شکاگو کانفرنس کے بعد۔۔۔۔

ڈاکٹر فوزیہ چودھری

آخر کار وہ بالکل نہیں ہوا جس کی ہم سب توقع کر رہے تھے کہ شکاگو کانفرنس میں پاکستان کی شرکت کے ساتھ ہی نیٹو سپلائی فوراََ بحال ہو جائے گی۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات نے شہہ سرخیوں کے ساتھ یہ خبریں خوب نمایاں کرکے شائع کیں کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے تمام تر انتظامات مکمل ہو چکے ہیں اور کنٹینرزسپلائی لے جانے کے لیے بالکل تیار کھڑے ہیں ۔امریکہ اور حکومت کے درمیان تمام تر ڈیل ہو چکی ہے۔ صرف اعلان ہونا باقی ہے۔پھر یہ خبر آئی کہ صدر پاکستان شکاگو روانہ ہوچکے ہیں اور سپلائی کی بحالی کا اعلان وہ اپنی تقریر میں کریں گے تاکہ پاکستان میں اپوزیشن ، مذہبی جماعتوں اور دیگرسماجی اور عوامی تحریکوں کی جانب سے ہونے والے ممکنہ پریشر سے بچا جا سکے ۔کیونکہ اِن سیاسی وسماجی حلقوں نے حکومت کو یہ دھمکی لگائی تھی کہ اگر نیٹو سپلائی بحال کی گئی تو وہ زبردست احتجاج کریں گے۔اور یہ حقیقت بھی تھی کہ سپلائی کی بحالی کے خلاف یہ احتجاج بہت شدید ہوناتھااور اِس پر مستزاد طالبان اور امریکہ دشمن عناصر نے پاکستان کا جو حال کرنا تھا وہ الگ تھا۔

نیٹو کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ملک بھر میں بلکہ دنیا بھر میں تمام تر میڈیا پر جو طوفان مچاہوا تھا اِس کے طلاطم میں کافی حد تک کمی واقع ہو گئی ہے۔ اور ہر ایک کی نظریں پاکستان پر لگی ہوئی تھیں کہ پاکستان کس طرح امریکہ اور اِس کے اتحادی اڑتالیس نیٹو ممالک کا پریشر برداشت کرتا ہے نیٹوکانفرنس ہوئی، صدرپاکستان نے تقریر کی ، اپنے ملک کا مﺅقف بیان کیا اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی ۔صدر نے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہش مند ہیں ۔لیکن اِس کے لیے ہم اپنی سالمیت اور خودمختاری پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے۔ڈرون حملوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے منفی اثرات ہی کیا کم تھے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملوں نے رہی سہی کسر ہی پوری کر دی ۔ ہم اپنی اُس فوج کو جِس نے دہشت گردی کی اِس جنگ میں بے پناہ جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں کِس طرح تسلی دیں کہ اُن کی تمام تر قربانیاں رائیگاں گئی ہیں ؟ کیا کبھی کسی بھی اتحادی نے اپنے ہی حلیف کے ساتھ اِس طرح کا سلوک کیا ہے جِس کا مظاہرہ امریکہ اور نیٹو نے پاکستان کے ساتھ کیا ۔کیا نیٹو افواج میں شامل کسی بھی ملک کی فوج کے خلاف اگر امریکہ اور نیٹو اِس طرح کی کوئی حرکت کرتے تو صورتِ حال کیا ہوتی۔

صدر نے نیٹو سربراہ کانفرنس سے خطاب میں پارلیمنٹ کی بالادستی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نیٹو اور ایساف کے ساتھ تعلقات کے معاملے پر پارلیمنٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ سپلائی کی بحالی پر نیٹو اور امریکہ کے ساتھ نتیجہ خیز مذاکرات ہوں۔ پاکستان نے دہشت گردی کی اِس جنگ میں جتنی قربانیاں دی ہیں دنیا کو اِن کا اعتراف کرنا چاہیے ۔اُنہوں نے واضح طور پر کہا کہ افغانستان میں امن و استحکام اُسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب تمام افغان دھڑوں پر مشتمل مذاکراتی عمل آگے بڑھے۔

شکاگو کانفرنس ہوئی اور ہوکر ختم ہوگئی مگر اِس کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے اور شاید عرصہ تک سنائی دیتی رہے گی۔ کیونکہ اِس کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد پر ہی آئندہ کا انحصار ہے ۔ خصوصاََ پاکستان اور افغانستان میں قیامِ امن کا انحصار امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے غیر مشروط انخلاءہی ہے کیونکہ اِس میں تو دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر شروع ہونے والی اِس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہی کو ہواہے اورپورے خطے میں میں اِس جنگ کا سب سے زیادہ متا ئثرہ ملک پاکستان ہی ہے اور افغانستان میں قیامِ امن کی سب سے زیادہ ضرورت پاکستان ہی کوہے کیونکہ افغانستان میں جب تک امریکی اور نیٹو افواج موجود رہیں گی وطنِ عزیز کی سرزمین امریکی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہے گی کیونکہ امریکہ ڈرون حملوں سے اجتناب کرنے سے گریزاں ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم ڈرون حملوں کے ردِعمل میں ہونے والے خودکش حملوں سے بچے رہیں ۔اِس دفعہ پاکستان نے اپنے قومی مفاد ات کے حوالے سے کانفرنس میں جو دو ٹوک مؤقف اختیا ر کیا ہے اِس پر قائم رہ کر ہی ہم اپنی بقاءاور سالمیت کی حفاظت کر سکتے ہیں ۔ لیکن اگر اِس دفعہ پھر ہم نے ماضی کی طرح ایک ڈھلمل یقین کے ساتھ امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے اور امریکہ کی شرائط پر نیٹو سپلائی کھول دی تو یقین مانیے کہ گویا ہم نے اپنی ہی تباہی کے لیے خود ہی آخری کیل ٹھونک دی ہے۔

موجودہ حکومت اپنی بری گورنس کی وجہ سے عوام میں کافی حد تک غیر مقبول رہی ہے اور اپنی مدت کے ساڑھے چار برس گزار چکی ہے اب پیچھے بہت کم وقت باقی ہے اور اتنی تھوڑی مدت ہے کہ حکومت اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالنے کے لیے مشکل ہی ہے کہ کوئی اچھا کام کر سکے اوپر سے الیکشن قریب ہیں اور ظاہر ہے کہ ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے کچھ تو ہو لہذا پیپلزپارٹی کے لیے ایک مفت مشورہ یہ ہے کہ انہوں نے نیٹوسپلائی کی بحالی کے لیے جہاں اتنا پریشر برداشت کیا ہے وہاں تھوڑی سی اور ہمت کرے اور ڈٹ جائے ۔عوام میں مقبول ہونے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔ مہنگائی، بیروزگاری،گرمی اور لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں مجبور عوام کے زخموں پر کچھ تو پھاہا رکھا جائے ۔اپوزیشن اور حکومت دشمن جماعتوں کے منہ کو کچھ تو لگام آئے اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے کریڈٹ میں کوئی اچھا کام ۔۔۔اور تو اور پرویز مشرف نے بھی موجودہ حکمرانوں کو نالائقی کا طعنہ دے دیا ہے ۔ موصوف کا کہنا ہے کہ حکمران نالائق اور نااہل ہیں ساڑھے چار سال ہی میں حالات کہاں سے کہاں تک پہنچا دیے ۔ہمارا نوسالہ اقتدار بے حد اچھا گزرا تھا لوڈشیڈنگ اتنی نہ تھی جتنی آج ہے، مہنگائی نہ تھی ملکی معیشت کی بھی یہ حالت نہ تھی۔ پرویز مشرف صاحب بالکل ٹھیک ہے ایسا ہی تھا۔ ظاہر ہے آپ کے دور میں ڈرون حملوں اور خودکش حملوں کی ابتداءضرور ہوئی تھی لیکن اِن میں شاید اتنی شدت نہ تھی اور آپ کو یہ بھی اچھی طرح پتہ ہو گا کہ یہ خود کش حملے کیوں اور کِس بات کے ردِعمل کے طور پر شروع ہوئے تھے اور یقناََ یہ بات بھی آپ جانتے ہی ہوں گے کہ امریکہ نے ڈرون حملے کیوں اور کِس معاہدے کے تحت شروع کیے تھے اوریہ بھی کہ امریکہ کو اب نیٹو سپلائی بند کرنے پر اتنی تکلیف کیوں ہوئی ہے ؟ اور امریکہ نیٹو سپلائی دوبارہ بحال کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی دفاعی کمیٹی کی منظور کردہ شرائط کے مطابق عمل کرنے اور انہیں قبول کرنے پر کیوں چیں بچیں ہورہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ امریکہ کو آپ کے عنایت کردہ فری لنچ کی عادت ہو چکی ہے کہ آپ نے کمالِ فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ اور نیٹو افواج کو بغیر کسی معاوضے کے سپلائی روٹ مہیا کر رکھا تھا اور امریکہ نے دس سال تک بالکل مفت اِس کے مزے لوٹے اور ”ہمارے جوتے ہمارے ہی سر کے مترادف“ ہماری ہی آزادی ،خودمختاری اور سالمیت کے درپے ہو گئے۔پہلے اُنہوں نے ایبٹ آباد والے واقعے میں ہمیں کھلے عام اور صریح دھوکہ دیا اورحد تو یہ ہے کہ اُس فوج کے جوانوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا جو پچھلے دس سال سے اُن کے شانہ بشانہ دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے تھے اور اُن کے فرنٹ لائن اتحادی تھے پھر اِس پر کوئی شرمندگی نہیں کوئی ندامت کا اِظہار نہیں کوئی معافی نہیں اور پھر اِس پر اصرار کہ سپلائی روٹ بحال کر دیا جائے ۔جناب والا!بعض اوقات کے کیے گئے فیصلے اِس طرح قوموں کے گلے پڑھ جاتے ہیں اور پھر قومیں صدیوں تک اِس کا خمیازہ بھگتتی ہیں ۔قوم ابھی تک امریکہ کے ڈومور کے تقاضوں میں پھنسی ہوئی ہے اور نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔

اللہ تعالی ٰ نے تو اِس خطہ عرض کو اپنی نعمتوں سے نوازا ہوا ہے اور اِس کے خزانوں سے یہ ارضِ وطن مالا مال ہے اور تو اور اِس کی جغرافیائی حیثیت ہی ایسی ہے کہ اگر اسے ہی کیش کرایا جائے تو ہم نہ صرف یہ کہ آسودہ حال ہوسکتے ہیں بلکہ اقوامِ عالم میں اپنی کھوئی ہوئی عزت بھی بحال کراسکتے ہیں چاہیے تو ہمیں یہ کہ ہم وہ کام کریں جو ہمارے اپنے ذاتی مفاد میں ہواب بہت ہو چکا امریکہ کی غلامی کرتے کرتے۔دراصل امریکہ وہ حلیف ہے جس کے لیے آپ ہلاک بھی ہو جائیں تو اُسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔بلکہ اُس کے”غرورِناز“ میں کچھ اضافہ ہی ہو گا اور یہی کچھ شکاگو کانفرنس کے بعد ہوا ۔ پاکستان نے نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے جب امریکہ سے پانچ ہزار ڈالر فی کنٹینرز معاوضے کا مطالبہ کیا تو اُنہیں اِس بات پر اچنبھا ہوا کہ پاکستان اُن سے پیسے مانگ رہا ہے اور وہ بھی اتنے زیادہ ۔۔۔امریکہ کے تو سان و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ پاکستان اُن کے ساتھ یوں بھی کرسکتا ہے ۔اسی لیے امریکی سینٹ میں پاکستان کے اِس مطالبے کا مضحکہ اڑایا گیا کہ پاکستان نیٹو سپلائی کی بحالی کا معاوضہ نہیں بلکہ بھتہ مانگ رہا ہے۔ اورامریکی کمینگی کی انتہا یہ ہے کہ سینٹ کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے پاکستان کی امداد میں 58فیصد کٹوتی کی سفارش بھی کی گئی ہے اور ساتھ یہ شرط بھی لگائی ہے کہ اگر پاکستان سپلائی بحال نہیں کرتا تو اِس کی امداد میں مزید کمی کی جاسکتی ہے۔

قارئین کرام! شاید آپ کے لیے یہ بات اچنبھے کی ہوکہ پاکستان کی راہداریاں اور راستے بالکل مفت فری لنچ کے طور پر استعمال کرنے والا امریکہ اپنے کنٹینرز قابل پہچانے کے لیے طالبان کو فی کنٹینر بھاری رقم اداکرتا ہے۔گویا طالبان امریکہ سے ڈالر لے کر امریکہ کو اِس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ خوراک اور اسلحے سے بھرے ہوئے کنٹینرز افغانستان میں داخل کریں اور پھر انہیں کے خلاف استعمال بھی کریں اور امریکی خود طالبان (یعنی اپنے دشمنوں) کو بھتہ دے کر گویا اِس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ یہی پیسہ (بھتہ خوری والا)طالبان واپس امریکہ کے خلاف استعمال کریں۔قارئین!یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ ایسا ہو رہا ہے اسی سے آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دونوں فریق کس قدر لا یعنی اور نا ختم ہونے والی بے مقصد جنگ لڑ رہے ہیں ۔اگرچہ امریکہ نے اپنے مفادات کی یہ جنگ لاکر ہماری دہلیز پر کھڑی کر دی ہے اور اب ہم خودکو اِس جنگ سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں مگر کمبل کی طرح یہ ہمارا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہی اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی امریکی مفادات کی یہ جنگ لڑ رہے ہیں اب واقع ہی وہ صحیح وقت آگیا ہے جب پاکستان اور امریکہ کے راستے جُدا ہو چکے ہیں اور اِس کی وجہ پاکستان نہیں بلکہ خود امریکہ بنا ہے لہذا اب ہمیں حتی الامکان اِس بات کا باقاعدہ اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ جنگ جِس میں امریکہ کے مفادات ہوں ہم سے دور ہی رہے تو بہتر ہے ۔

نیٹو سپلائی کے بند ہونے پر امریکہ کوہوش توآگئی ہے اور خود امریکہ کے اندر ہی لوگ اسے امریکہ کی اعلیٰ سطحی سفارتی ناکامی قرار دے رہے ہیں ۔ایک امریکی جریدے” نیشنل جرنل“نے اپنی ایک حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے سلسلے میں امریکہ اور نیٹو ممالک پاکستان کے سامنے بے بس ہو گئے ہیں اور یہ کشیدگی افغان جنگ کے خاتمے میں ایک بڑی رکاوت بنتی ہوئی نظر آرہی ہے اور اِس کی ذمہ داری امریکی ہٹ دھرمی پر ہی لاگو ہو رہی ہے۔امریکہ کو چاہیے تھا کہ وہ بالغِ نظری سے کام لیتے ہوئے خطہ کے متعلق مجموعی نقطہ نظر کو اپناتے نہ کہ صرف اپنے مفادات ہی کو اولیت دیتے ۔مگر امریکہ نے ایسا نہیں کیا اور آج ایک ترقی پذیر ملک پاکستان سُپرپاور امریکہ اور نیٹو کی بات ماننے کو تیار نہیں۔

بہرحال یہ بات طے ہے کہ نیٹو سپلائی کی بندی سے امریکہ بالکل مفلوج ہوکر رہ گیاہے مگر امریکہ کی اپنی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے متعلق کیا پالیسی اپناتاہے ۔سلالہ چیک پوسٹ والے واقعے پر پینٹاگون کی تحقیق مکمل ہوئے کئی ماہ گزر چکے ہیں اور اِس تحقیق میں جزوی غلطی کا مرتکب امریکہ ہی کو گردانہ گیا ہے مگر امریکہ غلطی ماننے کو پھر تیار نہیں ہے ۔ اب تو یوں محسوس ہورہا ہے کہ امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ اور گرتی ہوئی معیشت کے لیے نیٹو سپلائی کی بندی ایک اور دھکاہی ثابت ہو گی اور پاکستان کو امریکہ کی شکست کے لیے ایک اور ”دھکے “کو اور زیادہ سخت کر دینا چاہیے اور کسی کم قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔

شاباش پیپلزپارٹی قوم تمہارے ساتھ ہے۔
Anwer Parveen
About the Author: Anwer Parveen Read More Articles by Anwer Parveen: 59 Articles with 39924 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.