مغنی تبسم:تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

عالمی شہرت کے حامل نامور ادیب ،دانش ور ،ماہر تعلیم ،نقاد ،محقق اور مدیر پروفیسر ڈاکٹراے۔ایم مغنی تبسم نے داعیءاجل کو لبیک کہا ۔15فروری 2012کی سہ پہر پانچ بج کر تیس منٹ پر اردو زبان وادب کے اس آفتاب جہاں تاب کو قطب شاہی شہر خموشاں حیدرآباد (خیرات آباد )میں ہزاروں سوگواروں نے پھولوں کا کفن پہنا کر ،آنسوﺅں ،آہوں اور سسکیوں کے جذبات حزیں کا نذرانہ پیش کر کے سپرد خاک کر دیا ،جس کی ضیا پاشیوں سے مسلسل سات عشروں تک اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام ہوا اور سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں۔اس شہر خموشاں کی خاک نے اس عنبر فشاں پھول کو اپنے دامن میں سمو لیا جس کی عطر بیزی سے پوری علمی و ادبی دنیا مہک اٹھی تھی ۔رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے اس کے دم سے تھے ۔ان کا وجود طلوع صبح بہاراں کی نوید تھا اور ان کی تعلیمات،ادبی خدمات اور تخلیقی کامرانیاں تاریک شب میں ستارہءسحر کے مانند تھیں ۔اتنے بڑے مدبر کی وفات کی خبر سے پوری دنیا پر سکتے کی کیفیت طاری ہو گئی۔
مقدور ہو توخاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

ابھی دو روز قبل (13۔فروری 2012)ان کے دیرینہ رفیق اور محرم راز شہر یار نے ترک رفاقت کی تھی ۔یکے بعد دیگرے یہ سانحات روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر گئے ۔مغنی تبسم اور شہر یار کی آپس میں گہری دوستی اور دیرینہ دوستی تھی ۔انھوں نے مل کر رہنے اور مل کر کام کرنے کا جو عہد وفا استوار کیااس پر صدق دل سے عمل کیا اور اسے علاج گردش لیل و نہار سمجھا ۔تقدیر کے فیصلے اور راز بھی عجیب ہوتے ہیں ۔انسانی عقل اور فہم و فراست ا ن کی گرہ کشائی سے قاصر ہے ۔شہر یار کی وفات کے صرف دو دن بعد مغنی تبسم نے اپنی بزم وفا سے جانے والے دوست کو آواز دی تم تنہاچلے گئے ،میں تمھاری تنہائی کا مداوا کروں گا ۔ میں بھی تمھارے بغیر اب اس سراب میں مزید بھٹک نہیں سکتا ۔عمر بھر ساتھ رہنے اور ساتھ نبھانے کا جو عہد کیا تھا اس کی تکمیل کا وقت آگیا ہے ۔اب تمھیں زیادہ انتظار کی زحمت نہیں ہو گی ۔
جو تجھ بن نہ جینے کا کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

مغنی تبسم کی وفات سے اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ان کی مثال علم و ادب کے ایک ایسے دائرةالمعارف کی تھی جس کی بدولت طالب علموں کونشان منزل مل جاتا ،اساتذہ کو فکر پرور اور بصیرت افروز رہنمائی میسر آتی ،محققین کو بنیادی مآخذ تک رسائی کی صور ت دکھائی دیتی ،نقادوں کو صحت مند تنقید کا حو صلہ ملتا اور تخلیق کاروں کو پرورش لوح و قلم کا قرینہ سمجھ میں آجاتا ۔ان کی ذات ایک جام جہاںنما تھی جس میں عالمی ادبیات کے تصورات اور عصری آگہی کے جملہ معائرحقیقی تناظر میں دکھائی دیتے تھے ۔ایک ایسے منبع علم وا دب کا یوں خشک ہو جاناتقدیر کا ایک جان لیوا ستم ہے ۔مغنی تبسم زینہءہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے ۔ان کے بعد وفا کے سب ہنگامے عنقا ہو چکے ہیں ۔اس سانحے پر ناطقہ سر بہ گریباں اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے ۔کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اپنی بے بسی ،محرومی اور علمی کم مائیگی کی فریاد کیسے کی جائے ۔زمانے کے یہ انداز اور تقدیر کے یہ راز کو ن سمجھ سکا ہے ۔
پر زمانہ تو پرواز نور سے بھی ہے تیز
کہاں ہے کون تھا جس نے ابھی کہا تھاکہ میں ہوں (ضیا جالندھری)

اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے مغنی تبسم کی خدمات تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ان کی وفات سے اردو ادب کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔مسلسل سات عشروں تک پرورش لوح و قلم میں مصروف رہنے والے اس نابغہءروز گار ادیب نے اپنی تخلیقی کامرانیوں سے پوری دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ۔ان کی بیس کے قریب وقیع تصانیف اور دو سو سے زائد عالمانہ تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوئے جو ان کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز ہے ۔فانی بدایونی پر ان کا پی ایچ۔ڈی سطح کا تحقیقی مقالہ معیار اور وقار کی رفعت کا مظہر ہے ۔اس مقالے میں مطالعہءاحوال کا جو ارفع معیار نظر آتا ہے وہ اوروں سے تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔اردو زبان میں تحقیق اور تنقید کو جو اعلیٰ ترین معیار انھوں نے عطا کیاوہ ان کی علمی فضیلت،تنقیدی بصیرت اور ذوق سلیم کا مظہر ہے ۔تاریخ ادب ہر دور میںان کے عظیم الشان کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھے گی اور ان کے نام کی تعظیم کرتی رہے گی ۔ان کی وفات پر ہر آنکھ پر نم ہے ۔
جان کرمنجملہءخاصان مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و مے خانہ مجھے (جگر مراد آبادی)

مغنی تبسم 13۔جون 1930کو حیدر آباد میں پیدا ہوئے ۔ان کا تعلق ایک علمی و ادبی خاندان سے تھا ۔انھوں نے اردو اور فارسی زبان میں ایم۔اے کی ڈگریاں حاصل کیں ۔اس کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں تدریس اردو پر مامور ہوئے۔اس تاریخی مادر علمی میں انھوں نے بیس برس سے زائد عرصے تک تدریسی خدمات انجام دیں ۔وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے شعبہ اردو کے سربراہ بنے ۔ان کی نگرانی میں شعبہ اردو نے بہت ترقی کی ۔یہاں کے طلبا و طالبات نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے سخت محنت ،لگن اور فرض شناسی کو شعار بنایا۔ان کے عالمانہ لیکچرز کو سن کر طلبا و طالبات گہرا اثر قبول کرتے اور اپنے دلوں میں ایک ولولہءتازہ مو جزن محسوس کرتے ۔مغنی تبسم نے متعدد جامعات میں توسیعی لیکچرز دئیے ان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،جامعہ اردو یونیورسٹی ،یونیورسٹی آف حیدرآباد ،میسور یونیورسٹی ،آندھرا پردیش اوپن یونیورسٹی ،اور ممبئی یونیورسٹی قابل ذکر ہیں ۔مغنی تبسم کی علمی ،ادبی اور تدریسی خدمات کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا ۔ان کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا ۔ان اعزات میں کچھ تو اردو اکیڈیمیوں کی جانب سے ملے ۔ان میںاتر پردیش ،بہار ،مغربی بنگال ،آندھرا پردیش کی اردو اکیڈیمیاں شامل ہیں ۔ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں آندھرا پردیش کے میڈاناٹرسٹ ،بابول ریڈی فاﺅنڈیشن (حیدرآباد)،پٹی سری رامولا ٹیلیگویونیورسٹی (حیدرآباد)اور مہاراشٹریا ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے بھی ایوارڈ ملے ۔ان کی شاعری اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں غالب ایوارڈ بھی ملا۔عالمی سطح پر ان کی بہت پذیرائی ہوئی ۔سال 2007میں انھیں عالمی فروغ اردو ایوارڈ قطر سے ملا ۔دوحہ قطر سے ملنے والے اس گراں قدرایوارڈ کی مالیت ایک لاکھ پچاس ہزار روپے نقد اور طلائی تمغہ تھا ۔ان کی یہ فقید المثال کامرانیاں انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہیں ۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے مغنی تبسم نے انتھک جد و جہد کی ۔انھوں نے دو رجحان ساز ادبی مجلات کی ادارت کی ۔ان میں سب رس اور شعر و حکمت شامل ہیں ۔شعر و حکمت میں وہ نامور ادیب شہر یار کے ساتھ مل کر ادارتی فرائض انجام دیتے تھے ۔ان دو مجلات نے پوری دنیا میں اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ۔سب رس او رشعر وحکمت نے اسی روایت کو آگے بڑھایا جسے تہذیب الاخلاق نے نمو بخشی تھی۔تخلیق ادب کو عصری آگہی سے متمتع کرنے میں ان مجلات کا کردار اردو ادب کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ادارہءادبیات اردو کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے انھوں نے اس ادارے کو حد درجہ مﺅثر اور فعال بنایا۔اس کے بعد وہ ادارہءادبیات اردو کے سربراہ کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے اور اس عظیم ادارے کی ترقی کے لیے دن رات ایک کر دیا ۔قدیم مخطوطات کے تحفظ اور قدیم تذکروں اور شعری مجموعوں کو ان کی اصل صورت میں محفوظ کرنا ان کی اولین ترجیح رہی ۔متن کے محقق کی حیثیت سے انھوں نے ہمیشہ اولین مآخذکو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیا۔انھوں نے زندگی بھر تخلیق ادب اور تدریس اردو سے اپنا تعلق بر قرار رکھا دنیا بھر میں فروغ اردو کے لیے کی جانے والی کوششوں کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔پاکستان میں انجمن ترقی اردو ،کراچی ،مجلس ترقی ءادب ،لاہور اور حلقہ ارباب ذوق کی علمی و ادبی خدمات کے وہ معترف تھے ۔اردو نظم کے حوالے سے وہ ن۔م۔راشد اور میراجی کی شاعری کے بہت بڑے مداح تھے ۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ حالات نے میراجی کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قسمت سے محروم اس تخلیق کار کو اس عالم آب و گل میں محض سینتیس سال پانچ ماہ اور نو دن سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ابتدائی عمر کے سترہ برس اور میرا کے عشق کے جنون کا عرصہ اس سے نکال دیا جائے تو تخلیق فن کے لیے اسے محض بیس برس کی مہلت ملی ۔اس قلیل عرصے میں بھی میرا جی نے جو ابد آشنا کا م کیا وہ لائق صد رشک و تحسین ہے ۔پاکستان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی مساعی کو انھوں نے ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھا ۔پاکستانی ادیبوں سے ان کے قریبی اور خلوص پر مبنی تعلقات عمر بھر بر قراررہے ۔ان کے احباب میں محسن بھوپالی ،غفار بابر ،معین تابش ،بشیر سیفی ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین ،ڈاکٹر محمد ریاض ،نظیرصدیقی،قدرت اللہ شہاب ،صہبا لکھنوی ،شبنم رومانی ،اظہر جاوید ،محمد شیرافضل جعفری،مجید امجد ،تقی الدین انجم (علیگ)،سید عبدالباقی (عثمانیہ) ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ ،احمد ندیم قاسمی ،ڈاکٹر وزیر آغا ،کبیر انور جعفری ،غلام علی چین ،رانا سلطان محمود ،منصور قیصر اور اشفاق احمد شامل تھے ۔اب تو یہ سارا گلستان ادب اور اس سے وابستہ تمام حقائق آنکھوںسے اوجھل ہو چکے ہیں ۔کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب اور چاند چہرے شب فرقت پہ وارے جا چکے ہیں ۔ان سب کی یاد آتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔یہ باغ نہ جانے کس کی نظر کھا گئی ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

مغنی تبسم کی شاعری قلب اور روح کی گہرائی میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں وہ خون بن کر رگ سنگ میں اتر جانے کی سعی میں کام یاب ہیں ۔ان کی شاعری کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی ۔انھوں نے متعدد عالمی مشاعروں میں شرکت کی ۔ان کے کلام کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا جاتااور اس کی جی بھر کے پذیرائی کی جاتی ۔انسانیت کا وقار اور سر بلندی انھیں دل و جان سے عزیز تھی ۔دکھی انسانیت کے لیے وہ ہمہ وقت مرہم بہ دست رہتے اور ان کے مصائب و آلام پر دلی رنج کا اظہار کرتے ۔مغنی تبسم نے تخلیق ادب کو تہذیبی اور ثقافتی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ 1857 کے الم ناک سانحہ کے بعد اس علاقے کے بے بس و لاچار اور مظلوم عوام پر جو کوہ غم ٹوٹا اس کے مسموم اثرات تخلیق ادب پر بھی پڑے ۔جب ظالم و سفاک برطانوی استعمار سے گلو خلاصی کی نوبت آئی تو 1947میں حالات یکسر بدل گئے ۔ان جغرافیائی تبدیلیوں کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ۔یہ اثرات اردو ادب کے تخلیق کاروں کے اسلوب میں نمایاں ہیں ۔ان تبدیلیوں نے اردو ادب کو نئی جہات اور متنوع تجربات سے آشنا کیا۔مغنی تبسم کی شاعری میں ان کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
چھپارکھا تھا یوں خود کو کمال میرا تھا
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا
ہر ایک پائے شکستہ میں تھی مری زنجیر
ہر ایک دست طلب میں سوال میرا تھا
میں ریزہ ریزہ بکھرتا چلا گیا خود ہی
کہ اپنے آپ سے بچنا محال میرا تھا
ہر ایک سمت سے سنگ صدا کی بارش تھی
میں چپ رہا کہ یہی کچھ مآل میرا تھا
ترا خیال تھا تازہ ہوا کے جھونکے میں
جو گرد اڑ کے گئی ہے ملال میرا تھا
میں روپڑا ہوں تبسم سیاہ راتوں میں
غروب ماہ میں شاید زوال میرا تھا

اردو شاعری میں حریت فکر کی ایک مضبوط اور مستحکم روایت موجود ہے ۔مغنی تبسم کی شاعری اسی روایت کا تسلسل ہے ۔ادبی محقق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام نئی جہات کا جائزہ لے جن کے متنوع اثرات سے تخلیق ادب کا نیا منظر نامہ سامنے آ رہا ہے ۔مغنی تبسم نے ہمیشہ حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا ۔وہ اردو زبان و ادب کے بے لو ث خدمت گار تھے ۔اردو زبان و ادب کو ثروت مند بنانے کے سلسلے میں ان کی خدمات کو پوری دنیا میں بہ نظر تحسین دیکھا گیا ۔وہ حریت ضمیر سے جینے کو اپنا نصب العین سمجھتے تھے ۔زندگی کے مسائل سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے وہ زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کی پاس داری کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے ۔اردو ادب میں تہذیبی اور ثقافتی ارتقا پر ان کی گہری نظر تھی ۔ان کاخیال تھا کہ جب تک اس علاقے کے لوگ اپنے کلچر کے تحفظ کو یقینی نہیں بناتے اس وقت تک فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم یہاں نہیں آ سکتا۔سلطانی ءجمہور کے وہ بہت بڑے حامی تھے ۔آمریت کے خلاف ادیبوں کی جد و جہد کو وہ ایک بہت بڑی خدمت سمجھتے تھے جس کی بدولت عوام میں مثبت شعورو آگہی پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے ۔تاریخ کے مسلسل عمل کو وہ بہت اہم سمجھتے تھے ۔تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ کسی بھی قوت کو دوام نہیں ،ہر کمال کو بالآ خر زوال سے ہم کنار ہونا پڑٹا ہے ۔ہر اولی لامر کو یہ صدا سن لینی چاہیے تا کہ وہ اپنی فر د عمل پر نظر رکھے اور جزا و سزا کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے ۔مغنی تبسم کی شاعری میں وسیع تجربات ،عمیق مشاہدات ،دردمندی اور خلوص پر مبنی بے باک تجزیات کی مسحور کن کیفیت قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ان کا اسلوب نئی جہات ،حسین الفاظ اورمسحو ر کن معنویت کی بدولت فکر و نظر پر انمٹ نقوش چھوڑتا ہے ۔انھیں زبان و بیان اور اظہار پر جو بے پناة قدرت حاصل تھی وہ ان کے اسلوب میں نمایاں ہے ۔ان کے اسلوب کی انفرادیت انھیں مقبولیت عطا کرتی ہے ۔
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اتر گئے اب تو
محبتوں کے زمانے گزر گئے اب تو
نہ آ ہٹیں ہیں نہ دستک نہ چاپ قدموں کی
نواح جاں سے صدا کے ہنر گئے اب تو
صبا کے ساتھ گئی بوئے پیرہن اس کی
زمیں کی گود میں گیسو بکھر گئے اب تو
مسافتیں ہیں کڑی دست نا رسائی کی
تمام راستے دل میں ٹھہر گئے اب تو
بسا لے جا کے کہیں تو بھی گوشہ ءحرماں
جو تیرے چاہنے والے تھے مر گئے اب تو

ادبی تحقیق اور تخلیق ادب میں گہرا تعلق ہے ۔مغنی تبسم نے تخلیق ادب کے لیے تحقیق اور تنقید کی اہمیت کو سمجھنے پر زور دیا ۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تخلیقی عمل کا قصر عالی شان تحقیق اور تنقید کی اساس پر استوار ہوتا ہے ۔تحقیق کے اعجاز سے ایک زیرک تخلیق کار وسیع النظری ،بے باکی اور صداقت نگاری کے اوصاف سے متمتع ہوتا ہے ۔اس کے بعد وہ مسائل کی گتھیاں سلجھانے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔اس کے ذہن میں متعدد نئے ،متنوع اور نادر خیالات نمو پاتے ہیں ۔مغنی تبسم نے زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفظ پر ہمیشہ زور دیا ۔ان کا خیال تھا کہ بے لوث محبت ، ایثار اور دردمندی کے اعجاز سے تخلیق کار ید بیضا کا معجزہ دکھاسکتا ہے ۔زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرناایک تخلیق کار کا فرض ہے ۔اس طر ح معاشرے کی اجتماعی زندگی کو امن و سکوں کا گہوارہ بنایاجا سکتا ہے ۔مغنی تبسم نے عملی زندگی کے تجربات سے جو نتائج اخذ کیے انھیں قلم و قرطاس کے معتبر حوالے کے طور پر اشعار کے قالب میں ڈھالا۔اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ان کے یہ مسحور کن تجربات جو بہ ظاہر ان کے ذاتی احساسات اور انفرادی میلانات کی عکاسی کرتے ہیں ان کے پس پردہ ایک طویل مسافت ہے۔یہ مسافت ان کے عرصہ ء حیات پر محیط ہے ۔اس کے اثرات ہمہ گیر اور آفاقی نوعیت کے ہیں ۔ان ہمہ گیر تجربات کی سماجی اہمیت مسلمہ ہے ۔

مغنی تبسم کے انتقال سے اردو زبان ایک جری تخلیق کار سے محروم ہو گئی ہے ۔وہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے بہت بڑے مداح تھے جنھوں نے فاصلاتی تعلیم میں پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا دی ۔ جب مغنی تبسم کی وفات کی خبر سنی تو دل دھک سے رہ گیا غم جہاں کے ہجوم میں ان مشا ہیر ادب کی یاد نے دل گرفتہ کر دیا ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے پاس سب رس اور شعرو حکمت مسلسل آتے تھے اور وہ ان ادبی مجلات کو بہت پسند کرتے تھے ۔حیف صد حیف فرشتہ ءاجل نے علم و ادب کی ساری بساط ہی الٹ دی ۔اب نہ تو اس پائے کے ادبی مجلات ہیںاور نہ ہی ان کے مدیر موجود ہیں ۔ساری حقیقتیں اب خیال و خواب ہو چکی ہیں ۔تقدیر ہر لحظہ انسان کی تدبیر کی دھجیاں اڑا رہی ہے اور انسان بے بسی کے عالم میں سب کچھ دیکھ رہا ہے اور مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔مغنی تبسم کو پاکستانی ادبیات سے جو گہری وابستگی تھی اس کی وجہ سے یہاں بھی ان کا وسیع حلقہءاحباب مو جود ہے ۔ان کی وفات پر یہاں کے اہل علم و دانش کی طرف سے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا گیا ہے ۔ان کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس کے باعث اردو ادب کا ہر طالب علم دل گرفتہ ہے ۔زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ کی تفہیم پر کون قادر ہے ۔جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے جب وہی لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو یو ں لگتا ہے کہ ن کے ساتھ ہم بھی موت کی زد میں آ گئے ہیں ۔عزیزوںکی موت ہمیں بھی ما ر ڈالتی ہے اور زندگی ایک تہمت بن کر رہ جاتی ہے ۔یہ ایک ماندگی کا وقفہ ثابت ہوتا ہے اور آگے تھوڑا دم لے کر چلنے کا اشارہ ہے ۔اس کے بعد بہت جلد ہم اپنے ان عزیزوں سے جا ملتے ہیں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 257233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.