مُحترم قارئینِ کرام پہلے حِصے
میں ہم نے آپکو عُلمائے عرب و حَرمین طیبین کے تاثرات اُنکی کِتابوں سے
آپکی بَصارت کی نَذر کئے تھے اور آج انشاءَ اللہ عزوجل برصغیر ہند کے تمام
چُوٹی کے عُلما اور مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں کے اقتباسات اُنہی کی مشہور
کتابوں اور رسائل سے آپ کے سامنے پیش کرونگا۔ تاکہ یہ غلط تاثر کہ سیدی
اِمام احمد رضا علیہ الرحمہ صرف بریلویوں کے امام تھے اور صرف بریلوی
عُلماء ہی اُنکی تقلید اور تعظیم کیا کرتے ہیں۔ کو آپکے ذہن سےخیالِ غلط کی
طرح صاف کیا جاسکے۔ کیونکہ اپنوں کی تُو سبھی تعریف و توصِیف کیا کرتے ہیں۔
لیکن جنکے ساتھ اِختلاف قائم ہُو اگر وہ بھی توصیف و ثنا میں مشغول نظر
آئیں ۔ تب ہی سامنے والے کا عِلمی مُقام و مرتبہ عظیم چُوٹی کی مانند واضح
اور سب سے ممتاز نظر آتا ہے۔ میں کوشش کرونگا کہ اس کالم میں کِسی پر کیچڑ
اُچھالنے کے بجائے صِرف اعلحضرت اِمام احمد رضا (رحمتہ اللہ علیہ) کے علمی
مقام کو اُجاگرکرنے کی کوشش کروں۔
آپ سے بھی یہی التماس ہے کہ میرے کالم کو تعصب کے بجائے عِلم میں اضافے کی
نیت سے پڑھیں تُو انشاءَ اللہ آپ بھی پُکار اُٹھیں گے کہ گُذشتہ صدی امام
احمد رضا خاں ( رحمتہ اللہ علیہ) کی صدی تھی۔ جسطرح کے مولانا ،،کوثر نیازی
،، زندگی کے آخری سالوں میں پُکار اُٹھے تھے کہ واللہ امام احمد رضا (رحمتہ
اللہ علیہ) تو علم کا روشن مہتاب ہیں۔ اے کاش امام احمد رضا تعصب کی نظر نہ
ہُوئے ہُوتے۔
مختلف مکاتب فکر کے امام احمد رضا خان کے بارے میں تاثرات ملاحظہ ہوں۔
(۱) دیوبند کے محدث انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں :۔
جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروح لکھ رہا تھا۔ تو حسب ضرورت
احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت درپیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات و اہل
حدیث حضرات و دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔ بالآخر
ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتابیں دیکھیں تو
میرا دل مطمئن ہو گیا کہ اب بخوبی احادیث کی شروح بلاجھجک لکھ سکتا ہوں۔ تو
واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریں
شستہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا
خان صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقہیہ ہیں۔
(رسالہ دیوبند صفحہ21،)۔ جمادی الاول 1330ھ
2۔ فیض مجسم مولانا محمد فیض احمد اویسی صاحب بقول لیاقت پور ضلع رحیم یار
خان میں مقیم قاضی اللہ بخش صاحب کہتے ہیں: جب میں دارالعلوم دیوبند میں
پڑھتا تھا۔ تو ایک موقع پر حاضر ناظر کی نفی میں مولوی انور شاہ کشمیری
صاحب نے تقریر فرمائی کسی نے کہا، کہ:مولانا احمد رضا خان تو کہتے ہیں کہ
حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حاضر ناظر ہیں، مولوی انور
شاہ کشمیری نے ان سے نہایت سنجیدگی سے فرمایا کہ پہلے احمد رضا تو بنو پھر
یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔ (امام احمد رضا اور علم حدیث صفحہ 83 طبع
لاہور)۔
3۔ مختار قادیانی نے اعتراض کیا کہ علماء بریلوی علماء دیوبند پر کفر کا
فتوٰی دیتے ہیں اور علمائے دیوبند علمائے بریلوی پر، اس پر (انور شاہ) صاحب
(کشمیری) نے فرمایا، میں بطور وکیل تمام جماعت دیوبند کی جانب سے گزارش
کرتا ہوں کہ حضرات دیوبند ان (بریلویوں) کی تکفیر نہیں کرتے۔ (ملفوظات محدث
کشمیری صفحہ 69 طبع ملتان، حیات انور شاہ صفحہ 323)
(روزنامہ نوائے وقت لاہور 8 نومبر 1976ء ، حیات امداد صفحہ 39)
4۔ دیوبند کے شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :۔
مولانا احمد رضا خان کو تکفیر کے جرم میں بُرا کہنا بہت ہی بُرا ہے کیونکہ
وہ بہت بڑے عالم اور بلند پایہء محقق تھے۔ مولانا احمد رضا خان کی رحلت
عالم اسلام کا ایک بہت بڑا سانحہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
۔(رسالہ ہادی دیوبند صفحہ 20 ذوالحج 1369ھ)
5۔ دیوبند کے مشہور مناظر اور ناظم تعلیمات دیوبند مولوی مرتضٰی حسن چاند
پوری رقمطراز ہیں :۔
بعض علمائے دیوبند کو خان بریلوی (احمد رضا) یہ فرماتے ہیں:۔ وہ رسول اللہ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں جانتے، چوپائے مجانین
کے علم کو آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے برابر کہتے ہیں۔
شیطان کے علم کو آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے علم سے زائد کہتے
ہیں، لٰہذا وہ کافر ہیں۔ تمام علمائے دیوبند فرماتے ہیں کہ خان صاحب کا یہ
حکم بالکل صحیح ہے جو ایسا کہے وہ کافر ہے، مرتد ہے، ملعون ہے۔ لاؤ ہم بھی
تمہارے فتوے پر دستخط کرتے ہیں بلکہ ایسے مرتدوں کو جو کافر نہ کہے وہ خود
کافر ہے یہ عقائد بے شک کفریہ عقائد ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر (احمد رضا) خان صاحب
کے نزدیک بعض علمائے دیوبند واقعی ایسے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے انہیں سمجھا،
تو خان صاحب پر ان علمائے دیوبند کی تکفیر فرض تھی اگر وہ ان کو کافر نہ
کہتے تو وہ خود کافر ہو جاتے۔ (اشدالعذاب صفحہ 12، صفحہ 13 طبع دیوبند
(6)دیوبند کے شیخ الادب مولوی اعزاز علی لکھتے ہیں۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، کہ ہم دیوبندی ہیں اور بریلوی علم و عقائد سے ہمیں
کوئی تعلق نہیں۔ مگر اس کہ باوجود بھی یہ احقریہ بات تسلیم کرنے پر مجبور
ہے کہ اس دور کے اندر اگر کوئی محقق اور عالم دین ہے۔ تو وہ احمد رضا خان
بریلوی ہے کیونکہ میں نے مولانا احمد رضا خان کو جسے ہم آج تک کافر بدعتی
اور مشرک کہتے رہے ہیں بہت وسیع النظر اور بلند خیال، علو ہمت، عالم دین
صاحب فکر و نظر پایا ہے۔ آپ کے دلائل قرآن و سنت سے متصادم نہیں بلکہ ہم
آہنگ ہیں۔ لٰہذا میں آپ کو مشورہ دوں گا اگر آ پ کو کسی مشکل مسئلہ جات میں
کسی قسم کی الجھن درپیش ہو تو آپ بریلی میں جاکر مولانا احمد رضا خان صاحب
بریلوی سے تحقیق کریں۔ (رسالہ النور تھانہ بھون صفحہ 40 شوال المکرم
1342ھ۔)
(7)دیوبندی مذہب کے فقہیہ العصر مفتی کفایت اللہ دہلوی کہتے ہیں :۔
اس میں کلام نہیں کہ مولانا احمد رضا خان کا علم بہت وسیع تھا۔ (ہفت روزہ
ہجوم نئی دہلی امام احمد رضا نمبر، 2 دسمبر 1988ء صفحہ 6 کالم 4 بحوالہ
سرتاج الفقہاء صفحہ 3)
(۸)مفتیء اعظم دیوبند مفتی محمد شفیع کراچی
دیوبند کے مفتی اعظم محمد شفیع دیوبندی آف کراچی لکھتے ہیں :۔
مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کے متعلقین کو کافر کہنا صحیح نہیں ہے۔
(فتاوٰی دارالعلوم دیوبند ج2 صفحہ 142 طبع کراچی)
یہی مفتی محمد شفیع اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رضی اللہ تعالٰی
عنہ کے مرید صادق اجمل العلماء حضرت علامہ مفتی محمد اجمل سنبھلی علیہ
الرحمۃ کے رسالہ اجمل الارشاد فی اصل حرف الضاد پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں
یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
حامداً و مصلیاً اما بعد :احقر نے رسالہ ھذا علاوہ مقدمات کے بتمامہا
مطالعہ کیا اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اپنے موضوع میں بے نظیر رسالہ ہے
خصوصاً حرف ضاد کی تحقیق بالکل افراط و تقریظ سے پاک ہے اور نہایت بہتر
تحقیق ہے مؤلف علامہ نے متقدمین کی رائے کو اختیار فرما کر ان تمام صورتوں
میں فساد صلوٰۃ کا حکم دیا ہے جن میں تغیر فاحش معنٰی میں ہو جاتا ہے۔ اس
بارے میں احقر کا خیال بتعاًل ا کابر یہ ہے کہ اپنے عمل میں تو متقدمین ہی
کے قول کو اختیار کرنا چاہئیے۔
کتبہ :۔ احقر محمد شفیع غفرلہ خادم دارالافتاء دارالعلوم دیوبند یو۔پی۔
(ہند)
(فتاوٰی دارالعلوم دیوبند ج2 ص 306)
(۹)دیوبند کے شیخ التفسیر مولوی محمد ادریس کاندھلوی کے متعلق دیوبندی عالم
کوثر نیازی لکھتے ہیں :۔
میں نے صحیح بخاری کا درس مشہور دیوبندی عالم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد
ادریس کاندھلوی۔۔۔۔۔۔۔۔ سے لیا ہے۔ کبھی کبھی اعلٰی حضرت (احمد رضا
بریلوی)کا ذکر آ جاتا تو مولانا (ادریس)کاندھلوی فرمایا کرتے۔ مولوی صاحب
اور یہ مولوی صاحب ان کا تکیہ کلام تھا)مولانا احمد رضا خان کی بخشش تو
انہی فتوؤں کے سبب سے ہو جائے گی۔ اللہ تعالٰی فرمائے گا۔ احمد رضا خان
تمہیں ہمارے رسول سے اتنی محبت تھی کہ اتنے بڑے بڑے عالموں کو بھی تم نے
معاف نہیں کیا۔ تم نے سمجھا، کہ انہوں نے توہین رسول کی ہے۔ تو ان پر بھی
کفر کا فتوٰی لگا دیا۔ جاؤ اسی ایک عمل پر ہم نے تمہاری بخشش کر دی۔
(اعلٰی حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت، صفحہ7، روزنامہ جنگ لاہور
1990۔ 10۔ 03)
10۔سید سلیمان ندوی
لکھتے ہیں:۔ اس احقر نے مولانا احمد رضا صاحب بریلوی کی چند کتابیں دیکھیں
تو میری آنکھیں خیرہ کی خیرہ ہو کر رہ گئیں، حیران تھا کہ واقعی مولانا
بریلوی صاحب مرحوم کی ہیں جن کے متعلق کل تک یہ سنا تھا کہ وہ صرف اہل بدعت
کے ترجمان ہیں اور صرف چند فروعی مسائل تک محدود ہیں مگر آج پتا چلا، کہ
نہیں ہرگز نہیں یہ اہل بدعت کے نقیب نہیں بلکہ یہ تو عالم اسلام کے اسکالر
اور شاہکار نظر آتے ہیں۔ جس قدر مولانا مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی
جاتی ہے اس قدر گہرائی تو میرے استاد مکرم جناب مولانا شبلی صاحب اور حضرت
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حضرت مولانا محمودالحسن
صاحب دیوبندی اور حضرت مولانا شیخ التفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی کی
کتابوں کے اندر بھی نہیں جس قدر مولانا بریلوی کی تحریروں کے اندر ہے۔
(ماہنامہ ندوہ اگست 1931ء صفحہ 17
(۱۱)مولانا شبلی نعمانی دیوبندی لکھتے ہیں
مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی جو اپنے عقائد میں سخت ہی متشدد ہیں مگر اس
کے باوجود مولانا صاحب کا علمی شجر اس قدر بلند درجہ کا ہے کہ اس دور کے
تمام عالم دین اس مولوی احمد رضا خان صاحب کے سامنے پرکاہ کی بھی حیثیت
نہیں رکھتے۔ اس احقر نے بھی آپ کی متعدد کتابیں دیکھیں ہیں۔
(رسالہ ندوہ اکتوبر 1914ء صفحہ 17)
12۔مولوی ابو الحسن دیوبندی لکھتے ہیں :۔
فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر جو ان (فاضل و محدث بریلوی)کو عُبور حاصل
تھا۔ اس زمانہ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
(نزہت الخواطر، ج8، صفحہ 41 حیدرآباد)
13۔مولوی عبدالحئی لکھتے ہیں :۔
(محدث بریلوی نے) عُلوم پر مہارت حاصل کرلی اور بہت سے فُنون بالخصوص فقہ و
اُصول میں اپنے ہم عصر علماء پر فائق ہو گئے۔
(نزہتہ الخواطر، ج8 صفحہ 38 )
(۱۴)معین الدین ندوی لکھتے ہیں :۔
مولانا احمد رضا خان مرحوم صاحب علم و نظر مصنفین میں سے تھے۔ دینی علوم
خصوصاً فقہ و حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی مولانا نے جس وقت نظر
اور تحقیق کے ساتھ علماء کے استفسارات کے جوابات تحریر فرمائے اس سے ان کی
جامعیت علمی بصیرت قرآنی استحضار ذہانت اور طباعی کا پورا پورا اندازہ ہوتا
ہے ان کے عالمانہ محققانہ فتاوٰی مخالف و موافق ہر طبقہ کے مطالعہ کے لائق
ہیں۔
(ماہنامہ معارف اعظم گڑھ ستمبر 1949ء)
(۱۵)عبدالماجد دریا آبادی
دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولوی عبدالماجد دریا آبادی
نے اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے خلیفہ مولانا عبدالعلیم میرٹھی
کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ اور یوں کہا کہ انصاف کی عدالت کا فیصلہ
یہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا عبدالعلیم میرٹھی مرحوم و مغفور نے اس
گروہ(بریلوی) کے ایک فرد ہو کر بیش بہا تبلیغی خدمات انجام دیں۔
(ہفت روزہ صدق جدید لکھنؤ 25، اپریل 1956ء بحوالہ سوئے منزل راولپنڈی اپریل
1982ء 57)
(۱۶)دیوبندی مشہور عالم سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں:۔
مولانا احمد رضا صاحب بریلوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک زبردست صلاحیت کے مالک تھے ان
کی عبقریب کا لوہا پورے ملک نے مانا۔
(ماہنامہ برہان دہلی اپریل 1974ء بحوالہ امام احمد رضا اور رَد بدعات و
منکرات صفحہ 34)
(۱۷)مشہور وہابی مؤرخ مولوی غلام رسول مہر لکھتے ہیں :۔
احتیاط کے باوجود نعت کو کمال تک پہنچانا واقعی اعلٰی حضرت (بریلوی)کا کمال
ہے۔
(۱۸)ماہر القادری
((جماعت اسلامی کے مشہور شاعر ماہر القادری لکھتے ہیں:۔
مولانا احمد رضا خان بریلوی مرحوم دینی علوم کے جامع تھے دینی علم و فضل کے
ساتھ شیوہ بیان شاعر بھی تھے۔ اور ان کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ مجازی راہ
سخن سے ہٹ کر صرف نعت رسول کو اپنے افکار کا موضوع بنایا۔ مولانا احمد رضا
خان کے چھوٹے بھائی مولانا حسن رضا خان بہت بڑے خوش گو شاعر تھے اور مرزا
داغ سے نسبت تلمذ رکھتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کی نعتیہ غزل کا یہ مطلع
وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جب استاد مرزا داغ کو حسن بریلوی نے سنایا تو داغ نے بہت تعریف کی اور
فرمایا کہ مولوی ہو کر اچھے شعر کہتا ہے۔
(ماہنامہ فاران کراچی ستمبر 1973ء )
ایک اور شمارے میں لکھتے ہیں:۔
مولانا احمد رضا بریلوی نے قرآن کا سلیس رواں ترجمہ کیا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ مولانا صاحب نے ترجمہ میں بڑی نازک احتیاط برتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ مولانا
صاحب کا ترجمہ خاصا اچھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ترجمہ میں اردو زبان کے احترام
پسندانہ اسلوب قائم رہے۔
(ماہنامہ فاران کراچی مارچ 1976ء )
(۱۹)عظیم الحق قاسمی فاضل دیوبند لکھتے ہیں :۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ (مدرسہ) دیوبند میں اعلٰی حضرت یا
ان سے تعلق رکھنے والے رسائل و کتب نہیں پہنچتے، نہ ہی وہاں طلبہ کا اجازت
ہوتی ہے۔ بلکہ دیکھنا جرم سے کم نہیں۔ میں بھی وہیں (دارالعلوم دیوبند)کا
فراغ التحصیل ہوں، وہاں سے مجھ کو بریلویوں سے نفرت ان کی کتابوں سے عداوت
دل میں پرورش پائی، اس لئے میں کبھی ان کی کتب سے استفادہ نہیں کر سکا۔
قاری چونکہ نیا رسالہ ہے اور ظاہراً یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ بریلویوں کا
رسالہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سبب سے میں نے قاری کا مطالعہ کیا اور (مولانا
احمد رضا) فاضل بریلوی نے شمع رسالت کی جو ضیاء پاشی کی ہے۔ اس کا ادنٰی
حصہ پہلی مرتبہ قاری کے ذریعے نظر نواز ہوا جس نے میرے دل کی دنیا کو بدل
ڈالا۔ ابھی تو صرف ایک فتوٰی نے اعلٰی حضرت کے عشق رسول صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم کا مجھ کو معترف کر دیا یہ پورا فتوٰی حب رسول کا ایک
گلدستہ ہے میں اپنے دل کے حالات ان لفظوں میں بیان کروں گا، کہ اگر ہمارے
علماء دیوبند تنگ نظری اور تعصب کو ہٹا دیں تو شاید مولانا اسماعیل سے لیکر
ہنوز سب فاضل بریلوی کے شاگردوں کی صفت میں نظر آئیں گے۔
(ماہنامہ قاری دہلی اپریل 1988ء )
(۲۰)احسن نانوتوی
دیوبند کے مولوی احسن نانوتوی نے مولانا تقی علی خان (والد گرامی اعلٰی
حضرت فاضل بریلوی)کو عیدگاہ بریلی سے پیغام بھجوایا کہ میں نماز پڑھنے کے
لئے آیا ہوں پڑھانا نہیں چاہتا۔ آپ تشریف لائیے جسے چاہے امام کر لیجئے۔
میں اس کی اقتداء میں نماز پڑھوں گا۔
(مولانا احسن نانوتوی صفحہ 87، طبع کراچی)
نوٹ :۔ اس کتاب پر مشہور دیوبندی عُلماءَ کی تصدیقات موجود ہیں۔ جن میں
مفتی محمد شفیع آف کراچی اور قاری طیب دیوبندی بھی شامل ہیں۔
21۔مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا۔ مولانا احمد رضا خان ایک سچے عاشق رسول
گزرے ہیں، میں تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان سے توہین نبوت ہو۔
(بحوالہ امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں صفحہ 96)
(۲۲)مولوی فخر الدین مراد آبادی دیوبندی نے کہا، کہ :۔
مولانا احمد رضا خان سے ہماری مخالفت اپنی جگہ تھی مگر ہمیں ان کی خدمت پر
بڑا ناز ہے۔ غیر مسلموں سے ہم آج تک بڑے فخر کے ساتھ یہ کہہ سکتے تھے کہ
دنیا بھر کے علوم اگر کسی ایک ذات میں جمع ہو سکتے ہیں۔ تو وہ مسلمان ہی کی
ذات ہو سکتی ہے۔ دیکھ لو مسلمانوں ہی میں مولوی احمد رضا خان کی ایسی شخصیت
آج بھی موجود ہے جو دنیا بھر کے علوم میں یکساں مہارت رکھتی ہے ہائے افسوس
کہ آج ان کے دَم کے ساتھ ہمارا فخر بھی رخصت ہو گیا۔
(بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116)
23۔ مولانا عبدالباقی دیوبندی
صوبہ بلوچستان کے دیوبندی مذہب کے مشہور عالم مولوی عبدالباقی جناب پروفیسر
ڈاکٹر مسعود احمد صاحب کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں :۔
واقعی اعلٰی حضرت مفتی صاحب قبلہ اسی منصب کے مالک ہیں۔ مگر بعض حاسدوں نے
آپ کے صحیح حلیہ اور علمی تبحر طاق نسیان میں رکھ کر آپ کے بارے میں غلط
اوہام پھیلا دیا ہے جس کو نا آشنا قسم کے لوگ سن کر صید وحشی کی طرح متنفر
ہو جاتے ہیں اور ایک مجاہد عالم دین مجدد وقت ہستی کے بارے میں گستاخیاں
کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ علمیت میں وہ ایسے بزرگوں کے عشر عشیر بھی نہیں
ہوں گے۔
(فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں صفحہ 17)
24۔عطاء اللہ شاہ بخاری
تحریک ختم نبوت کے دوران قاسم باغ ملتان کے ایک جلسہ میں دیوبندکے امیر
شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا، کہ :۔
بھائی بات یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خان صاحب قادری کا دماغ عشق رسول سے
معطر تھا اور اس قدر غیور آدمی تھے کہ ذرہ برابر بھی توہین الوہیت و رسالت
کو برداشت نہیں کر سکتے تھے پس جب انہوں نے ہمارے علماء دیوبند کی کتابیں
دیکھیں تو ان کی نگاہ علماء دیوبند کی بعض ایسی عبارات پر پڑی کہ جن میں سے
انہیں توہین رسول کی بُو آئی، اب انہوں نے محض عشق رسول کی بناء پر ہمارے
ان دیوبندی علماء کو کافر کہہ دیا اور وہ یقیناً اس میں حق بجانب ہیں۔ اللہ
تعالٰی کی ان پر رحمتیں ہوں آپ بھی سب مل کر کہیں مولانا احمد رضا خان رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ سامعین سے کئی مرتبہ رحمۃ اللہ علیہ کے دعائیہ الفاظ
کہلوائے۔
(ماہنامہ جناب عرض رحیم یار خان غزالی دوراں نمبر جلد1 شمارہ 10، 1990ء ، ص
46۔ 245)
(۲۵)مولوی محمد شریف کشمیری
خیرالمدارس ملتان کے صدر مدرس دیوبندی شیخ المعقولات مولوی محمد شریف
کشمیری نے مفتی غلام سرور قادری کو ایک مباحثہ میں مخاطب کرکے کہا کہ :۔
تمہارے بریلویوں کے بس ایک عالم ہوئے ہیں اور وہ مولانا احمد رضا خان، ان
جیسا عالم میں نے بریلویوں میں نہ دیکھا ہے اور نہ سنا ہے وہ اپنی مثال آپ
تھا اس کی تحقیقات علماء کو دنگ کر دیتی ہیں۔
(الشاہ احمد رضا بریلوی ص 82 طبع مکتبہ فریدیہ ساہیوال)
(۲۶)بانی تبلیغی جماعت مولوی محمد الیاس کاندھلوی
تبلیغی جماعت کے بانی مولوی الیاس کے متعلق محمد عارف رضوی لکھتے ہیں:۔
کراچی میں ایک عالم دین نے جن کا تعلق مسلک دیوبند سے تھا۔ فرمایا تھا، کہ
تبلیغی جماعت کے بانی مولانا محمد الیاس صاحب فرماتے تھے۔ اگر کسی کو محبت
رسول سیکھنی ہو تو مولانا (احمد رضا) بریلوی سے سیکھے۔
(بحوالہ امام احمد رضا فاضل بریلوی اور ترک موالات صفحہ 100)
جاری ہے۔۔۔۔۔۔ |