صوبائی خود مختاری کی صلیب کے مصلوب

صوبائی خود مختاری کی صلیب کے مصلوب
ایک کے بعد ہے دوسرے کی باری ....بعد از مشرف صدر زرداری

صوبائی خود مختاری دینے پر رضامندی ‘ مشرف کی رخصتی کا سبب بنی اور اب اسی خدشہ کے پیش نظر صدر زرداری کی رخصتی کے اسباب پیدا کئے جارہے ہیں خود مختار و بااختیار صوبوں کاقیام ‘ صوبوں کے درمیان حائل منافرت کے خاتمے ‘ قومی وحدت کے فروغ اور قیام امن کے ساتھ ترقی و خوشحالی کا سبب بھی بنے گا طالبان کے خاتمے ‘ سرحد کو پر امن بنانے ‘ بلوچستان و سرحد میں حکومتی رٹ قائم کرنے اور ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے صوبائی خود مختاری ناگزیر ہے صوبائی خود مختاری سے گریز اسلئے کیا جارہا ہے کہ صوبوں کو بااختیار بنائے جانے پر سرائیکی اپنے لئے الگ صوبے کا مطالبہ کریں گے اور اگر سرائیکی صوبہ بنادیا گیا تو پنجاب سب سے بڑے صوبے کی اپنی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکے گا صوبائی خود مختاری کے قیام سے پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش ناکام ہوجائے گی ‘ اسلئے سامراجی قوتیںنہیں چاہتیں کہ صوبوں کو خود مختاری دی جائے ۔

قیام پاکستان کے بعد سے اس ملک کے اقتدار پر جو لوگ قابض ہوئے وہ حقیقی معنوں میں ان غدار اسلام گھرانوں کے چشم وچراغ تھے جنہوں نے ”نمک فرنگی“ کی ادائیگی میں مادرِ وطن کے سودے اور تحریک آزادی کے جیالوں و متوالوں کے سر فروخت کر کے جائیداد اور ”خطابات“ پائے تھے لہٰذا قیام پاکستان کے بعد اس ملک کے اقتدار و وسائل پر قابض ہونے والے فرنگیوں کے ان تابعداروں نے انگریزوں کی ”لڑاؤ اور حکومت کرو “ کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے وطن عزیز کی عوام کو ایک سازش کے تحت علاقائیت ‘ صوبائیت ‘ مسلک ‘ مذہب اور فرقہ واریت میں بانٹنا شروع کردیا اور ایک ”گریٹ گیم“ کے تحت سندھ کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے جہاں سندھ میں شیعہ و سنی منافرت پیدا کر کے قیام امن کے نام سندھ کی قیمتی اراضی اور وسائل پر قبضہ کیا گیا تو دوسری جانب سرحد کو علاقہ غیر قرار دے کر وہاں قبائلی نظام کو فروغ دیا گیا تاکہ ”جرگہ سسٹم “ کا شکار پختون عوام تعلیم اور شعور سے محروم رہیں اور پسماندہ رہتے ہوئے کبھی بھی اپنے حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرنے سے قاصر رہیں جبکہ بلوچستان میں ”سرداری“ نظام کو تقویت فراہم کر کے بلوچستان کی عوام کو مختلف سرداروں کے درمیان رسہ کشی کی سرزمین بنادیا گیا تاکہ بلوچستان کے وسائل پر قبضے کے خلاف کبھی کوئی متحدہ تحریک نمو نہ پاسکے ۔ اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ سندھ کے دیہی علاقوں میں اسکولوں کو اوطاقوں اور گھوڑوں کے اصطبلوں میں تبدیل کرانے کے بعد سندھ کے شہری علاقوں کے تعلیمی نظام کی تباہی کے لئے تعلیمی اداروں کو سیاست کے ایوانوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ سندھ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی آنے والی نسلوں کو صلاحیتوں سے محروم رکھا جاسکے جبکہ ایک سازش کے تحت پاکستان کے تین صوبوں کا استحصال کر کے پنجاب میں ترقی کی رفتار کو تیز کیا گیا تاکہ پاکستان کے دیگر تین صوبوں کے عوام پنجاب کو اپنا دشمن محسوس کرنے لگیں اور آہستہ آہستہ ان میں پاکستان کے خلاف بغاوت کے وہ جذبات موجزن ہونے لگیں جن کے اظہار کی بنا پر ان کے خلاف ایسی کاروائیوں کا آغاز کیا جاسکے جس کی وجہ سے وہ مسلح جدوجہد پر مجبور ہوجائیں اور آج سرحد میں طالبان ‘ بلوچستان میں بلوچ لبریشن آرمی مسلح جدوجہد پر مجبور ہیں جبکہ استحصال کا یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو ہوسکتا ہے کہ سندھ سے بھی کوئی مسلح بغاوت جنم لے لے اور شاید پاکستان دشمن قوتوں کے اشاروں پر پاکستان میں استحصال کے ذریعے انتشار و نفاق کا بیج بونے والے پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کے لئے اسی وقت کا انتظار کررہے ہیں جبکہ اس منصوبے کے تحت پاکستان کو چار حصوں میں منقسم کردہ نقشہ تو پہلے ہی منظر عام پر آچکا ہے ۔

12اکتوبر 1999ءکو جب پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی محافظ مسلح افواج نے اداروں کے درمیان تصادم پیدا کرکے وطن عزیز کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے اور ذاتی مفاد کے لئے ملکی استحکام کو داؤ پر لگانے کے الزام میں نواز شریف کو برطرف کر کے پاکستانی جمہوری حکومت کی بساط لپیٹتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا اور صدر مشرف نے عنان حکومت سنبھالا تو انہوں نے پاکستان کی سیاسی فضا اور جغرافیائی حالات سمیت عوام کے مسائل اور پاکستانی ثقافت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وسیع تر قومی مفاد میں صوبوں کے درمیان حائل نفرتوں کے خاتمے کے لئے ”لوکل گورنمنٹ آرڈیننس2002“ کے تحت ”مقامی حکومتوں “ کا نظام تشکیل دیا تاکہ پاکستا ن کے تمام علاقوں میں یکساں وسائل کی فراہمی کے ذریعے ترقی کی رفتار میں یکسانیت لاکر عوام کے احساس محرومی کا ازالہ کیا اور قومی وحدت کو مضبوط کیا جاسکے ۔ جنرل مشرف نے اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار میں سے سات برس ایک ایسے مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے گزارے جو ”کن “ اور ” فیٰکون “ کا ثبوت دیتا رہا اور وطن عزیز میں موجود سیاستدانوں کی اکثریت اس آمر کی دہلیز پر سجدہ ریز رہی مگر جونہی صدر پرویز مشرف نے یہ محسوس کیا کہ سامراجی سازشوں کے تحت تین صوبوں کے استحصال کے ذریعے ملک بھر کی عوام کو پنجاب کے خلاف نفرت پیدا کر کے انہیں مسلح بغاوت پر مجبور کیا جارہا ہے اور اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو ملک خدانخواستہ ٹوٹ بھی سکتا ہے تو انہوں نے ان سامراجی سازشوں کے خلاف برسرِ پیکار ہونے کا عزم کرکے ”صوبائی خود مختاری “ کے لئے کام کا آغاز کردیا اور کابینہ کو حکم دیا کہ جلد سے جلد صوبائی خودمختاری کا بل اسمبلی پاس کراکر نافذ العمل کردیا جائے ۔ بس یہیں سے صدر مشرف کے زوال کا آغاز ہوااور اپنے اقتدار کے آٹھویں سال میں صرف ایک سالہ سازشوں کے ذریعے انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔ کیونکہ سامراجی ایجنڈے کے تحت ملک کو توڑنے والی قوتیں کس طرح سے صدر مشرف کی وطن عزیز کو مضبوط کرنے والی پالیسیوں کو قبول کرسکتی تھیں ۔

ادھر جنرل پرویز مشرف نے صوبائی خودمختاری دیئے جانے کا عندیہ دیا ادھر ان کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا سب سے پہلے ان سے سب بڑے حلیف اور ان کے آمرانہ اقدام کو تحفظ فراہم کرنے والے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری اور صدر مشرف کے درمیان ایسے تنازعات پیدا کرائے گئے کہ جن کی مدد سے عدلیہ انتظامیہ محاذ آرائی پیدا ہوئی جو آج ”وکلاء تحریک “ میں ڈھل چکی ہے ۔اس کے فوری بعد لندن میں بی بی اور نوز شریف کے مل بیٹھنے کے انتظامات کر کے میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی جسے وقت نے ثابت کیا کہ وہ میثاق جمہوریت نہیں بلکہ صرف اور صرف ”مشرف ہٹاؤ پلان تھا “ ۔ اس کے بعد12مئی کا افسوسناک واقعہ رونما کرایا گیا تاکہ مشرف کے خلاف سیاسی بغاوت کے بعد عوامی بغاوت کو بھی جنم دیا جاسکے پھرNRO کا چکر چلا کر جلاوطن اور ملک بدر قیادتوں کی واپسی کے اقدامات کئے گئے اس کے بعد ایمرجنسی کے نفاذ کے ذریعے صدر مشرف کے اقتدار کو مکمل متنازعہ بنانے کے بعد ”بے نظیر بھٹو قتل “ کے ذریعے مشرف کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی ۔ بے نظیر بھٹو بھی صرف اس لئے قتل کی گئیں کہ ایک تو قومی سیاست سے سندھ کے کردار کو ہمیشہ ہمیشہ کے ختم کر کے ملک میں ”ون پارٹی شو “ کے ذریعے عوام کو آپس میں لڑا لڑاکر جلد سے جلد مسلح بغاوت کا آغاز کرایا جاسکے دوسرے سازشی قوتوں کو یہ بھی خدشات تھے کہ اگر بےنظیر بھٹو زندہ رہیں تو استحصال زدہ صوبے ”سندھ “سے تعلق رکھنے کے باعث وہ یقینی طور پر سندھ اور بلوچستان کے مفادات کے تحفظ کے لئے ”صوبائی خود مختاری “ کو یقینی شکل دے دیں گی ۔ یوں مختلف مسائل اور بحرانوں میں مشرف کو الجھا کر نہ صرف اس کی مکمل کردار کشی کی کرتے ہوئے اسے پاکستانی سیاست سے رخصت کردیا گیا بلکہ ”صوبائی خود مختاری “ کے اعلان کے بعد اسے اتنی مہلت ہی نہیں دی گئی کہ وہ اس پر مزید پیشرفت کرسکتا۔ یوں صوبائی خود مختاری کا معاملہ صرفِ نظر ہوگیا اور مشرف کے اقتدار کے خاتمے کا سبب بھی بنا ۔

18فروری2008ءکے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے افہام و تفہیم اور اشتراک و اتحاد کے عملی مظاہرے کے ذریعے تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کو ساتھ لےکر چلنے کی جو کوشش کی وہ قابل ستائش ہی سہی مگر درپردہ قوتوں کےلئے کسی بھی طور قابل قبول نہیں تھیں کیونکہ اختلافات ‘ انتشار ‘ منافرت اور بدامنی سے پاک” پاکستان“ ان کی سازشوں کو پورا نہیں کرسکتا تھا لہذا حکومت کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا حلیفوں کو حریف بنانے کی رسم دہرائی گئی کہیں ”مےثاق جمہوریت “ کا راگ الاپا گیا تو کہیں ”عدلیہ کی آزادی “ وجہ بتائی گئی مگر مفہوم و مقصد سب کا صرف اور صرف ایک ہی تھا انتشار ‘ افتراق ‘ بد امنی ‘ بے چینی تاکہ عوام نادانستگی میں سامراجی قوتوں کے آلہ کار کا کردار اد اکرتے ہوئے استحکام پاکستان کو نقصان پہنچانے کے ان کے منصوبے کو عملی شکل دے سکیں ۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ ”سترھویں ترمیم “ کے خاتمے کا ڈرامہ شروع ہوا مگر یہ ڈرامہ اس وقت ناکامی سے دوچار ہوگیا جب صدر زرداری نے اختیارات کو پارلیمنٹ کی رضا کے مطابق تقسیم کرنے پر آمادگی ظاہر کردی‘ تو دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے صرف صدر کے اختیارات میں توازن اور 58/2-Bکے خاتمے کو ناکافی قرار دیتے ہوئے وطن عزیز کو آمریت سے محفوظ رکھنے کے لئے صوبائی خود مختاری کو بھی لازم قرار دیا اور اس مقصد کے لئے ایک بل اسمبلی میں پیش بھی کردیا چونکہ صدر زرداری کا تعلق سندھ سے ہے اور انہیں یہ معلوم ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک سندھ کا اس قدر استحصال صرف اس لئے ہوا ہے کہ وہ صوبائی خود مختاری سے محروم ہے اسلئے سامراجی قوتوں کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں صدر زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت صوبائی خود مختاری کے حوالے سے کوئی عملی اقدامات کر ہی نہ گزرے اسلئے متحدہ کا صوبائی خودمختاری اور سترھویں ترمیم کے حوالے سے بل پیش ہوتے ہی سامراجی قوتوں نے ایک اور ترپ کا پتا کھیلا اور ایسے حالات پیدا کردیئے کہ نواز شریف پریس کانفرنس میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ”عوام سڑکوں پر آجائیں “ جو سراسر سول نافرمانی کی دعوت ہے اور سول نافرمانی کا مقصد ہے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا تاکہ یا تو فوج ایکبار پھر ملکی مفاد میں جمہوریت پر شب خون مارنے پر مجبور ہوجائے یا حالات ایسے ہوجائیں کہ ”صوبائی خود مختاری“ کی ”حامی“ حکومت کی تبدیلی کسی بھی طرح عمل میں آجائے اور ایسی نئی حکومت لائی جائے جو صوبائی خود مختاری کی حامی نہ ہو اس طرح صدر مشرف کے بعد صوبائی خود مختاری کی صلیب پر صدر زرداری کو مصلوب کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوچکا ہے کیونکہ پاکستان دشمن قوتیں یہ نہیں چاہتیں کہ پاکستان کے تمام صوبوں کو وہ اختیارات دیئے جائیں جن کی مدد سے انصاف و مساوات کا معاشرہ قائم ہو اور صوبوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی راہ میں حائل استحصال کا خاتمہ ہوسکے کیونکہ اگر صوبے ایک دوسرے کے نزدیک آگئے تو پھر ملک مستحکم ہوجائے اور اگر ملک مستحکم ہوگیا تو پھر اسے چار حصوں میں تقسیم کرنے کی سامراجی سازشیں کس طرح کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں گی جبکہ صوبوں کو خودمختاری نہ دینے کی دوسری وجہ یہ بھی بیان کی جارہی ہے کہ اگر پاکستان کے چاروں صوبوں کو خودمختاری دے دی گئی تو جہاں آزاد کشمیر ایک باختیار ریاست کی حیثیت سے امن و اخوت کے گہوارہ بن کر مسائل سے پاک اور ترقی کی جانب رواں دواں ہے وہیں بلوچستان ‘ سرحد اور سندھ اپنے اپنے اختیارات کے استعمال سے اپنی عوام کو بھی خوشحال بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے پنجاب میں موجود ”سرائیکیوں “ میں احساس محرومی پیدا ہوگا اور وہ بھی اپنے حقوق کے لئے ایک خود مختار صوبے کا مطالبہ کریں گے جس کا قیام ناممکن ہے کیونکہ اگر پنجاب کے ”سرائیکیوں “ کو الگ صوبہ دینے کےلئے پنجاب کو توڑا گیا تو پھر پنجاب اپنی سب سے بڑے صوبے کی حیثیت کو قائم نہیں رکھ سکے گا اور سب سے چھوٹا صوبہ بن جائے گا جس سے کے بعد سامراجی قوتوں کے لئے پاکستان کو توڑنا ناممکن ہوجائے گا اور ”گریٹر پنجاب “ کا منصوبہ خاک میں مل جائے گا ۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.