پاکستان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا

امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں الزام لگایا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں اور پاکستان کے بارے میں امریکہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے ۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جب تک عسکریت پسندوں کی پناہ گاہیں موجودہیں ،افغانستان میں امن نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان مزیدمنظم ہوگئے ہیں اوران کے حملوں میں بھی اضافہ ہوگیاہے۔امریکی وزیر دفاع نے حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں موجود نیٹو افواج کے خلاف کارروائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپنادفاع کرنا ہماراحق ہے اورہم صاف طور پر یہ کہناچاہتے ہیں کہ ہم حقانی نیٹ ورک سے نبردآزماہونے کے لئے تیارہیں ۔ دوسری طرف امریکی افواج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بھی واشنگٹن میںایک پریس کانفرنس کے دوران ہو بہو پنیٹا کی ہی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کے شدت پسند فاٹا اورافغانستان کے کچھ علاقوں میں چھپے ہیں۔ حقانی نیٹ ورک پاکستان اور افغانستان کے لئے بڑا خطرہ ہے اور براہ راست کابل حملوں میں ملوث ہے۔

امریکہ جس طرح ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں آگ اور خون کا کھیل کھیل رہاہے، نیٹو فورسز پاکستانی پوسٹوں پر حملے کررہی ہیں، سی آئی اے کے خفیہ ایجنٹس امریکی سفارت کاروں کے روپ میں پاکستان کے کونے کونے میں دھندناتے پھرتے ہیں، بلوچستان اور خیبرپختونستان میں جس طرح سے اس کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں اور جس طرح سے وہاں اسلحہ اور دہشت گرد پہنچتا ہے ، جس طرح سے ایک سازش کے تحت پاکستان کو عالمی سطح پر دہشت گردوں کی آماجگاہ ہونے کا پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے ، اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کی بجائے پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا چاہئے تھا۔ ویسے دیکھا جائے تو امریکہ نے کب صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ 9/11کے فوراََ بعد اس نے بے صبری کا مظاہر کرتے ہوئے افغانستان پر قبضہ جما لیا ۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اتحادی بنا کر ایک سازش کے تحت اسے یہاں منتقل کردیا اور ڈرون حملوں کی بوچھاڑ سے اپنے ہی اتحادی کی سا لمیت کو پارہ پارہ کرنا شروع کردیا۔
2مئی کو اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آبادمیں نام نہاد آپریشن بھی امریکی بے صبری کی ایک اور مثال ہے۔ پاکستان جو گزشتہ دس سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی رہا ہے اور دہشت گردوں بارے معلومات کا تبادلہ کررہا ہے امریکہ نے کمال بے صبری اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس آپریشن کی اپنے اتحادی کو ہوا تک نہ لگنے دی اور باہمی اعتماد کو توڑتے ہوئے اس کی حدود میں فوجیں اتاردیں۔ یہ نام نہاد فوجی آپریشن مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی رسوائی کا باعث بنا۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی جسے امریکہ نے اپنے آلہ کار کے طورپر اس آپریشن کے لئے استعمال کیا ، جب اسے امریکی سی آئی اے سے تعلقات رکھنے اور اپنے ہی ملک میں غیرملکی آپریشن کا موجب بننے پر سزا سنائی گئی تو امریکی سٹپٹا اٹھے ہیں اور پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو ہیلی کاپٹروں کے حملے کو بھی امریکی اور نیٹو فورسز کی بے صبری کا نتیجہ قراردیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ اگر اتحادی افواج حملہ کرنے سے قبل افواج پاکستان سے رابطے میں رہتیں اور کارروائی کے مقام کی تصدیق کرلیتیں تو سلالہ چیک پوسٹوں پر افواج پاکستان کے بہت سے جری جوانوں کی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں۔ مگر جس طرح یہ واقعہ عجلت میں کیا گیا ، اس کے مقاصد کچھ اور ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی خلیج مزید گہری ہوتی چلی گئی جس کا نتیجہ ایک مسلسل ڈیڈ لاک اور نیٹو سپلائی کی بندش کی صورت میں نکلا۔ امریکہ بجائے اس واقعے پر معافی مانگتا اس نے الٹا پاکستان پر دباﺅ بڑھانا شروع کردیا۔

اسی طرح افغانستان کی سرزمین بھی مسلسل پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ بلوچستان اور فاٹا میں موجود دہشت گردی کے بہت سے نیٹ ورک کابل سے کنٹرول کئے جارہے ہیں۔ وہاں سے جدید اسلحہ اور سازوسامان اور رقم مقامی ایجنٹوں کو فراہم کی جارہی ہے۔ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد قبائلی علاقوں میں پاکستانی پوسٹوں پر حملہ کرتے ہیں اور واپس افغانستان میں پناہ لے لیتے ہیں۔ اس کی ایک تازہ مثال سلالہ چیک پوسٹ پر شدت پسندوں کے حملے کی ہے جو سرحد پار سے آئے تھے۔ عسکریت پسندوں کی تعداد 100 سے زائد تھی۔ اب تک اس طرح کے بیسیوں حملے افغان دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے اندرہوچکے ہیں۔ خاص طور پرافغان صوبے کنٹر اور نورستان ایسے دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں جو آئے روز پاکستان پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے احتجاج کے باوجود افغانستان میں موجود امریکی انہیں لگام ڈالنے میں ناکام ہیں۔ بلوچستان میں بھی ریشہ دوانیوں کا ایک وسیع سمند ر ٹھاٹھیں ماررہا ہے جس میں سی آئی اے کے مگر مچھ مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ یہاں مقامی ایجنٹوں کے ذریعے ایک نام نہاد تحریک شروع کرکے عالمی سطح پر اس کا خوب پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ کبھی ٹویٹر بریفنگ کی جارہی ہے تو کبھی پارلیمنٹ کی قرارداد لائی جارہی ہے۔ لاپتہ افراد کے معاملے کو بھی عالمی سطح پر اجاگر کرکے ” انسانی حقوق کی پامالی “کے معاملے کو خوب اچھالا جارہا ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں لاپتہ افراد کے مسئلے پر سپریم کورٹ کی ہدایت کے تحت تشکیل دیے گئے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس ج(ریٹائرڈ) اوید اقبال نے انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال کو خراب کرنے اور لوگوں کو غائب کرنے میں غیرملکی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں۔انہوں نے بتایا کیا کہ ملک میں اپنا منظم نیٹ ورک رکھنے والی یہ غیرملکی ایجنسیاں بلوچستان میں ابتری پھیلا کر پورے پاکستان کو غیرمستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت اور اس کے معدنی وسائل کے سبب اس علاقے پر ان قوتوں کی حریص نگاہیں لگی ہوئی ہیں اور وہ اپنے اس مقصد کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔

اس تناظر میں پنیٹا پر واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ کا نہیں بلکہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے ۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ امریکہ کی ہٹ دھرمیوں اور منہ زوریوں پر چپ رہنے کی بجائے اس کے اصل چہرے کو بین الاقوامی فورمز پربے نقاب کرنے کی ہمت کریںاور صرف خالی بیانات دینے کی بجائے عملی اقدامات اٹھائیں۔ اگر وہ امریکی عزائم اور مظالم کے سامنے ”صبر“ کی پالیسی اپنا ئے رکھتے ہیں تو اس کے نتائج پوری قوم کو بھگتنا پڑیں گے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے کی دوسری قوتوں خاص طور پر روس سے تعلقات کو بڑھایا جائے، بتدریج امریکی چنگل سے نجات حاصل کی جائے اور سب سے بڑھ کرخود انحصاری کی منزل حاصل کی جائے ۔ ایسے اقدامات پاکستان کے بارے میں امریکہ کے صبر کے پیمانے کوہمیشہ کے لئے چھلکنے سے روکنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وقار کو لگے گرہن کے خاتمے کا سبب ہوں گے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69489 views Columnist/Journalist.. View More