”صوبے بناﺅ فساد“ کا ذمہ دار کون؟

بے نظیر بھٹو کے افسوس ناک قتل کے بعد پیپلز پارٹی حکومت نے پانچ سالہ آئینی مدت تو تقریباً مکمل کرلی ہے، مگر اسے، اس کی بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ صدرزرداری نے روزِ اول سے بیشتر سیاسی قوتوں کو ”مفاہمتی سیاست“ کی ایسی ”معجون مرکب“ کھلائی ہے کہ تمام اتحادی، تحفظات کے باوجود بھی ان کے ساتھ چلنے پر فخر محسوس کرتے ہیں، مگر اس ”مفاہمتی معجون“ کا اثر، اب الٹا ہونے لگا ہے، اورزرداری کی ”کرسی بچاﺅ اورعوام کو بے وقوف بناﺅ“ پالیسی اب دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔

صدرزرداری اور ان کی پارٹی کے لیے سندھ میں مہاجر صوبے کامطالبہ نہ صرف سخت چیلنج بلکہ سیاسی موت کا پیغام بنتا نظر آرہا ہے، بالخصوص 22 مئی کو لیاری میں محبت ِسندھ ریلی پر ہونے والی فائرنگ نے (جس کے نتیجے میں 3 خواتین سمیت 12 افراد جاں بحق اور 38 زخمی ہوئے) صورت حال کو انتہائی خطرناک اور پیچیدہ بنادیا ہے۔ دیہی سندھ کے تقریباً تمام ہی علاقوں میں شدید احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق، سندھیانی تحریک کی خواتین تک میدان میں نکل آئی ہیں۔ ایک سندھی چینل کی سروے رپورٹ کے مطابق سندھی خواتین نے سندھ کی تقسیم کی بابت اپنے سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کی تقسیم کسی صورت نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس سے عام سندھیوں سے لے کر ان کی قوم پرست قیادت تک کے موقف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان حالات کے تناظر میں سندھ کی موجودہ صورتِ حال پیپلز پارٹی کے لیے” آگے کنواں پیچھے کھائی“ کے مصداق ہو چکی ہے، جو خود اسی نے پیدا کی ہے۔
اگر پیپلز پارٹی مہاجر صوبے کی تحریک کو دبانے کے لیے اقدام نہیں کرتی ہے تو دیہی سندھ میں اس کا وجود ختم ہوجائے گا۔ اگر پیپلزپارٹی مہاجر صوبہ تحریک کو دبانے کے لیے کوئی بڑا اقدام کرتی ہے تو ردِعمل کے طور پر اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ علیحدگی کا اعلان کرسکتی ہے، کیوں کہ مہاجر صوبہ تحریک، اس وقت متحدہ قومی موومنٹ ہی کے زیرِ اثر علاقوں میں زیادہ سرگرم نظر آرہی ہے۔ متحدہ بظاہر براہ راست اور کھلے عام اس تحریک کی حمایت نہیں کررہی ہے لیکن اگر مہاجر صوبے کے حق میں آواز اٹھانے والوں کے خلاف کوئی سخت اقدام کیا گیا تو متحدہ کے لیے خاموش رہنا انتہائی مشکل ہوگا۔ ایسے موقع پر جب وزیراعظم پر نااہلی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے، متحدہ کی ناراضگی، پیپلز پارٹی ”افورڈ“ کر ہی نہیں سکے گی۔

ذرائع کے مطابق چند روز قبل پیپلز پارٹی کے صوبائی وزراءنے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ پر واضح کیا ہے کہ اگر دیہی سندھ میں اپنی ساکھ کو بچانا ہے تو مہاجر صوبہ تحریک کے خلاف سخت کارروائی کرنا پڑے گی،غالباً یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے متعلقہ حکام کو مہاجر صوبے کی چاکنگ مٹانے اور بینر ہٹانے کا حکم دے دیا ، جس پر جزوی طور پرعمل بھی ہوا۔مگر محبت ِسندھ ریلی کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کے غیر سنجیدہ بیان نے دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے اور مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو ، وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک پر برس پڑے اور اب پیپلز پارٹی کے بعض ارکان اسمبلی بھی اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ”صوبے بناﺅ فساد “کا ذمہ دار کون ہے ؟ اگر پیپلزپارٹی کے چار سالہ دور کا جائزہ لیں، تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اس کے ذمہ دار صدر زرداری ، وزیر اعظم گیلانی اورپیپلز پارٹی کے دیگر عہدیدار ہیں۔ قارئین کو ےاد ہوگا کہ 18 ویں ترمیم میں نام کی تبدیلی سے پہلے ہی صوبہ سرحد کو صدر آصف علی زرداری،اور پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ میاں رضا ربانی ”پختونخواہ“ کے نام سے پکارتے تھے، جس کا واحد مقصدعوامی نیشنل پارٹی کو خوش کرنا تھا،ان ذمہ دار لوگوں کی غیر سنجیدگی کا نتیجہ خیبر پختونخواہ میں ہزارہ صوبے کے مطالبے کی شکل میں سامنے آیا۔پیپلز پارٹی ہی نے پنجاب میںن لیگ کو نیچا دکھانے کے لیے لسانی بنیادوں پر سرائیکی صوبے کی آواز اٹھائی ۔صدر زرداری، وزیراعظم گیلانی اور پیپلز پار ٹی کی پوری قیادت نے اس نظریے کی بھرپور ترجمانی کی، یہاں تک کہ صدر زرداری نے خود ملتان کے دورے کے موقع پر ”سرائیکی بینک“ کے قیام کا اعلان کیا اور وزیراعظم تو اسی کو اپنی زندگی کا مقصد بتاتے ہیں۔ اس مرحلے پر سنجیدہ و فہمیدہ طبقے نے پیپلز پارٹی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ لسانی بنیادوں پر صوبوں کے قیام سے مستقبل میں سندھ میں بھی ایسی ہی آوازیں اٹھ سکتی ہیں لیکن وقتی مفادات اور مخالفین کو نیچا دکھانے کی اندھی خواہش نے پیپلز پارٹی کو کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا۔ حالانکہ یہ بات یقینی ہی تھی کہ پنجاب کی لسانی تقسیم سے سندھ کی لسانی تقسیم کی بات بھی شروع ہوجائے گی، اور وہ وقت آہی گیا ہے۔اس تمام خرابی کی ذمے دار سب سے پہلے پیپلز پارٹی ہے۔

اتحادی جماعتیں کیوں کر اس سے بری الذمہ ہو سکتی ہیں؟ ان کو پیپلز پارٹی کی قیادت کو ایسے کسی بھی اقدام سے انتہائی سختی سے روکنا چاہیے تھا ، انہوں نے کیوں نہیں روکا؟مزید یہ کہ سندھ کے شہری علاقوں میں اگرچہ گزشتہ تین دہائیوں سے مہاجر صوبے کی بات ہورہی تھی لیکن کھل کر اس کا اظہار کرنا، انتہائی مشکل تھا ، یہ مشکل پیپلز پارٹی کی قیادت نے سرائیکی صوبے کے قیام کااعلان کرکے، خود ہی آسان کردی۔

ایم کیو ایم کی جانب سے 2011ءمیں قومی اسمبلی میں آئین کے آرٹیکل 249(4) میں ترمیم کے لیے بل جمع کروانے اور پیپلز پارٹی کی جانب سے نرم گوشے کے بعد سندھ اسمبلی میں احتجاج ہوا جس پراتحادیوں کے مابین تقریباً ایک ماہ تک کھینچا تانی رہی اور یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہواہے۔ بعد ازاں سندھ اسمبلی سے مہاجر صوبے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی لیکن اس قرارداد میں متحدہ کے ارکان کے دستخط نہ ہونے پر دیہی سندھ میں کئی سوالات اٹھائے گئے، تاہم متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ سندھ کی تقسیم کے خلاف ہے لیکن اس قرارداد کے حوالے سے ان سے مشاورت نہیں کی گئی اور سندھ کی تقسیم کے حوالے سے، متحدہ، ظاہری طور پر اب بھی اسی موقف پر قائم ہے۔ قرارداد کے بعد سندھ اسمبلی کے متعدد ارکان نے انکشاف کیا کہ قرارداد کی منظوری کے بعد ان کو دھمکی آمیز موبائل پیغامات اور خطوط موصول ہوئے جس کی تحقیقات تاحال جاری ہےں۔ نجی محفلوں میں پیپلز پارٹی کے بیشتر ارکان، وزراءاور رہنما، مہاجر صوبہ تحریک کے حوالے سے متحدہ ہی کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں لیکن کھل کر اظہار کرنے سے گریزاں ہیں۔
حالیہ واقعات نے صورت حال کو بہت زیادہ پیچیدہ بنادیا ہے، اب دونوں پارٹیوں کو کھل کر سامنے آنا ہوگا۔ قومی میڈیا میں دیہی سندھ کے احتجاج کو زیادہ جگہ نہیں مل رہی ہے ،مگر سندھی میڈیا پر غور کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے لوگ، سندھ کی تقسیم کے خلاف سروں سے کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے ہیں، اور قوم پرست بھی متحد اور منظم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بیشتر مقامات پر پیپلز پارٹی کے کارکنان اور رہنما بھی احتجاج میںشامل ہوتے جا رہے ہیں ۔جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت، سندھ کی تقسیم کے خلاف ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔

زرداری صاحب نے چار سال میں عدلیہ، فوج، اپوزیشن سمیت سب سے نمٹ لیا ،لیکن سندھ کے عوام سے بچنا ،اب ان کے لیے مشکل ہوگا کیوں کہ جو آگ انہوں نے پنجاب میں لگانے کی کوشش کی تھی ، اس سے پنجاب تو بچ نکلا، مگر سندھ آج شعلہ بداماں ہو چکا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے آپ کو اس مشکل سے کس طرح نکالتی ہے جو خود اسی کی مرکزی قیادت نے پیدا کی ہے، موجودہ صورت حال کے نتائج انتہائی خوفناک بھی ہو سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ہوش کے ناخن لے اور معاملات کو جذبات کی بجائے مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کرے ،اسی میں سب کی بھلائی اور بقاءہے اورمحض اقتدار کے لیے ملکی اور قومی سلامتی سے کھیلنے سے گریز کیا جائے۔

اسپیکر کے فیصلے کو بنیاد بنا کر وزیراعظم’ میں نہ مانوں‘ کی رٹ چھوڑ دیں اور ملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں، ورنہ پیپلز پارٹی کا مستقبل تاریک ہے۔ ویسے بھی ماضی میں پیپلز پارٹی اگرچہ سندھ میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آتی رہی ہے، لیکن واضح اکثریت اسے صرف چند ہی مرتبہ ملی ہے اور اب کی مرتبہ تو بےنظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیات بھی پیپلز پارٹی میں نہیں ہیں ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اور ان کی جماعت سندھ میں نقب لگانے کے لیے کوشاں ہیں، اور اگر ان کی سنجیدگی قائم رہی تو یقینا انہیں بھرپور سیاسی فوائد ملیں گے ،کیوں کہ سندھ کے لوگ اب متبادل قیادت کی تلاش میں ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کو نیچا دکھاتا ہے اور کون ، دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں خود ہی نیچے چلا جاتا ہے۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 96643 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.