جھیل آتی ہے۔ یہ دراصل تین چھوٹی جھیلوں کا مجموعہ ہے جو گلیشئر کے پانی سے وجود میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک بالکل گول ہے چاروں طرف برف اور درمیان میں پانی۔ اس جھیل کے عقب میں نانگا پربت کی چوٹیاں سر اٹھائے نظر آتی ہیں۔ یہ جگہ ایک بہتر کیمپنگ سائیٹ ہے۔ رہائش کے لئے یہاں PTDC کا خوبصورت ریسٹورنٹ بھی موجود ہے۔

فنتوری جھیل
نانگا پربت کے دامن میں واقع خوبصورت وادی فیری میڈو کی جھیل فنتوری حالانکہ مختصر سی ہے لیکن نانگا پربت کی قربت اور جھیل میں اس کے حسین عکس کی بدولت یہ جھیل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

جھیل سرپائے
وادی کاغان کے مشہور مقام شوگران سے اوپر جھیل سرپائے بھی ایک مختصر جھیل ہے مگر ایک پیالہ نما وادی کے درمیان یہ جھیل بہت خوبصورت نظر آتی ہے اور شوگران جانے والے سیّاح اس جھیل کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔

جھیل سیف الملوک
جو شہرت جھیل سیف الملوک کو حاصل ہے وہ پاکستان کی کسی بھی جھیل کو حاصل نہیں۔ یہ جھیل ناران سے 9 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ راستے میں موجود ایک گلیشئر جیپ کا راستہ روک لیتا ہے اس لئے باقی سفر پیدل یا خچر پر طے کرنا پڑتا ہے۔ جھیل کے چاروں اطراف سرسبز پہاڑ ہیں جن میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گلیشئرز ہیں اور جھیل کے عقب میں 17360 فٹ بلند برف پوش چوٹی ملکہ پربت۔ جھیل میں ان پہاڑوں کا عکس اتنا خوبصورت شفاف ہوتا ہے کہ اگر جھیل پر آئینہ رکھ دیا جائے تو بھی اتنا واضح عکس حاصل نہیں ہوگا۔ سیف الملوک کے ساتھ شہزادہ سیف الملوک اور پری بدری جمال کی لوک داستان وابستہ ہے۔ جو مقامی لوگ جھیل کے ساحل پر سیاحوں کو سناتے ہیں۔ مقامی روایت کے مطابق چاندنی رات میں اس جھیل پر پریاں اترتی ہیں۔

جھیل لولُوسر
وادی ناران سے مزید آگے بابوسر پاس کی طرف چلیں تو دشوار گزار 47 کلومیٹر کے بعد جھیل لولوسر آتی ہے۔ ہلال نما اس جھیل کا پانی گہرے سبز رنگ کا ہے اور اس کے اطراف میں گلیشئرز ماحول کو مزید خوبصورت بناتے ہیں۔ ڈھائی کلومیٹر طویل اور ڈھائی سو میٹر چوڑی اس جھیل کے کنارے خودرو رنگ برنگے پھول اور ان کی وجہ سے پھیلی خوشبو انسان کو مزید مسحور کرتے ہیں۔

جھیل دودی پت سر
جھیل لولوسر سے پہلے ناران سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پر وادی بروائی ہے یہاں سے 5 کلومیٹر چڑھائی پر 14000 فٹ بلند دائرہ نما جھیل دودی پت سر ہے۔ دشوار گزار رستے کی و جہ سے یہاں کم ہی سیاح پہنچ پاتے ہیں۔

ان جھیلوں کے علاوہ اسلام آبادی کا سملی ڈیم گلگت کانلتر جھیل اور مظفر آباد کے سبڑی جھیل بھی قابل ذکر ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں فلک بوس پہاڑوں کے درمیان اور بھی بہت سی جھیلیں پوشیدہ ہیں جہاں جان جوکھوں میں ڈال کر ہی پہنچا جاسکتا ہے۔ ان میں سے کچھ جھیلیں ایسی بھی ہیں جہاں آج تک کوئی انسان نہیں پہنچا اور نہ شاید پہنچ سکتا ہے۔
Asghar Karim Khan
About the Author: Asghar Karim Khan Read More Articles by Asghar Karim Khan: 14 Articles with 270247 views I am Assistant professor in Physics at Government college in Karachi. I have done Masters in Physics and Computer Science. Traveling in Northern areas.. View More