امام جلال الدین رومی ؒ ایک
حکایت میں لکھتے ہیں کہ ایک شکاری نے ایک چھوٹا سا پرندہ جال میں پکڑا ۔ وہ
اُسے پکڑ کر لا رہا تھا کہ پرندے کو اللہ تعالیٰ نے گویائی عطا کی اور اُس
نے شکاری سے کہا کہ اے مردِ بہادر تو نے بہت سے بھینسیں، گائے، بکرے اور
بڑے بڑے جانور شکار کر کے کھائے ہیں۔میں چھوٹا سا پرندہ تیری کیا طمانیت
کروں گا۔اگر تو مجھے آزادکرنے پر راضی ہوجائے تو میں تجھے عقل ونصیحت کی
تین باتیں بتاتا ہوں جو زندگی میں تیرے کام آئیں گی۔پہلی بات بتاﺅں گا جب
تیرے ہاتھ کی پشت پر بیٹھوں گا، دوسری بات بتاﺅں گا جب دیوار پر بیٹھوں گا
تیسری بات بتاﺅں گا جب اُونچی شاخ پر بیٹھو ں گا۔ اُس شکاری نے کہا کہ ٹھیک
ہے اور اُس پرندے کو اپنے ہاتھ کی پشت پر بٹھایا۔پرندے نے کہا زندگی میں
ناقابلِ عمل بات پر یقین مت کرنا اور اُڑ کر دیوار پر جا بیٹھا اور دوسری
بات یہ ہے کہ زندگی میں نقصان ہو جائے تو اُسے بھلا دینا اُس پر شور و غوغا
نہ کرنا اس کے بعدپرندہ اُڑ کر درخت کی اونچی شاخ پر جا بیٹھا اور کہا کہ
تیسری بات بتانے سے پہلے میں تجھے ایک خبر دینا چاہتا ہوں کہ میرے وجود میں
ایک ہیرا تھا اگر وہ تیرے ہاتھ آجاتا تو تیری نسلیں بھی دولت مند ہوجاتیں
مگر اب تو نے اُسے کھو دیا ہے۔وہ شخص شور و غوغا کرنے لگا، لوگوں کو جمع کر
لیا اور کہا کہ اس پرندے نے مجھے دھوکہ دیا ہے اور میرا سارا اثاثہ ضائع ہو
گیا۔جب کچھ دیر بعد اس کے حواس بحال ہوئے تو اُس نے پرندے سے کہا کہ کہ چلو
تیسری بات بتاﺅ تو پرندے نے جواب دیا ۔ تو نے میری پہلی دو باتوں پر بڑا
عمل کیا ہے جو میں تیسری بات بتاﺅں”نادانوں کو نصیحت نہیں کی جاتی“ یہ کہا
اور اُڑ گیا۔
امام رومی ؒ کی اسی حکایت کی روشنی میں آج پاکستان اور پوری امتِ مسلمہ کو
دیکھتے ہیں تو نادان اور نادانوں کی نادانیاں نظر آتی ہیں۔عجیب و غریب
صورتحال ہے ۔ سلاطین سے لے کر بادشاہوں تک اور فوجی حکمرانوں سے لے کر
جمہوری ڈکٹیٹروں تک مسخروں کی ایک فوج امتِ مسلمہ پر حکمرانی کر رہی
ہے۔اطاعتِ امیر کی میٹھی گولی دے کر مسلمانوں کو بے غیرتی کی نیند سونے کے
درس دیئے جارہے ہیں
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
افغانستان اور عراق پر کھلم کھلا جارحیت اور فوج کشی کر کے لاکھوں انسانوں
کو موت کے گھاٹ اُتارنے والا بھیڑیا جب امن کی فاختہ بن کر دنیا سلامتی کے
نغمے گانے کی کوشش کرتا ہے تو مرثیے اور نوحے لکھنے کو دل چاہتا ہے۔منافقت
کی یہ انتہا کہ انڈونیشیا میں آباد عیسائیوں کے نام نہاد حقوق کا مسئلہ
اُٹھتا ہے تو اقوامِ متحدہ حرکت میں آجاتی ہے اور جب کشمیر کے ایک کروڑ سے
زائد انسانوں کے حقِ خود ارادیت کی بات کی جاتی ہے تو وہاں علاقائی مصلحتیں
آڑے آجاتی ہیں اور سب سے بڑھ کر جب پاکستان اور آزادکشمیر کا سوادِ اعظم
کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا
جھانسہ دے کر وزیرستان، قبائلی علاقہ جات اور اپنے ہی مجاہد قبائلی بھائیوں
سے ایک بے مقصد جنگ میں اُلجھا دیتا ہے۔یہاں علامہ اقبال ؒ کے اس درس کو
نئے سرے سے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں! ذرا
دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ، رہروبھی تو ، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفان سے کیا
نا خدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو
وائے ناکامی ! کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا
مے بھی تو ، مینا بھی ، ساقی بھی تو ، محفل بھی تو
پاکستان کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور پاکستانیوں کا بہترین
مفاد اسی میں ہے کہ وہ عالمی تاجرانہ ذہنیت رکھنے والے ممالک کا آلہ کار
بننے کے بجائے اپنے مفاد کو سمجھے اور اُسے ترجیح دے۔اس سلسلے میں ہمیں
اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے مثبت سبق ضرور سیکھنا چاہیے کہ عالمی کھلاڑی
امریکہ اور روس اُسے ہر طرح کا لالچ دے رہے ہیں لیکن وہ اُن کے ہاتھوں
استعمال ہونے کے بجائے سب سے پہلے اپنے فائدے دیکھتا ہے اور اس پالیسی کی
انتہا یہاں تک ہے کہ وہ اپنے ازلی دشمن چین کے ساتھ بھی تجارتی مذاکرات کے
لیے اپنے دروازے کھلے رکھتا ہے۔پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور
سے گزر رہا ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم پاکستان کے تمام شہروں میں
پھیلائی جانے والی دہشت گردی اور خود کش دھماکوں سے جان چھڑانے کے لیے
امریکہ کے آلہ کار ہونے کا دھبہ اپنے ماتھے سے صاف کریں۔افواجِ پاکستان کو
ہم نے ایک امتحان میں ڈال دیا ہے اور افواجِ پاکستان ہزاروں جانوں کا
نذرانہ دے کر پاکستان کا دفاع کر رہی ہے۔ وقت نازک ہے، فیصلہ ہمارے اپنے
ہاتھوں میں ہے اور یاد رکھئے کہ جو قومیں اپنے فیصلے خود نہیں کرتیں اُن کا
فیصلہ وقت کرتا ہے اور وقت کے فیصلے بڑے بے رحم ہوتے ہیں۔ اس وقت عرب دنیا
انقلاب کی صداﺅں سے گونج رہی ہے۔ مصر میں حسنی مبارک کے انجام کے بعد اب
لیبیا، مراکش، تیونس اور سعودی عرب میں بھی بادشاہت اور شہنشاہیت کے خلاف
جمہور کی آواز بلند تر ہوتی چلی جارہی ہے۔پاکستان کے جمہوری بادشاہ وقت کی
نبض پر ہاتھ رکھیں اور عقل کا دامن پکڑیں۔ہم اس وقت گرم زمین پر پیر رکھے
خوشگوار ہواﺅں کے خواب دیکھ رہے ہیں اور ہمارا حال حسب ذیل بیان کردہ لطیفے
کی بطخ جیساہے۔
ایک مداری مجمع لگائے تماشا کر رہا تھا۔ اُس کے سامنے کھلی کڑاہی میں ایک
بطخ بڑی تیزی سے ڈانس کر رہی تھی۔ ایک سرکس کا مالک وہاں سے گزرا ۔ اُس سے
ناچنے والی بطخ دیکھی تو سوچا سرکس کے لیے ناچنے والی بطخ خریدی جائے۔ لوگ
بہت خوش ہو ں گے۔ اُس نے قیمت پوچھی تو مداری نے دس ہزار روپے مانگے۔ اُس
نے ادا کئے اور خوشی خوشی چلا گیا۔ دوسرے دن انتہائی غصے میں واپس آیا اور
مداری کا گریبان پکڑ کر کہنے لگا اوئے فراڈیئے تیری بطخ نے ناچنا بند کر
دیا ہے میرے پیسے واپس کر۔مداری نے کہا یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔ آپ سے ضرور
کوئی غلطی ہوئی ہے۔سرکس والے نے کہا میں نے سرکس میں بطخ کو کڑاہی میں
چھوڑا اُس نے ایک قدم بھی نہ اُٹھایا۔ میری بڑی بے عزتی ہوئی۔
تو مداری نے کہا جناب آپ سے غلطی ہوئی ہے”آپ نے کڑاہی کے نیچے آگ تو لگائی
نہیں بطخ کیسے ناچتی“
قارئین! اس وقت ہم پاکستان اُسی بطخ کی طرح ہیں کہ جس کو کڑاہی میں ڈال کر
اُس کے نیچے خود کش دھماکوں کی آگ لگا دی گئی ہے۔ہمارے حکمران ہوش میں
آئیں۔ |