پاکستانی تاریخ کا ایک اور سنہرا
دور شروع ہو گیا کہ ملک کا حکمران جو روایتی طور پر ملزم ہوا کرتا
تھا(بینظیر بھٹو، میاں نواز شریف، جرنل مشرف ودیگر سربراہان انتظامیہ و
مقننہ مختلف جرائم کے ملزم قرار دئیے جاتے رہے) اب ایک با قا عدہ مجرم و
سزا یافتہ شخص بھی اس معتبر عہدے کی شان بڑھانے میں کامیاب ہو چکا ہے ۔
سیاسی وفاداری کی عظیم مثال قائم کرنے پر سید یوسف رضا گیلانی کو عدالت
عظمی کے لارجر بینچ نے توہین وتذہیک عدالت کا مجرم قرار دیتے ہوئے عدالت کی
برخاستگی تک سزا سنائی اور محض تیس سیکنڈ کی اس سزا نے اسلامی جمہوریہ
پاکستان کے سب سے طویل المدت آئینی سربراہ حکومت کو ’قوم کے محرم ‘سے مجرم
بنا دیا ۔سپر یم کورٹ کی جانب سے بد نام زمانہ این آر اوکالعدم قرار دے دیا
گیا، لحاظہ عدالت نے محترم وزیراعظم کو (بطور انتظامی سربراہ ) اس قانون سے
مستفید ہو کر صدر مملکت اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر بننے والے آصف علی
زرداری کے خلاف بیرون ملک مقدمات کی معطل تحقیقات کا دوبارہ آغاز کرنے
کیلئے سوئز حکام کو خط لکھنے کا حکم دیا تاہم اپنی سیاسی بساط و وزارت عظمی
بچانے کی خاطر (اٹھارہوں آئینی ترمیم کے بعدپارٹی قائد کو حاصل اختیارات کے
باعث)سید یوسف رضا گیلانی نہ صرف ایسا نہ کر سکے بلکہ اپنی وقتا فوقتا اپنی
سیاسی وفاداری کا ثبوت بھی دیتے رہے اور بلاآخر دو برس بعد توہین عدالت کے
مجرم قرار دے دیئے گئے۔آئینی ماہرین و قانون دان اس سزا کے بعد وزیراعظم کی
اہلیت و نااہلی سے متعلق الگ الگ آراء رکھتے ہیں تاہم سیاستدانوں کی اکثریت
سید یوسف رضا گیلانی کو اخلاقیات کا سبق دینے میں مصروف ہے اور ان سے عہد ہ
چھوڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔بحثیت طالب علم ، میں نے علم سیاسیات میں
اخلاقیات کو ہمیشہ مرکزی مقام پر پایا ہے جبکہ جمہوری معاشروں میں بھی اسے
مرکزی حثیت حاصل ہے لحاظہ جمہوریت کے راگ الاپنے والوں کو اس راگ سے بھی
واقفیت ہونی چاہیے۔برطانیوی نظام بلا شبہ ہمارے نظام جمہوریت کا جدامجد ہے
،وہاں سے تعلیم ، تربیت اور بلاخرآشیرباد حاصل کر کے مملکت اسلامیہ کے
ایونوں میں تشریف لانے والے برطانیوی سیاسی اخلاقی معیارکی جانب بھی کچھ
نگاہ کرم فرمائیں، 1996ء کے برطانیوی انتخابات سے قبل ایک ہی جماعت سے تعلق
رکھنے والے دو ماہرسیاستدانوں نے ایک باہمی لین دین کا معاملہ طے کیا ،انتخابات
ہوئے اور انکی جماعت کی کامیابی کے بعد دونوں افراد وزراء بن گئے ، تاہم
ایک مقامی اخبار کو انکے آپسی لین دین کی بھنک پڑ گئی جسکی اشاعت کے بعد
1998ء میں برطانیوی وزیر برائے صنعت و تجارت پیٹرمینڈلسن اور نائب وزیر
خزانہ روبن سن کو محض اس بناء پر مستعفی ہونا پڑا تھا کہ انہوں نے انتخابات
سے قبل جمع کروائے گئے گوشواروں میں آپسی لین دین پوشیدہ رکھا۔یہ فیصلہ
لیبر پارٹی نے خالصتا اپنی قوم سے کئے گئے اس وعدے کی بنیاد پر کیا کہ ہم
خود کو تاریخ کی شفاف ترین حکومت ثابت کریں گے۔ اسی طرح امریکی صد بل کلنٹن
جنسی معاشقے کے منظرعام پر آنے کے بعد باقاعدہ معافی ملنے کے بعد ہی اپنا
عہدہ بچانے میں کامیاب ہو سکے ، اسی طرح دنیا بھر کے جمہوری معاشروں میں
منتخب افراد بلشمول بھارت میں بھی کسی الزام کاعدالتی فیصلہ آنے سے قبل ہی
جمہوری و اخلاقی اقدار کی خاطراپنے عہدے سے الگ ہو جایا کرتے ہیں تاہم
پاکستان میں اپنی نوعیت کی شاید پہلی جمہوریت ہے جو عدالتی فیصلے کے تحت
مجرم قرار دیئے گئے شخص کو اٹھارہ کروڑ لوگوں کا نمائندہ برقرار دیکھنے پر
بضد ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادیوں کا یہ فعل یقینا دنیا بھر کی
جمہوریتوں کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہو گا اور آئند ہ آنے والے دور میں
پاکستان کی مثال دیکر مجرموں کو حکومت کرنے کا اصولی حق حاصل ہو سکے گا
جبکہ عدالتوں کو بھی اپنی حدود متعین کرنے میں مدد ملے گی۔ پی پی پی محتر م
وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کا جو بھی فیصلہ کرے یہ اسکا حق ہے
مگر میرے ذہن میں آرٹیکل 63(1)Gسے متعلق چند مزید سوالات جنم لے رہے ہیں
جنہیں شاید اہم نہ سمجھا جائے مگر بلا شبہ یہ اپنی اہمیت رکھتے ضرور
ہیں۔توہین عدالت کے علاوہ آرٹیکل 63(1)Gکے تحت،ایک شخص اسلا می جموریہ
پاکستان کی مجلس شوری (پارلیمینٹ )کا رکنیت سے یا انتخاب کیلئے نااہل ہو
سکتا ہے جوکسی ایسی رائے کی تشہیر کر رہا ہو جو پاکستان کے اقتدار اعلی ،
نظریہ پاکستان یا اسکے بنیادی ڈھانچے سے متصاد م ہو یا ، ایسا کو ئی بیا ن
دے جس سے مملکت کی سلامیت یا سلامتی یا امن عامہ کا قیام متاثر ہونے کا
خدشہ ہو ، یا افواج پاکستان اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے خلاف تضحیک آمیز
بیان دے(اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین ۔صفحہ 38)۔ اس تشریح کے بعد عدالت
عظمی کو وہ بھارت پرست عناصر کیونکر نظر نہیں آتے جوآئے روز پاکستان کی
سلامتی پالیسیوں پر تنقید فرماتے نظر آتے ہیں، نیٹو اور امریکہ کو اس
سرزمین پر حملہ کرنے کا اختیار دینے والا کیونکر اس شق کے اطلاق سے بچا ہوا
ہے ؟ ہمارے معزز سیاستدان جو کبھی افواج پاکستان کو اور کبھی ملکی خفیہ
ایجنسیوں کو (کسی کی بھی ایماء پر)کوستے رہتے ہیں ، اور اس ملک کی اہم ترین
سفارتی ذمہ داریاں نبھانے والے ایک ”مفرور“ بیوروکریٹ و سیاسی رہنما کیخلاف
کیونکر توہین ریاست کی کاروائی نہ کی گئی جو امریکہ میں روپوش ہونے کے بعد
ملک سے بھاگنے کی وجہ یہ بیان کررہے ہیں کہ انہیں دفاع پاکستان کہ ذمہ داری
ایجنسی سے جان کا خطرہ لاحق ہے۔ وہ معصوم رہنماکیونکر نااہل ثابت نہیں
ہوسکے جو آئے روز نظریہ پاکستان کے متعلق نت نئے سوالات اٹھاتے ہیں اور کسی
جانب سے جواب نہ پاکر مجبوراسربراہ افواج پاکستان کو یہ باور کروانا پڑتا
ہے کہ اس ملک کا نظریہ اسلام تھا ، ہے اور رہے گا۔کیا انتہائی معزز عدلیہ
کے جج صاحبان اسلامی جموریہ پاکستان کے اس کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ کیا
پاکستان کے آئین اور قانون کی پاسداری محض ان افراد کے لئے لازم ہے کہ جو
اس ملک کی پارلیمان میں بیٹھے ہیں یا بیٹھنا چاہتے ہیں؟ وہ تمام معزین جو
ذرائع ابلاغ پر رات دن بیٹھے پاکستان کے آئین کی شق 63(1)Gکی برسرعام خلاف
ورزی کرتے ہوئے اس ملک کے نظریے کی تضحیک فرماتے اور ملکی سلامتی اداروں کو
طرح طرح کے القابات سے نوازتے رہتے ہیں کیونکر عدالت عظمی کی نظروں سے بچ
نکلنے میں کا میاب ہو جاتے ہیں۔ وہ این جی اوز ، مغرب و مفادپرست تجزیہ
نگار اور اسلام آباد کی مخبریاں کر کے روزی کمانے والے کیونکر انصاف کے
کٹہرے میں نہیں لائے جاتے ، پاکستانی صحافیوں میں مغربی امداد کی تقسیم کے
معاملے کی تحقیقات کب ، کون اور کس طرح کرے گا ؟ یہ بات درست ہے کہ پاکستان
میں آذاد عدلیہ کا قیام بہت بڑی جدوجہد کے بعد ممکن ہوا اور گزشتہ سالوں
میں عدلیہ نے غیر جانبداری اور بھر پور استقلال کا مظاہرہ کیا ہے اور
فیصلوں سے بھر پور عوامی پذیرائی بھی حاصل کی ہے تاہم فیصلوں پر عملدرآمد
میں تاخیر پر سست عدالتی ردعمل اور اہم معاملات پر قائم کئے گئے کمیشنز کا
انتہائی طویل انتظار کے باوجود لاحاصل رہنا ، شدید پریشانیوں کے شکار عوام
کیلئے انتہائی تشویشناک ہے خاص طور پر کراچی ٹارگٹ کلنگ پر عدالتی تحقیقات
اور فیصلے کے باوجود انتظامی بدفعلی پر عدالیہ کی خاموشی انتہائی مایوس کن
جذبات دے رہی ہے جوبلاشبہ آذاد عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچانے کا باعث ہے۔
یپاکستان کے بہتر کل کے لئے لازم ہے کہ تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں
رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دئیں اور قانون کی عملداری کے بہتر نفاذ
کیلئے معاشرے کے ہر طبقے کو بلاتفریق اسکے دائرے میں لایا جائے ۔ یوم شہداء
کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے افواج پاکستان کے سربراہ جرنل اشفاق کیانی نے
اپنے عزم کا عیادہ کیا کہ پاکستان میں بیرونی حملوں کو قطعی برداشت نہیں
کیا جائے گا اور وہ ملک میں جموریت کے فروغ کیلئے اپنا تعاون جاری رکھیں گے
اور تمام ادارو ں کو آئین کی متعین کردہ حدود میں رہتے ہوئے ملک کی بہتری
کیلئے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان بیک وقت داخلی و خارجی خطرات کا سامنا ہے
لحاظہ ملکی فوج، عدلیہ ، سیاستدانوں، اور ذرائع ابلاغ کو وقت کی نزاکت کو
سمھجتے ہو ئے ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لئے ملکر کام کرنا ہوگااور درسِ
اقبال کو من وعن قبول کرکے اس وقت کا مکمل فائدہ اٹھا ئیں پھر سے یکجا ہو
کر دنیا کو پیغام دئیں کہ ہم معزز اور اپنے اداروں کا احترام کرنے والی قوم
ہیں ۔ |