تمہیں اللہ، رسو ل کا واسطہ میرے
بیٹے کو مت مارنا، تمہیں جو چاہیے وہ لے لو، میرے بیٹے کو چھوڑ دو، اسے کچھ
مت کہنا.!!
ممتا کے درد سے چور ایک ماں اغوا کا روں سے اپنے بیٹے کے لیے زندگی کی بھیک
مانگتی، رندھی ہوئی آواز میں التجائیں اورفریادیں کرتی، اپنے بیٹے کی جان
بخشی کے لیے اپنی ساری متاع دینے کوتیار ہے، رو رو کر وہ انھیں کہتی ہے
:’’میرے بیٹے کو چھوڑ دو . !! ‘‘ سامنے کوئی درندہ ہوتا توبھی پگھل
جاتا،لیکن وہاں توانسان کے بھیس میں درندگی اور سفاکی کا نمائندہ
تھا،قہروغضب کی علامت بنا ہوا تھا۔ تبھی ایک ماں کی فریادوں کا اس پر کچھ
اثر نہیں ہوسکا. ہیلو ! ہیلو ! .دوسری طرف خاموشی پا کراس کی بے چینی اور
اضطراب دوچند ہوگیا،وہ ہیلو ہیلو کہہ کر رسیور کان سے لگاتی اور نمبرڈائل
کرتے مسلسل زیرِلب اپنے بیٹے کی سلامتی کے لیے دعا کرتی جاتی. وہ نہیں
جانتی تھی کہ جب زمین پرنا انصافی،بے حسی ،بد امنی اور انارکی پھیل جائے
تودعائیں بھی رائیگاں چلی جاتی ہیں.!!
اگلے روز کسی ویرانے سے بوری بند نعش ملتی ہے. اک ہنستا بستا گھر برباد ہو
جاتا ہے. ایک اور ماں کی گود اجڑ جاتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ’’ بلوچی‘‘ ہونا
مرنے والے کاجرم تھا۔ماں کی ساری عمر کی مشقتوں اور محبتوں کو لسانی تعصب
نے موت کے گھاٹ اتار ڈالا تھا۔ ماں اپنے بیٹے کی نعش سے لپٹ لپٹ کر پوچھ
رہی تھی کہ’’اس کا قصور کیا تھا.؟؟کیا اس شہرِ بے امان میں رہنا اتنا بڑا
گناہ ہے کہ جس کی پاداش میں زندگی ہی چھین لی جائے.تم میرے بیٹے کی زبا ن
کاٹ ڈالتے.اْسے جان سے نہ مارتے.اْسے جان سے نہ مارتے!!‘‘
یہ دلخراش منظر نہیں ہے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور انسانیت کی پیشانی پر
لکھا ایک بہت بڑا سوال.!اس ماں کی طرح کراچی شہر میں روز ہی ان گنت مائیں
اپنے بیٹوں کی نعشوں پر فریاد کناں ہوتی ہیں، بہنیں اپنے بھائیوں کی
ناگہانی موت پر روتی اور بلکتی ہیں، بچے اپنے بابا کے آنے کا پوچھتے نہیں
تھکتے. لیکن حیوانیت کے مقتل پر لہو نہیں سوکھتا، مرنے والوں کی تعداد کم
نہیں ہوتی. حکومت بیانات دیتے نہیں تھکتی، جھوٹی تسلیاں اور وعدے کرتے ان
کی زبان نہیں لڑھکتی اور قانون ساکن کھڑا محوتماشہ رہتا ہے۔
’’روشنیوں کے اس شہر‘‘ میں لاشے گر رہے ہیں، یہاں کے درودیوار، سڑکیں اور
گلیاں بے گناہ انسانوں کے خون سے لہورنگ ہیں،نوحے، بین اور آہ و بکا کا شور
ہے، اشکوں کاسیل رواں ہے کہ رکنے کانام ہی نہیں لیتا، لوگ اپنے پیاروں کی
جدائی پر سینہ کوبی کررہے ہیں، لیکن حکومت کی بے بسی. اور. مجبوری. سمجھ سے
بالاتر ہے۔ ہمارے وزیر داخلہ سندھ فرمارہے ہیںکہ ’’وہ بے بس ہیں اور اس
خونریزی کو روکنا بہت مشکل ہے۔‘‘
دنیا کے دوسرے ملکوں کا دستور ہے کہ جب انہیں ایسی کسی صورتحال کا سامنا
کرنا پڑا اور وہاں جب کوئی وزیر کھل کر اپنی بے بسی کا اظہار کر دیتا ہے تو
اس ناکامی کے اظہار کے ساتھ وہ اپنا استعفیٰ بھی پیش کر دیتا ہے، لیکن وطن
عزیز میں ہمارے کسی ذمہ دار فرد کو اپنی محکمانہ ذمہ داری کا احساس چھو کر
بھی نہیں گزرتا ہے ۔ استعفیٰ تو دور کی بات ہے بلکہ وہ اس ذمہ داری کو اسی
طرح ’’دھڑلے‘‘ سے مدت اقتدار کے آخری دن تک نبھانے کا مصمم ارادہ کر لیتا
ہے۔دوسری طرف ایک عام شہری گھر میں محبوس ہو کر رہ جاتا ہے، وہ جانتا ہے کہ
باہر نکلا تو ہو سکتا ہے گلی کی کسی نکڑ یا سنسان چوراہے پر موت جھپٹ پڑے۔
ہر طرف جواں لاشے ،تھکے کاندھے،لرزتے قدم ہیں۔
لیکن قاتل بدستور دندناتے پھرتے ہیں، یاالہٰی .یہ کیسا قانون ہے .یہ کیسی
انتظامیہ ہے .یہ کیسی جمہوریت ہے . اور یہ کیسی حکومت ہے، جو ہر مرتبہ ایک
بیان سے دوسرے بیان تک تیس، چالیس اور پچاس سے زائد بے گناہ انسانوں کے خون
کا خراج لیتی ہے اور’’ ٹس سے مس‘‘ نہیں ہوتی، بلکہ الٹا اس ناکام جمہوری
نظام کی خوبیاں گنواتی ہے، مصالحتی پالیسی کے گن گاتی ہے اور مفاہمت کی
پالیسی پر ناز کرتی ہے، لیکن قتل و غارت گری کو نہیں روکتی، بے گناہ
انسانوں کے قاتلوں کوگرفتار نہیں کرتی، انہیں کیفر کردار تک نہیں
پہنچاتی،آخر یہ سب کیا ہے؟ ارباب اقتدار میں سے کوئی ذمہ داری قبول نہیں
کرتا، کوئی اس ذمہ داری کا احساس نہیں کرتا۔ کاش کوئی تو امن و امان کی اس
دگرگوں صورتحال پر استعفیٰ دے، لاشوں پر سیاست کو چھوڑ کر عوام کی فلاح و
بہبود کے لئے اپنے آپ کو وقف کرے.!!
مگر افسوس کوئی ایسا نہیں کرتا۔کسی میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ ذمہ داری
قبول کرے۔ یہ کیسے لوگ ہیں کہ اپنی جان کے لئے تو محافظوں کے انبار لگا
رکھے ہیں لیکن عوام کی حفاظت میں یہ بری طرح سے ناکام ہیں۔ افسوس کہ نہ
شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں، نہ اس بات کا اعتراف کہ ہاں عوام کو تحفظ دینا
ہماری ذمہ داری ہے جو ہم پوری نہ کرسکے، نہ ہی آخرت کی گرفت اور خدا کی پکڑ
کا خوف ہے۔ قوم لاشوں پہ لاشیں اٹھا رہی ہے اور یہ بن ٹھن کے قیمتی سوٹ پہن
کر محافظوں کے جھرمٹ میں ائیر کنڈیشنڈ بلٹ پروف گاڑیوں میں گھوم رہے
ہیں،کوئی ہے انہیں پوچھنے والا کہ جب تم اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر
سکتے،جب سترہ کروڑ عوام کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتے تو اقتدار کے
ساتھ کیوں چمٹے ہوئے ہو،اقتدار کا بوجھ تو وہ اٹھائیں جو عوام کو جان و مال
کا تحفظ دے سکیں،جو خود بھوکے رہیں،عوام کو کھلائیں،جو خود جاگیں ، راتوں
کو چوکیداری کریں اورچوری، ڈکیتی ، قتل کی وارداتوں کی ذمہ داری قبول کریں
اور اپنی عوام کو آرام و سکون کی نیند سلائیں،شاید یہ ہماری شامت اعمال کا
نتیجہ ہے جو ہمیں درد مندی،احساس اور قوم کے فکر و غم سے عاری و بے نیاز
چوکیدار ملے ہیں۔
اے قوم کے چوکیدارو.! ڈرو اس وقت سے جب خدا کاقانون حرکت میں آجائے اور پھر
تمہیں کوئی بچانے والا نہ ملے، ڈرو ربّ ذوالجلال کی گرفت سے.جب تم سے
تمہاری رعیت کی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال ہوگا۔مہلت عمل کم ہے۔
٭.٭.٭
ارض فلسطین کی خون رنگ فضاؤں میں سلگتی سسکیوں کی چنگاریاں مجھے یہاں اپنے
ملک میں بھی ہر وقت جلائے رکھتی ہیں. کبھی مجھے وہاں پر رہنے والوں کی
معصوم آنکھوں کی بے بسی بے چین کرتی ہے تو کبھی اس دیس سے آنے والی ہواؤں
میں بسی شہیدوں کے خون کی خوشبو میرا حصار کر لیتی ہیں. اور میں لاکھ اپنی
سماعتوں کے عذاب سے دور رہنا چاہوں تو بھی اس دیس میں برپا ہونے والے مظالم
کی آوازیں مجھے سونے نہیں دیتیں۔
آج ایک ایسے ہی ظلم نے میری نیند اڑا دی تھی. میری سوچ بار بار جیسے اس خبر
کی یقینی کے گرد بے یقینی کا دائرہ بنانا چاھتی تھی لیکن وہ خبر ایک سچ کی
طرح میرے واہموں سے لپٹی ہی رہی. سچ بھی تو ایسا کڑوا سچ تھا جیسے اپنوں کو
کسی نے زہر کی نیند سلا دیا ہو اور بچنے والوں کو تلوار سے کاٹ دیا ہو. خبر
میں لکھا تھا کہ ’’ اسرائیل فلسطینیوں کو پانی سے محروم کر رہا ہے‘‘
مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی حالت نہایت تشویشناک ہے۔ اسرائیلی حکام
فلسطینی شہریوں کو نئے کنویں کھودنے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ ہی پہلے سے
موجود کنوؤں کی مرمت کی اجازت فراہم کی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق
اسرائیلی پابندیوں کے باعث مغربی کنارے کے دو لاکھ افراد صاف پانی کی سہولت
سے محروم ہیںاور ان کی مشکلات میں 50 گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اہل
غزہ پر بھی پانی اور خوراک کی پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی میں اس خبر
سے نظر ہٹا ہی نہ پایا تھا کہ اس خبر کے ذرا نیچے ایک اور دل دہلا دینے
والی خبر تھی کہ غزہ کی پٹی میں واقع ایک علاقے میں زیتون کے پھل چنتے دو
بچوں کو اسرائیلی بھیڑیوں نے پے درپے گولیاں مار کر خون میں نہلا دیا اور
وہ آنکھوں میں حیرت و استعجاب کے طوفان لیے بنا کوئی آواز نکالے اس دنیا سے
کوچ کر گئے۔
کیسا ستم ہے کہ ظلم برپا کرنے والے اس عہد کے فرعون یہ کہتے ہیں کہ بنجر
قسمتوں والے تم سارے مسلمان برباد ملکوں کے مکین ہو. اور تمہاری بربادی
ابھی ہمارے ہاتھوں مکمل نہیں ہوئی. ابھی ہر طرف خون آشام شام اور رات کے
سائے ختم نہیں ہوئے. اس لئے کہ ابھی مشن مکمل نہیں ہوا. لیکن ان کا مشن
کیوں مکمل نہیں ہو رہا.؟ شاید انہیں بھی معلوم ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ ہیں
جو ابھی بھی بزدلی سے کوسوں دور ہیں. جو ابھی بھی عزت کی موت مرنا چاہتے
ہیں. جو ابھی بھی حق کے جنوں کا سودا سر میں رکھتے ہیں. ابھی کچھ لوگ ہیں
جو چند روزہ زندگی کو چند روزہ ہی سمجھ کر گزار دینا چاہتے ہیں. جو ابھی
بھی آزادی کی شمع ہاتھ میں لئے پیاسے ہونٹوں، ننگے پیر اور خالی ہاتھ دشمن
کی سرزمین پر زیتون کے پھل توڑنے کاحوصلہ رکھتے ہیں۔ اور انہیں یہاں سے
بھگانے کا پکا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔
امن کے داعی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی بربادی اس کے
مکینوں کی خاموشی میں مضمر ہوتی ہے۔ کتنے ہی ملک ایسے برباد ہوئے جنکے
سیاستدانوں، شاعروں ، ادیبوں اور تاریخ سازوں کی حقائق سے چشم پوشی کی عادت
ہوتی ہے. ان کی یک جہتی میں بٹوارے کی سازش ہوتی ہے . آپس کی مسلکی ، لسانی
رنجشیں اور مفاد پرستی کی انتہا ہوتی ہے۔ یوں وہ اپنی اصل سے دور ہو جاتے
ہیں۔ اپنے مقصد سے د ور اور انجام سے بے خبری ان کو اور انکے ملک کو مٹا
دیتی ہے۔کتنا کچھ سامنے ہے قوموں کے بربا دہونے کے لیے . مٹ جانے کے لیے.
مگر ہم سبق نہیں لیتے، ہم کبھی نہیں سنبھلتے۔
آج ہم میں سے کوئی نہیں جو چیخ چیخ کر کہہ سکے کہ. اے ارض فلسطین کے
جانبازو.! شعلوں میں زیتون کے پھل چننے والو. تمھارے جسم اور زمین پر خون
کے دھبے بہت نمایاں ہیں لیکن امت مسلمہ کے لیے قربانی کے درس کی تاریخ ہے۔
ایسی لازوال تاریخ جس میں بہت عظیم سبق ہے جسے کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔
اسی فلسطین کی خون رنگ خاک کی خوشبو جب بھی اداس ہواؤں کے ذریعے اڑتی ہوئی
مجھ تک پہنچتی ہے تو. مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پیاس سے جاں بلب جنگ
کے شعلوں میں کودتے ایک جانباز کی آواز سنائی دے رہی ہو جو دنیا کو بتانا
چاہتا ہوکہ:
ہم پیاسے مرنے والے خاموش انسانیت کے لیے ایک آواز ہیں۔ ایک ایسی آواز جسے
وہ چاہے سنیں یا نہ سنیں . ہم مرنے والے اس لیے نہیں مرتے کہ ہم بزدل ہیں
اور اپنے دشمن کی کافرانہ چال نہیں سمجھ سکتے بلکہ ہم اس لیے راہ حق میں
جان دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی آزادی کی قیمت معلوم ہے ۔ہم وہ بہادر ہیں جنہوں
نے امن کی آبیاری کے لیے اپنا ہی خون دینے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ تاکہ ہماری
آنے والی نسلوں کا نہ تو کوئی پانی بند کر سکے نہ کوئی ان کی آزادی چھین کر
انہیں اپنا غلام بنا سکے اور نہ کوئی ان کے زیتون کے پھلوں کو چننے سے روک
سکے۔ |