بسم اللہ الرحمن الرحیم
دانائی و شجاعت سے متصف نو جوان کسی بھی قوم میں ہوں،سعادت و قیادت ان کا
مقدر ہو تی ہے ۔وہ ہزاروں میں نمایاں اور لا کھوں کے رہنما ہو تے ہیں، وہ
اپنی اہلیت کی بنا پر بہت کم وقت میں ترقی کے زینے طے کر تے ہو ئے اوج ثر
پا پر پہنچ جاتے ہیں اور جب ایسے گو ہر نایاب پر آفتاب نبوت کی کر نیں پڑ
جائیں تو وہ منقی ٰ و مصفیٰ ہو کر نمایاں حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔جیسے فا
تح عرب و عجم ،کا تب وحی ،خال المومنین ،امام تدبر و سیاست، امیرالمومنین و
خلیفہ المسلمین حضرت امیر معاویہ بن ابی سفیان ؓ کی ذات مبارک ہے۔حضرت امیر
معاویة ؓ ہجرت مدینہ سے سترہ سال پہلے ر ئیس مکہ حضرت ابو سفیان ؓ کے گھر
پیدا ہو ئے ۔آپ کی والدہ ہند بنت عتبہ کا شما رکی بہادر اور شجاع عو رتوں
میں ہو تا تھا۔عرب رؤ سا کے گھروں میں پر ورش پانے کی وجہ سے آپ میں بچپن
ہی سے قائدانہ علامات و عادات ظاھر ہو نے لگیں۔ آپ نے عرب کے مروجہ علوم
حاصل کیے۔جب نو جوانی کی دھلیز پر قدم ر کھا تو طو یل القا مت ،سر خ وسفید
رنگت ،خو بصورت اور و جیہ شخصیت کے مالک نظر آئے آپ کو اللہ کر یم نے ظاھر
و باطنی تمام خو بیوں سے نوازا ہوا تھا ۔حکمت و دانا ئی ،خو ش تد بیری
سلامت روی اور اعتدال پسندی آپ کی پہچان تھی ۔جو بھی آپ کو دیکھتا آپ کی
شخصیت سے متا ثرہو جا تا تھا۔لو گ آپ کو کسرٰی عرب کہتے تھے ۔ایک دفعہ حضور
اکر م ﷺ نے حضرت امیر معاویہ ؓ کو دیکھ کر فر مایا :کہ یہ عرب کے کسرٰی ہیں
آپﷺ نے ارشاد فر مایا:کہ جب تو با دشاہ بن جائے تو لو گوں سے بحسن و خو بی
پیش آنا۔
حضرت امیر معاویہ ؓ سن ۷ھجری میں مشرف با اسلام ہو ئے ،عمرہ ؒفقاة کی
ادائیگی کے بعد آ پؑ مدینہ تشریف لے جانے لگے تو حضرت امیر معاویہ ؓ بھی
ہمسفر ہو ئے۔علوم و مضامین میں امتیازی حثیت رکھنے کی وجہ سے در بار رسالت
ﷺمیں آپ کو خصوصی مر تبہ حاصل ہو ا اور کا تب وحی کے اعزا ز سے نو ازے
گئے۔یہ اعزاز آپ ؓ کے لیے باعث افتخار و آفریں ہے ۔نبی کر یم ﷺ نے آپؓکا
ذکر کرتے ہوے فرمایا اے اللہ !اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور
اس کے ذریعہ لوگوںتک ہدایت پہنچا۔ایک موقع پر حضورﷺ نے آپ سے خوش ہو کردعا
دی ،اے اللہ !معاویہ کو کتاب اور حساب کالم سکھادے اور اسے عذاب سے بچا۔آپﷺنے
حضرت امیرمعاویہ ؓ کو دو سرے علاقوں اور ملکوں سے تشریف لا نے والے و فودکی
مدار ات اور ان کے قیام و طعام کے انتظام کا ذمہ دار بنایا ہو اتھا۔آپؓ نے
حضورﷺکی معیت میں جنگ حنین میں شرکت فر مائی ۔اس غزوہ میں آپ کے والد محترم
حضرت سید نا ابو سفیان اور آپ کے بھائی یزید بن ابو سفیان بھی شریک
تھے۔صاحب البدایة و النھایة نے ایک حدیث نقل فر مائی ہے کہ ایک مر تبہ جبر
ئیل امین ؑ آپﷺ کے پا س تشریف لا ئے اور کہا اے محمد ﷺ !معا ویہ ؓ کو سلام
کہیے اور ان کو نیکی کی تلقین فر مائیے کیو ں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب
اور اس کی وحی کے امین ہیں اور بہتر ین امین ہیں ۔
خلیفہ النبی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دور خلا فت میں یزیدبن ابو سفیان کو
لشکر دے کر شام کی طرف بھیجا تو آپ کو ایک دستہ فو ج دکر ان کا کمکی مقرر
فر مایا گیا ۔اس جنگ میں حضرت امیر معاویہ ؓ نے اپنی شجاعت و بہادری کے جو
ھر دکھائے ،حضرت عمر فاروق ؓ نے آپ کے بھائی یزید بن ابو سفیان کی وفات کے
بعد آپ کو دمشق کا والی مقرر فر مایا ۔بیت ا لمقدس کے سفر میں حضرت امیر
معاویہ ؓ حضرت عمر ؓ کا ہمسفر رہے۔آپ نے حضرت عمر فاروق ؓ سے قسطنطینہ پر
بحری حملے کی اجازت چاہئے لیکن خلیفہ المسلمین نے آپ کو اس کی اجازت نہ دی۔
حضرت عثمان غنیؓ نے آپؓ کو تمام ملک شام اور اس سے متعلقہ علاقوں کا حاکم
بنایا ۔بحری فوج کی اجازت بھی دی اور آپ کے اختیارات میں بھی اضافہ فر مایا
۔حضرت امیر معاویہ ؓ نے تمام ملک شام پر کنٹرول حاصل کر تے ہو ئے نظام حکو
مت کو مضبو ط اور مستحکم فر مایا رو میوں کو مختلف انداز سے مر غوب کیے
رکھا یہاں تک کہ کو ئی عیسا ئی حکمران اسلامی حکو مت کے خلاف بغاوت نہ کر
سکا ۔ربیع الاوّل 41ھ کے آخری عشرہ میں حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسن کے
مابین صلح ہو ئی تو تمام عالم اسلامی نے حضرت امیر معا ویہ کے ہا تھ پر
خلافت کی بیعت کی ۔ آپ نے اختلاف و انتشار کے دور میں خلافت کی ذمہ داری
اٹھائی، آپ کا،مسند خلافت پر بیٹھنا ایک طرف تو آپ ؑ ارشاد مبارک کی تکمیل
تھا تو دو سری طرف حضرت امیر معاویہ ؓ کے تدبر اور حکمت کا امتحان بھی
تھا۔آپ کا سامنا تین مختلف گر و ہو ں سے تھا ،پہلا گر وہ شیعیان علی، دوسرا
گروہ خوارج کا تھا ۔ایک گروہ ان لو گوں کا تھا جو حکومت سے الگ تھلگ گو شہ
نشین ہو کر رہ رہے تھے ۔حضرت امیر معاویہ ؓکو سب سے پہلے خوارج کامقا بلہ
کر نا پڑاجو کو فہ میں ہو ا ۔اکثر سر داران خوارج ما رے گے باقی ایران و
عراق کے مختلف شہروں میں چلے گئے۔
دوسرا کا معما ل کی تقرری کا تھا ،اس عمل میں آپؓ نے کمال حکمت و بصیرت کا
مظا ہرہ فر مایا :مصر میں حضرت عمر بن العا ص ؓ ،سعید بن عا ص کو مکہ مکر
مہ ،مر وان بن حکم کو مدینہ منو رہ ،حضرت مغیرہ بن شعب کو کو فہ کاحاکم
مقرر فر مایا:یو ں خوارج کی اٹھتی ہو ئی شو رش کا نہ صرف سدباب ہو بلکہ پو
ری اسلامی قوت کو یکجا کر کے دفاعی سے اقدامی پو زیشن کی طرف بڑ ھایا ۔آپ
اندورنی معا ملات اور خوارج کے فتنوں سے مطمئن ہو کر رو میوں کی طرف متو جہ
ہوئے ۔بحری فو ج تیار فر مائی جو تقریباً دو ہزار کشتیوں پر مشتمل تھی جو
انوں کو ترغٰیب دینے کے لئے بحری فوج کے لیے مراعات وسہولےات بھی زیا دہ
رکھیں۔مسلم نو جون نے پیش قدمی کرکے جزیروں کو اپنا مستقرو مر کز بنا کر
مصرو شام کو بحری حملوں سے محفو ظ کرلیا۔آپ ؓ 48 میں قیصر کے دا رالحکو مت
قسطنطینہ پر فو ج کشی کا عزم وارادہ فر مایا منادی کر وائی گئی، صحابہ کر
ام سمیت تمام لو گ اس سعادت کو حاصل کر نے کے لیے جوق د رجو ق اسلامی لشکر
میں شامل ہو نے لگے۔ آپ ؑ نے ارشاد فر مایا تھاکہ میر ی امت کا پہلالشکر جو
قیصر کے شہر میں حملہ آور ہو گا وہ مغفرت یا فتہ ہے۔اس عظیم لشکر میںکبار
صحا بہ کر ام شریک ہو ئے، جن میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ،عبداللہ بن عباسؓ
،حسین بن علی ؓاور حضرت ابو ایو ب انصاری ؓ تھے ۔حضرت سفیان بن عوف امیر
لشکر تھے اور یزید بن معا ویہ کو ایک حصہ کا سا لا ر بنا کر روانہ کیا
۔مسلما نو ں نے بحری اور بری دو نوں راستوں کو استعمال کر کے شہرکا محا صرہ
کیا ۔بظاہر اس لشکر کش میں کا میابی حاصل نہ ہو ئی مگر قیصر روم پر اس کا
بڑا اثر پڑا اور وہ دو بارہ اسلامی سلطنت پر حملہ نہ کر سکا اور وہ تما م
علاقے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے در میان متنا زعہ تھے مستقل طور پر
مسلما نوں کے قبضہ اور حکومت میں آگے تھے۔ آپ کے دور خلافت میں بر اعظم
افریقہ کے بڑے حصہ پر اسلامی پر چم لہرایا اور اٹھنے والی تمام بغا وتوں کو
ختم کر دیا گیا تھاجب کہ دو سری طر ف حلب بن صفرہ نے سندھ کے بڑے حصے کو
فتح کر کے اسلامی سلطنت کا حصہ بنایا۔حضرت امیرمعاویہؓنے بیس سال بحیثیت گو
رنر شام اوربیس سال بحیثیت خلیفہ المسلمین رہے۔آپ کا زمانہ خلافت کا میاب
ترین دور خلافت تھا ۔آپ کے زمانہ خلافت میں کو ئی سا زش و سو رش پیدا ہو ئی
نہ کوئی فتنہ پر وان چڑھ سکا۔مشرق ومغرب ،شمال اور جنو ب ہر طرف اسلامی
سرحدوں نے وسعت پا ئی،ملکی نظم ونسق سے متاثر ہو کر غیر مسلم بھی اسلامی
پرچم کے زیر سایہ رہنے کی تمنا کرتے تھے ۔حضرت امیر معاویہ ؓ نے اپنی حیات
میں ہی اپنا جا نشین اپنے بیٹے یزید کو مقرر فر مادیا تھا۔چنانچہ بروز
جمعرات ۲۲ رجب 60 کو شام کی سر زمین پر چمکنے والا یہ روشن ستارہ اس جہان
فا نی سے سد ھا ر گیا۔ |