پاکستان کو پہلے تقسیم کیا مشرقی
پاکستان سے پھر جب چار صوبوں پر محیط مغربی پاکستان رہا تو ملکی اور غیر
ملکی سازشی عناصر کو گوارا نہیں رہا کہ پاکستان آباد کیوں کر آباد ہے۔۔۔۔۔؟؟
یہ سازش کوئی اچانک نہیں بلکہ پاکستان کے معروض آنے سے پہلے ہی وجود رکھتی
تھیں ۔برصغیر پاک و ہند سے جب انگریزوں کے انخلاءکی بات سامنے آئی تو ہندو
اور مسلمانوں کو اپنے اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوئی، اسی فکر کی بناءپر دو
قومی نظریئے نے جنم لیا ایک ہندو ازم دوسرا مسلم ازم یعنی قوموں کی آزادانہ
حق ۔۔۔۔ اسی دو قومی نظریئے کی جنگ و جدل کے باعث مسلمانوں کیلئے علیحدہ
مملکت کی تحریک چلی جسے تحریک پاکستان کہتے ہیںگو کہ قائد اعظم محمد علی
جناح کی قیادت میں پاکستان معروض وجود میں آگیا اور اُس وقت اکثریتی علاقوں
کو پاکستان کا نام دیا گیا جس میں موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش جسے مشرقی
پاکستان کہتے تھے ، آزاد خود مختیار اسلامی ریاست کے طور پر دنیا میں ابھرا۔
کیا یہ تقسیم درست تھی؟؟ یہ ایک ایگ بحث ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں
کیا جاسکتا کہ انگریز نے جاتے جاتے مسلمانوں کیلئے کئی مسائل اور پیچدگیاں
چھوڑی تھیں جن میں کشمیر کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ وہ خطے جنھوں نے آزادی حق
کیلئے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا تھا انہیں سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا
اور جنھوں نے مال و اسباب اور عزت و جان کی قربانیاں دیں آج ان کی نسلیں
تعلیم و ہنر ، روزگار اور تحفظ سے محروم ہیں۔ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرکے
غیر ملکی سازشی عناصر نے موجودہ پاکستان میں اُن لوگوں ، گروہ اور تنظیموں
کو تلاش کرنا شروع کردیا جو پاکستان کے خیر خواہ نہیں ہیں اور اس کی تباہی
میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے گروہ اور تنظیمیں بیرونی عناصر کو
قوم پرست تنظیموں میں نظر آئیں ۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جو جانتے بھی ہیں کہ ان
کی قوموں کو پاکستان میں ہر قسم کی سہولت اور حقوق حاصل ہیں لیکن یہ پھر
بھی ناشکرے اور نا قدر دان نظر آتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے قطعی کسئی
بھی قسم کی قربانی نہیں دی ہیں ۔۔۔ یہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کے
معروض آنے سے پہلے ان کی قومیں انگیزوں کی غلام تھیں ۔ اسی بابت انہیں کبھی
بھی اپنی قوم میں پزیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ پاکستانی ہر قوم جانتی ہے کہ یہ
لوگ صرف اور صرف پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ۔ پاکستان کا ہر
شہری جانتا ہے کہ پاکستان ہے تو ہم ہیں پاکستان نہیں تو کچھ بھی نہیں اور
پھر کبھی بھی آزادی حاصل ممکن نہیں ہوسکے گی۔ انیس سو ستر میں پاکستان کو
نقصان پہنچانے کیلئے سیاسی پلیٹ فارم استعمال کیا گیا اور جمہوری حکومت میں
منتخب سربراہ سے پاکستان کے ٹکڑے کرادیئے گئے۔ اب حالات اسی جانب رواں دواں
ہیں اور صوبوں کی شکل میں تقسیم در تقسیم کا عمل زور پکڑ رہا ہے ۔صدر
پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے حامی کی خوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے خیبر
پختو خوا کو قومیت کی بنیاد پر علیحدہ صوبہ اختیار دیا تو اسی بناءپر ہزارہ
اور سرائیکستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی علیحدہ صوبوں کی مانگ کرلی۔ ان
ہی حالات کی روشنی میں ہجرت کرنے والے لوگ مہاجروں کے ایک گروپ نے بھی اپنے
صوبہ کا تقاضہ کرلیا ، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں
رکھتے لیکن اپنی بقاءو شناخت کیلئے اپنا حق مانگنا صحیح سمجھتے ہیں۔ اگر
صدر پاکستان قوم پرست جماعت کی بات نہ مانتے تو یقینا یہ صورت حال دیکھنے
میں نہیں آتی ۔ یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں بہتر یہی ہے کہ اب صوبوں کی
تقسیم باہم رضا مندی سے طے کی جائیں کسی کے زور زبردستی سے یہ معاملہ قطعی
نہیں رکے گا۔ پاکستان اور ہندوستان ایک دن کے فرق سے آزاد ہوئے تھے
ہندوستان میں مزید کئی صوبے بنے تو پاکستان میں اگرصوبے بنتے ہیں تو کیا
فرق؟؟ صرف سوچ کا فرق ہے ، ان حالات میں تحمل مزاجی، برد باری اور حکمت
عملی کا مظاہرہ ہع قوم اور سربراہان کا ادا کرنا ہوگا ورنہ سوائے ہر طرف
نقصان ہی نقصان سے دوچار ہونا پڑےگا ۔ پاکستان مزید نقصان کو برداشت نہیں
کرسکتا کیونکہ پہلے ہی معاشی و اقتصادی بد حالی سے دوچار ہے ، مہنگائی
آسمان کو چھو رہی ہے زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول لوہے کے چنے کو چبانے
کے متردف ہوگیا ہے ، کراچی جو منی پاکستان کہلاتا ہے اب بیروت کی شکل بن
گیا ہے جہاں نہ جان کی حفاظت ہے اور نہ مال کی ۔ تمام منتخب نمائندگان پر
ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پاکستان کی سلامتی و بقاءکیلئے اپنا مثبت کردار
ادا کریں اور جھلستی نفرتوں کو ختم کرنے کیلئے اقوام میں مساوی حقوق بہم
کیئے جائیں تاکہ کسی بھی قوم کے ساتھ ناروا سلوک نہ ہوسکے اور ہر قوم اپنے
بنیادی حقوق سے آراستہ ہوجائے اگر سیاسیدانوں کی آپس کی چپکلشی اور نوک
جھونک یونہی جاری رہی تو قوموں میں شدید ٹکراﺅ ہونے کا امکان ہے جس سے
پاکستان کو نا تلافی نقصان ہوسکتا ہے ۔ایک عرصے سے پاکستان کے ہر صوبے سے
کامیاب ہونے والے ممبران نے کبھی بھی سنجیدگی سے اپنی قوم کے مسائل کو حل
نہیں کیا اسی بابت ان کی قومیں بنیادی حقوق سے محروم ہوچکی ہیں ۔جب تلگ
منتخب نمائندے اپنی ہوس سے باز نہیں آئیں گے غریب عوام پستی مرتی رہے گی ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سر زمین پاکستان کو ہع نعمت سے نوازا ہے مگر
سیاستدان اور لیڈران اسی قدر ناپید ہیں ۔ گزرتے وقت کو اچھے طریقہ کار سے
سنبھالا جاسکتا ہے ورنہ نہ صرف قوموں کی تباہی ہوگی بلکہ یہ خود بھی کہیں
رہ نہ پائیں گے اس کی لا تعداد دولت کسی کام نہ آسکے گی اور تاریخ میں
ہمیشہ سیاہ اور بد نما عکس میں نظر آئیں گے۔ اب مزیدصوبے ہی پاکستان کی
سلامتی کی علامت ہیں اور قوموں کی خوشحالی کا اسباب بھی۔۔۔۔!! |