وہ مجہول سا بابااکثر مجھے اپنے
دفتر کی گلی میں نظر آتا ہے۔عمر تو شاید اس کی پچاس پچپن سے زیادہ نہ ہو
لیکن اس کے مدقوق چہرے پر مکڑی کے جالے کی طرح پھیلی شکنوں کی بہتات دیکھ
کرکسی اسی سال کے بوڑھے کا دھوکا ہوتا ہے ۔ ایک جھلنگا سی قمیص اورمیلی
بدرنگ دھوتی میں مستور سوکھے فاقہ زدہ بدن کو سخت مزدوری کرتے دیکھ کر مجھے
بے حد ترس آتا ہے۔میری نگاہ میں وہ بہت معزز ہے ، شاید اس لیے بھی کہ ہمارے
دفتر (ناظم آباد)کے سامنے واقع آبادی میں وہ لوگ آباد ہیں جو کسی بھی قوم
کے چہرے پر کلنک کے ٹیکے کی حیثیت رکھتے ہیں.... وہ ہٹے کٹے، ریشمی لباس
میں ملبوس مرد جو حرام کے لاکھوں میں کھیلتے ہیں اورنت نئے سوانگ رچانے میں
کمال رکھتے ہیں اور جن کی سونے چاندی میں لدی پھندی عورتیں اپنے ننگ دھڑنگ
بچوں کو گود میں ہی ہر وہ گر سکھا دیتی ہیں، جس سے پیشہ آباء میں ترقی ہو
اور وہ اپنی ہم جولیوں میں سرخ رو ہوں۔اِن عورتوں کی استادی کا اندازہ تب
ہوتا ہے جب سات آٹھ سال کی عمر میں ہی یہ بچے وہ کارنامے انجام دیتے ہیں کہ
بندہ دنگ رہ جائے.... بسوں میں صدا لگاتے اِن بچوں کی سریلی آوازوں سے وہ
غم ٹپکتا ہے کہ کم ازکم دس بارہ مسافروں کے ہاتھ تو بے اختیار جیبوں میں
چلے ہی جاتے ہیں....بہت اچھی آواز اور نستعلیق زبان میں یہ وہ افسانے سناتے
ہیں کہ شقی القلب انسان بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.... پر کون جانتا ہے
کہ آواز کا جادو جگا کر دن بھر میں اوسطاً پانچ چھ سو کمانے والا یہ بچہ
شام میں اپنے محلے میں وہ عیاشیاں کرتا ہے کہ سفید پوشوں کے بچےسال بھر اس
کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ قصہ مختصر ان نسباً میراثی اور پیشہ سے بھکاری
لوگوں کے پاس شاید سب کچھ ہو لیکن ایک چیز کی شدید کمی ہے اور وہ ہے
غیرت!ان لوگوں کے درمیان ، مگر ان سے بہت مختلف وہ بابا پھر مجھے عزیز کیوں
نہ ہوتا جو غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں اپنی ہڈیاں گھلائے دے رہا ہے لیکن
کسی کے احسان سے اس کا سر جھکا ہو انہیں ہے۔
انہی بابا جی سے میری چند دن پہلےایک چھوٹی سی ملاقات ہوئی، جس کا حا ل
سنانا مقصود تھا لیکن تمہید طول پکڑ گئی۔ہوا یوں کہ میں گلوکوز کا ڈبہ لینے
محلے کے میڈیکل اسٹور پہنچا تو مجھ سے پہلے کاؤنٹر پر وہ بابا جی کھڑے تھے
اور دکان دار سے بحث کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ دواؤں کی قیمت پر بحث ہو رہی
ہے.... بقول بابا جی کے ان کا بچہ پچھلے بیس دن سے بیمار ہے، اور وہ اس کے
لیے روزانہ کی بنیاد پر دوا خریدتے ہیں، لیکن کل کے مقابلے میں دکاندار آج
قیمت زیادہ بتا رہا ہے جو وہ ادا نہیں کر سکتا.... دکاندار کا کہنا تھا کہ
دواؤں کی قیمتوں میں یکایک اضافہ ہو گیا ہے ، اس لیے وہ مجبور ہے۔پھر اس نے
دریادلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بابا کو یہ پیشکش کی کہ بقیہ رقم کل دے دے۔
میں نے دیکھا کہ یہ بات سن کر بابا جی کے چہرے پر پسینہ آ گیا، شاید خفت کا....انہوں
نے انکار میں سر ہلایا اوراپنے ہاتھوں میں موجود میلے نوٹوں کودوبارہ گننے
لگے.... پھرمیرے لیے انہوں نے جگہ چھوڑی اور ذرا سائیڈ میں ہو کر کسی
اندرونی جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ اورسکے نکالے ۔ شاید اب وہ گھر کے
راشن کے لیے مختص رقم اپنے بیٹے کی صحت پر خرچ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
ان کا سر غیر اختیاری طور پر دائیں بائیں ہل رہا تھا۔ میں انہیں دیکھا
کیااور پسینے میں ڈوب گیا۔ اس وقت مجھے شرم آئی کہ میں تو گلوکوز خریدرہا
ہوں جس کی اتنی خاص ضرورت نہیں.... وہ غذا کے ذریعے بھی پوری کی جا سکتی ہے
لیکن یہ بوڑھا بابااپنے بچے کی دوا کے لیے اپنے کھانے کی قربانی دے رہا ہے....
میرا دل چاہا کہ اسے دوا خرید دوں، لیکن جو شخص اتنا خوددار ہو کہ صرف قرضہ
کی آفر پر اس کی جبیں پر پسینہ آ جائے ، ایسے شخص سے کس منہ سے مدد کی بات
کی جائے.... یوں میں چاہتے ہوئے بھی جرات نہ کر سکا اور بابا جی اپنے خون
پسینے کی کمائی سے بیٹے کی دوا لیے دھیمے قدموں اپنے رستے ہو لیے!
دوسرے دن میں نے نیٹ پر دواؤں کی قیمت میں اضافہ کے حوالے سے خبریں تلاش
کیں تو انکشاف ہوا کہ دوائیں مہنگی کرنے کی جو افواہیں ہم کئی ماہ سے سن
رہے تھے، انہوں نے بالآخر حقیقت کا روپ لے لیا ہے، مگر ٹھنڈے کمروں میں
بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنے والے بالکل تصور نہیں کر سکتے کہ یہ حقیقت ایک غریب
آدمی کے نحیف وجود پر تازیانے سے کم نہیں۔
خبر تھی کہ غیر فعال وزارتِ صحت نے ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کو مختلف
دواؤں کی قیمتوں میں20 سے 100 فیصد تک اضافہ کرنے کی منظوری دے دی
ہے۔انڈسٹری ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں تقریباً350 کے قریب دواؤں کی
قیمت بڑھانے کی منظوری دی گئی جب کہ بقیہ دواؤں میں اضافے کی منظوری آیندہ
اجلاس میں دی جائے گی۔رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دواؤں کی قیمتوں میں
اضافے کے لیے وزارتِ صحت بورڈ کا اجلاس8 فروری کو اسلام آباد میں منعقد
ہواتھا۔
واضح رہے کہ ڈرگ ریگولیشن کے حوالے سے وزارتِ صحت کے حکام کا پہلے یہ کہنا
تھا کہ وزارت غیرفعال ہے اس لئے وہ ریگولیشن پر عملدرآمد کی پوزیشن میں
نہیں مگرپھر انڈسٹری کے مفاد اور عوام کیخلاف فیصلے کیلئے وزارت نہ صرف
فعال ہوگئی بلکہ اس نے ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام سے قبل ہی قیمتوں میں
اضافے کا اہم فیصلہ بھی کر ڈالا !
رپورٹ کے مندرجات پر مزید نظر ڈالیے تو معلوم ہو گا کہ زیادہ تر اضافہ ان
دواؤں میں کیا گیا ہے جو عام استعمال کی دوائیں ہیں۔مثلاً ہر قسم کے کف
سیرپ (کھانسی کے شربت) کی قیمت میں100 فیصد اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے
.... اس کے علاوہ ڈسپرین کے600 والے پیکٹ کی قیمت میں130 روپے،
لبریکس(Librex) کی20 گولیوں والے پیکٹ کی قیمت میں20 روپے، پیناڈول کے200
گولیوں والے پیکٹ کی قیمت میں40 روپے، (Trisil) ٹرائسل500 گولیوں والے پیکٹ
کی قیمت میں110 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ فاسٹم جیل(Fastum) کی قیمت
میں117 روپے کی منظوری دی گئی ہے اور اب اس کی قیمت140 روپے کی بجائے207
روپے ہوگی۔ سوموجیل(Somogel) کی قیمت19 روپے بڑھا دی گئی ہے۔ سی
پوریکس(Ceporex) کیپسول کی قیمت بھی20 سے100 فیصد بڑھائی گئی ہے۔ان کے
علاوہ دوسری اینٹی بائیوٹک اور ذیابیطس کی دواؤں کی قیمتیں بھی بڑھائی گئی
ہیں!!
سوچنے کی بات ہے کہ مہنگائی کے اس ہمہ جہتی بم سے متاثر وہی ہوتے ہیں جو
سفید پوش اور محنت کش لوگ ہیں.... اس سے نہ وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جن کے
باتھ روم میں بھی ٹھنڈی مشینیں نصب ہیں اور نہ وہ لوگ جو بسوں، چوراہوں پر
اپنی عزت نفس کا سودا کر کے روزانہ سینکڑوں کماتے ہیں....متاثر تو بابا جی
کی طرح غیور انسان ہوتے ہیں جواس ملک میں لاکھوں کی تعداد میں روتے سسکتے
بمشکل زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں مگر اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھے
ہوئے ہیں....انہیں نہ کھانے کو پیٹ بھر روٹی دستیاب ہے اور نہ بیماری میں
سستا علاج ہی میسر ہے.... پھر یہ غریب لاچار لوگ جنہیں عرفِ عام میں عوام
کہا جاتا ہے، خود کشیاں نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے! کوئی ہے جو اس کا
حل بتائے؟ |