اہلِ پاکستان کو درپیش صحت کے سنگین خطرات

ایک عربی کہاوت ہے کہ ”جو شخص صحت رکھتا ہے وہ امید رکھتا ہے اور جو شخص امید رکھتا ہے وہ سب کچھ رکھتا ہے۔“ یہ ایک حقیقت ہے کہ صحت نعمتِ خدا وندی اور دولتِ بے بہا ہے، جس کے پاس یہ دولت ہے وہ دنیا کا سب سے دولت مند انسان ہے۔ اس نعمت سے فیض یاب ہوتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی صحت کا ہمیشہ خیال رکھے اور بیماریوں کے لاحق ہونے والے تمام خطرات سے آگاہ رہے۔

ہر سال ۷ اپریل کو عالمی یومِ صحت منایا جا تا ہے۔اس سال اس موقع پر انفیکشن کنٹرول سوسائٹی پاکستان کی طرف سے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کاانعقاد کیا گیا،جس کا عنوان ”اچھی صحت خوش و خرم زندگی“ تھا....یہ عنوان دراصل عالمی یومِ صحت کاوہ پیغام ہے جو ڈبلیو ایچ او (WHO) نے اس موقع پر جاری کیا۔ پریس کانفرنس میں میڈیا کے کثیر نمائندوں نے شرکت کی۔ ICSP کے صدر ڈاکٹر رفیق خانانی نے صحافیوں کے سامنے چند مثالوں کے ذریعے بڑی عمدگی سے صحت کے وہ بنیادی اور سادہ نکات بیان کیے جن پر عمل پیرا ہو کر انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر رفیق خانانی صاحب کی طرف سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گیا جس میں صحت کے حوالے سے چند بنیادی صحی نکات پیش کیے گئے، جن کا خیال رکھ کر انسان بہت سی پیچیدہ اور جان لیوا بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ یہ نکات مندرجہ ذیل ہیں:
٭جسم اور ماحول کو ہمیشہ صاف رکھیں،کھانا کھانے سے پہلے، ٹوائلٹ کے بعد، اور مریض کی تیمارداری کے بعد ہاتھ باقاعدگی سے دھوئیں۔
٭ ہفتے میں 4 سے 5 مرتبہ 45 سے 60 منٹ کی اعتدال کے ساتھ ورزش دل کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے ۔یاد رکھیے سب سے بہترین ورزش خصوصاً عمر رسیدہ افراد کے لیے پیدل چلنا ہے۔ذیابیطس کے مریض دن میں کم از کم 60 منٹ پیدل چلیں۔
٭ ہمیشہ متوازن اور معیاری خوراک کا استعمال کریں جو حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔
٭خوراک میں دودھ ، پھل اورسبزیاں زیادہ استعمال کریں، نیز ریشہ دار اجناس کا استعمال کریں تا کہ قبض سے بچا جائے۔
٭ تیل اور گھی میں تلی ہوئی اشیاءسے پرہیز کریں تاکہ کولیسٹرول کی زیادتی ، دل اور معدہ کی بیماریوں سے بچا جا سکے۔ اسی طرح خوراک میں مرچ ، نمک اور شکر کم مقدار میں استعمال کرکے سادے کھانوں کو ترجیح دیں۔
٭جلدی سونے اور جلدی اٹھنے کی صحت مند عادت اپنائیں اور اپنا زائد وزن متوازن رکھنے کی کوشش کریں۔
٭ ہر طرح کی نشہ آور اشیاءبشمول سگریٹ، گٹکا ، نسوار اور تمباکو سے بنی دیگر اشیاءکے استعمال سے بچئے۔
٭غیر محفوظ انتقالِ خون سے اور غیر محفوظ سرنج کے استعمال سے بہت زیادہ احتیاط کریں۔جنسی تعلقات میں اپنے شریک حیات تک محدود رہیں۔
٭ بے وجہ اندیشوں اور فکروں سے بچتے ہوئے پر امید اور خوش رہیں۔
٭ سادہ اور قدرتی طرزِ زندگی اپنائیے۔ یاد رکھیئے صاف پانی، صاف ہوا اور دھوپ اچھی صحت کے لیے بہت ضروری ہیں۔
ضعیف اور عمر رسیدہ افراد :
٭ زیادہ دیر کے لیے جھک کر کام کرنے سے پرہیز کریں۔
٭ استعداد سے زیادہ وزن اٹھانے سے پرہیز کریں۔
٭ زمین پر بیٹھنے کی بجائے مناسب بلند کرسی کا استعمال کریں۔
٭ باتھ روم میں کموڈ استعمال کریں تاکہ گھٹنوں کے امراض سے بچا جا سکے۔
٭ چھینک لیتے ہوئے اور کھانستے وقت ضرورت سے زیادہ زور لگانے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔
٭ ناہموار اور پھسلن والی جگہوں پر مت جائیں کیونکہ ہڈیاں کمزور ہونے کی وجہ سے گرنے کے باعث ہڈیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔

ملک عزیز پاکستان صحت کے حوالے سے کتنے سنگین خطرات کا شکار ہے؟ اس کے لیے مندرجہ ذیل چند امراض کا جائزہ چشم کشا ہو گا ۔
ہیپاٹائٹس:ملک بھر میں اندازاً14 ملین لوگ ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ جن میں سے تقریباً 8.8 ملین ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں اور 5.6 ملین ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق صفائی سے عاری طبی سامان، گندے استروں کا استعمال اور غیر محفوظ جنسی تعلقات اس مرض کے پھیلنے کی اہم وجوہات ہیں۔
پولیو:محکمہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جہاں پولیو کیسز کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے اور سال دو ہزار گیارہ کے دوران ملک بھر میں ایک سو چوراسی(۴۸۱) پولیو کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سب سے زیادہ تعداد بلوچستان کی ہے۔بلوچستان میں سال دو ہزار گیارہ کے دوران تہتر(۷۷) کیسز سامنے آئے۔ محکمہ صحت کے جاری کردہ اعدار و شمار کے مطابق ملک کی آبادی کے حوالے سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سال بھر کے دوران صرف سات کیس، سندھ میں اکتیس، صوبہ خیبر پختونخوا میں اکیس، شمالی علاقہ جات میں باون جبکہ گلگت بلتستان میں ایک اور وفاقی دارالحکومت میں اس سال کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔اس کے مقابلے میں ہمسایہ ملک ہندوستان میں صرف ایک پولیو کیس سامنے آیا اور گذشہ سال دسمبر میں عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے انڈیا کو پولیو فری ملک قرار دے دیا تھا۔

تپ دِق(ٹی بی): امریکہ کے ایک امدادی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ میں سے 295 افراد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں جبکہ ٹی بی کے انتہائی شکار ملکوں میں پاکستان کا نمبر چوتھا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال چار لاکھ ٹی بی کے نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں، اور ان میں سے ستر ہزارزندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔

کینسر: حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ پانچ ہزار افراد کینسر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی ہر پانچ منٹ میں ایک، ایک گھنٹے میں بارہ اور چوبیس گھنٹوں میں ایک سو اٹھاسی افراد اس موذی مرض کی مختلف قسموں کا شکار ہو رہے ہیں۔کینسر کی مختلف اقسام میں صرف بریسٹ کینسر کو دیکھیں تو اعداد وشمار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح ،کسی بھی ایشیائی آبادی سے زیادہ ہے یعنی ہرسال نوے ہزار پاکستانی خواتین اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں اوریہ ہر سال 40,000 عورتوں کی موت کا سبب بنتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ہر آٹھویں عورت بریسٹ کینسر میں مبتلا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے تمباکو نوشی کے رجحان اور گٹکا استعمال کرنے کی وجہ سے منہ کے کینسر میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ذیابیطس: ذیابیطس مہلک بیماری ہے اور پوری دنیا بشمول پاکستان میں تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے ملک میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق پاکستان میں 7.1 فیصدلوگوں میں ذیابیطس پائی جاتی ہے ، اس اعتبار سے پاکستان ذیابیطس کے پھیلاؤ میں دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے جو نہایت تشویش ناک صورتحال ہے۔ ذیابیطس کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 36 ہزار خواتین اور 53 ہزار مرد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ دریں اثناءبچوں میں بھی ذیابیطس کا مرض معاشرے کے لئے خطرے کی علامت ہے اور اس کی بڑی وجوہات میں بچوں کا تا دیر ٹی وی دیکھنا، مستقل کمپیوٹر استعمال کرنا، فاسٹ فوڈ کا استعمال اور صحت مند جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا سرفہرست ہیں۔
وٹامن ڈی کی کمی:ایک طبی جائزے کے مطابق بڑھاپے میں جسمانی معذوری کی ایک بڑی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہے۔ جن لوگوں کو وٹامن ڈی کی کمی نہیں ہوتی، ان کو اس معذ وری سے 75 فیصد کم واسطہ پڑتا ہے۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں 90فیصد آبادی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے ۔ یہ کمی نہ صرف بچوں کی ہڈیوں پر اثر انداز ہورہی ہے بلکہ ذیابیطس، بلڈ پریشر، نمونیا، کینسر، جسم میں دکھن کا احساس، پٹھوں میں کھنچاؤ اور ذہنی تناؤ کا باعث بھی بن رہی ہے۔ دوران حمل وٹامن ڈی کی مسلسل فراہمی سے نہ صرف اسقاط حمل میں کمی واقع ہوسکتی ہے بلکہ زچہ اور بچے کی افزائش کے لئے بھی یہ نہایت ضروری ہے۔قدرتی ذریعہ کے طور پر سورج کی کرنوں سے وٹامن ڈی کی ضروری مقدار حاصل کی جاسکتی ہے تاہم شدید کمی پر قابو پانے کے لیے دھوپ اور خوراک کے ساتھ اضافی وٹامن ڈی کا حصول ناگزیر ہے۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174171 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More