فصیح محمود کی گرفتاری کا زخم
ابھی رس ہی رہا تھا کہ قتیل صدیقی کے قتل کاسانحہ سامنے آ گیا ۔ ان دونوں
واقعات کوملا کر دیکھا جائے ملت اسلامیہ کے تئیں حکومتِ ہند کی حکمتِ عملی
سمجھ میں آتی ہے ۔ اس ظالم حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ اگر کوئی سردی زکام
کا مریض علاج کیلئے آئے تو اسے ایڈز کا انجکشن لگا دو تاکہ وہ اپنی پہلی
بیماری کو بھول جائے ۔ فصیح محمود کے معاملے میں حکومت پے در پے غلطیاں
کرتی جارہی تھی اور خود اپنے جال میں پھنستی جارہی تھی۔امت کے اندر حکومت
کے خلاف جو غم وغصہ بڑھ رہا تھا اس سے بچنے کا انتظامیہ نےیہ طریقہ نکالا
کہ ملت کی تعذیب میں اضافہ کر دیا ۔حقیقت یہی ہے کہ قتیل صدیقی کی موت
کیلئے صرف اور صرف حکومت ہندذمہ دا ر ہے ۔جو حکومت اپنی ہائی سیکیورٹی جیل
کے اندر اپنے باشندوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی اسے حکومت کرنے کوئی حق
نہیں ہے ۔در اصل ا سے حفاظتی دستہ کی ناکامی کہنا ہی غلط ہے بلکہ یہ سب تو
اس کا اپنا کیا دھرا ہے ۔
قتیل کی موت کیلئے بظاہر دو وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ممکن ہے اقبالیہ بیان
لکھوانے کی خاطر اس پر اس قدر زدوکوب کیا گیا ہو کہ وہ خواجہ یو نس کی طرح
جان بحق ہو گیا یا فصیح محمود کی جانب سے نہ صرف توجہ ہٹانے بلکہ جو لوگ اس
کی رہائی کیلئے جدو جہد کررہے ان کو ڈرانے دھمکانے کی خاطریہ سفاکانہ
کارروائی کی گئی ہو ؟حکومت مؤخر الذکر دو میں سے ایک مقصد میں کامیاب ہو
گئی ہے ۔ قتیل کی موت کے بعد لوگ فصیح کو بھول گئے لیکن یہ ایک وقتی ردعمل
ہے ۔ امت نہ ہی قتیل صدیقی کے خونِ ناحق کو بھولے گی اور نہ ہی فصیح محمود
کی گرفتاری کو فراموش کیا جائیگا۔ انتظامیہ کو جلد ہی پتہ چل جائیگا کہ وہ
جن شعلوں سے کھیل رہے ہیں ان کی تپش کس قدر تیز ہے ۔ ظلم و جبر کے خلاف جو
آندھی اٹھے گی وہ ان اونچے مکانات کوخس و خاشاک کی مانند اڑا لے جائیگی جو
اپنی بلندی کے زعم میں اکڑتے پھرتے ہیں ۔
عرصہ ٔ دراز سے حکومت ِ ہند کی یہ حکمت ِ عملی رہی ہے کہ کسی ایک علاقے کے
مسلمانوں کو دہشت گردی کے بے بنیاد مقدمات میں گرفتار کر کے ان کے توسط سے
ملک بھر کے مسلمانوں کو احساس ِ خوف میں مبتلا رکھو ان کے اندر عدم تحفظ
کااس قدر شدید احساس پیدا کردو کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور مسئلہ پر نہ غور
کریں اورنہ توجہ دیں ۔ حکومت کی جانب سے کی جانے والی ساری بے اعتنائی اور
نا انصافی اس دہشت کے تلے دب کر دم توڑ دے ۔وہ کبھی بھی احتساب و جائزہ
کرنے کا خیال اپنے دل میں نہ لائے ۔ اسی لئے ہمیشہ ہی ان علاقوں کو نشانہ
بنایا جاتا ہے جہاں مسلمان مضبوط ہوتے ہں اور جہاں سے احتجاج و مزاحمت کی
توقع ہوتی ہے ۔ اس فہرست میں کبھی ممبئی تو کبھی مالیگاوں ، کبھی حیدر
آباد تو کبھی بھٹکل اور کبھی اعظم گڑھ تو کبھی دربھنگہ کا نام جھلکنے لگتا
ہے ۔ یہ خیال غلط ہے کہ حکومت کمزور ہے اس لئے انتظامیہ میں موجود فسطائی
عناصر اس کی مرضی کےخلاف جو چاہتے ہیں کرتے پھرتے ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں
ہوتا بلکہ یہ گھناؤنا کھیل حکومت کے اشارے پر اس کی نگرانی میں کھیلا جاتا
ہے ۔
فصیح محمود کے معاملے میں سرکاری گاڑی آگے چلتی ہے اور گھوڑا پیچھے چلتا
ہے ۔فصیح محمود کی گرفتاری ۱۳ مئی کو سعودی عرب کے دیارِ غیر میں عمل میں
آتی ہے ۔۱۶ مئی کو ہندو اخبار اس خبر کو شائع کرتا ہے ۔ہندو اخبار کا
نمائندہ سبرامنیہ نے مشرقی بنگلور کے جوائنٹ پولس کمشنر بی دیانند سے رابطہ
قائم کیاجن کے زیر نگرانی چنا سوامی اسٹیڈیم کے باہر ہونے والے بم دھماکے
کی تحقیقات ہو رہی ہیں ۔ دیا نند ہندو نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ فصیح
محمود کے اس دھماکے میں ملوث ہونے کی کوئی معلومات ان کے پاس نہیں ہے ۔اسی
وقت ہندو اخبار کا ایک اور صحافی دیویش پانڈے دہلی پولس سے رابطہ کر کے یہ
معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کیا فصیح کسی معاملے میں مطلوب ہے ۔ اسے بھی
مایوسی ہوتی ہے اور دہلی پولس یہ تصدیق کرتی ہے کہ ہنوز وہ کسی معاملے میں
مطلوب نہیں ۔ وزارتِ کارجہ کا ترجمان پانڈے کو بتلاتا ہے کہ اس کے پاس فصیح
محمود کے اوپر کسی مقدمہ کی کوئی اطلاع نہیں ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے ان
سب کے باوجودفصیح غیر قانونی حراست میں ہے ۔
فصیح محمود کا تعلق چونکہ ایک بارسوخ گھرانے سے ہے ۔ اس کے پردادا کا شمار
مجاہدین آزادی میں ہوتا ہے ۔ داد ا علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجوٹ تھے والد
ڈاکٹر ہیں والدہ پرنسپل بھائی انجینئر خالہ ٹیچر اور اہلیہ بھی منیجمنٹ
گریجوٹ ہے اس لئے اس معاملے نے طول پکڑ لیا توانتظامیہ کی جانب سے ایک اور
گھٹیاچال چلی گئی ۔۱۹ مئی کو سعودی عرب کے ایک نمبرسے فصیح کی اپیی اہلیہ
سے بات کروا کر یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ گویا وہ ہنوز
سعودی میں ہے ۔حالانکہ کون نہیں جانتا کہ دنیا کے کسی بھی حصہ سے کہیں کا
بھی نمبر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔فصیح نے گھبراہٹ کے عالم میں یہ کہا کہ وہ
معصوم ہے اورجلد ہی واپس لوٹے گا ۔ اس جھوٹ کا پردہ اس وقت فاش ہو گیا جب
سعودی حکام نے واضح کر دیا کہ حکومت ہند کے ایما پر فصیح کو گرفتار کر کے
اسی دن ملک بدر کر دیا گیا تھا ۔
فصیح کی اہلیہ نکہت پروین جب دہلی پہونچ گئیں اور یہ معاملہ ذرائع ابلاغ
میں یہ بحث کا موضوع بن گیا ۔ دربھنگہ کے عوام سڑک پر نکل آئے ۔ ملت کے
زعماء اس پر احتجاج میں شامل ہوگئے انسانی حقوق کی تنظیمیں اس میں دلچسپی
لینے لگیں اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے پر غور ہونے لگا تو انتظامیہ
ایک اور بدمعاشی پر اتر آیا ۔اس غیر قانونی گرفتاری کا جواز فراہم کرنے
کیلئے اسی بنگلور پولس نے جو فصیح کے ملوث ہونے سے ایک ہفتہ قبل انکار کر
چکی تھی سی بی آئی کے سامنےایک دستاویز پیش کردی جس میں فصیح کے نام ریڈ
کارنر نوٹس جاری کرنے کی درخواست کی گئی تھی ۔ٹی اے جانسن نے انڈین
ایکسپریس میں اس بات کو ببانگِ دہل لکھا کہ مقامی مجسٹریٹ کے ذریعہ حاصل
کئے گئے وارنٹ کا مقصدایک مذموم حرکت کو جوازفراہم کرنا ہے ۔اس وارنٹ میں
فصیح پر یاسین بھٹکل کا ساتھی ، انڈین مجاہدین کا رکن اور اسٹیڈیم کے
دھماکے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ۔یہ حکومت کیلئے ڈوب مرنے کا مقام
ہے کہ ۱۳ مئی کو حراست میں لئے جانے والے شخص کے خلاف انٹرپول کا وارنٹ ۳۱
مئی کو نکلتا ہے ۔
اس سے بھی زیادہ شرم کی بات یہ ہے کہ سرکاری وکیل سپریم کورٹ میں کذب بیانی
سے کام لیتے ہوئے فصیح کا اتا پتہ معلوم ہونے سے انکار کر دیتا ہے ۔ وزارتِ
داخلہ اور خود وزیرِ داخلہ اس بات سے انکار کر دیتا ہے کہ فصیح ان کی حراست
میں ہے ۔ چدمبرم یہ کہتے ہیں وہ اب بھی سعودی عرب میں ہے ۔ کسی سرکاری
ایجنسی کی حراست میں نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے اسے
حراست میں کس نے لیا۔ اگر سعودیوں نے تو حکومت ہند اس کی رہائی کی کوشش
کرنے کے بجائے انٹر پول سے وارنٹ کیوں نکلوتی ہے ۔ کیا حکومت ِ ہند کو اپنے
شہری تک رسائی کی خاطر ریڈ کارنر نوٹس کی محتاجی ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا
کہ وزیر داخلہ کسے بے وقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں یا خود بے وقوف ہیں ؟
ریاض میں واقع ہندوستانی سفارتخانہ یہ کہہ کر تفصیل بتانے سے انکار کردیتا
ہے کہ یہ سیکیورٹی کا معاملہ ہے ہم کچھ نہیں بول سکتے ۔ وہ چدمبرم کی طرح
ساف انکار کرنے سے کیوں کتراتا ہے ؟ اور وزارت خارجہ سعودی حکومت پر جواب
دینے میں تاخیر کا بہانہ بنا کر اپنا دامن جھٹکنے کی کوشش کرتا ہے ۔
سپریم کورٹ میں ایک دو نہیں تین سنوائیاں ہو جاتی ہیں لیکن فصیح محمود کا
پتہ بتانے سے حکومت قاصر ہوتی ہے ۔عدالتِ عالیہ میں انتظامیہ کی جانب سے
بہانے بازی اور جھوٹ کے علاوہ کچھ بھی سامنے نہیں آتا۔ عوام کی امیدیں
سیاستدانوں اور انتظامیہ کے اوپر سے اٹھ کر جب عدالت سے وابستہ ہو جاتی ہیں
تومظلوم نکہت پروین کے وکیل نوشاد احمد خان کوہراساں کرنے کی مذموم حرکت
شروع ہو جاتی ہے ۔ مشتبہ افراد کے ذریعہ ان کا تعاقب کرایا جاتا ہے بلکہ
تیسری پیشی سے قبل ٹوسرکل نامی ویب سائٹ کو وہ بتلاتے ہیں کہ ایک شخص بہت
قریب سے موٹر سائیکل پر ان کا پیچھا کررہا تھا اس کی گاڑی پر پریس لکھا ہوا
تھا ۔انہوں نے جب اپنی گاڑی کو شکارپور پولس اسٹیشن کی جانب موڑا تو وہ
مشتبہ شخص فرار ہو گیا ۔نوشاد احمد نے عدالت میں اس کی شکایت کرنے اور تحفظ
طلب کرنے کی بات بھی کہی ۔
فصیح محمود کو جس معاملے میں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں کل آٹھ
لوگ پہلے ہی سے گرفتار ہیں ۔ ان میں سے ایک کفیل اختر کو کرناٹک پو لس نے ۶
مئی کو دربھنگہ سے گرفتار کیا ۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کا اس گرفتاری پر
اعتراض نہیں تھا بلکہ مقامی پولس کو اعتماد میں نہ لئے جانے کے باعث وہ
ناراض تھے ۔ ان گرفتار شدگان میں سرِ فہرست قتیل صدیقی کا نام تھا جنہیں
گزشتہ نومبر میں دہلی پولس نے گرفتار کیا تھا اور ان سات مہینوں میں
انتظامیہ ان محصورین کے خلاف عدالت میں چارج شیٹ تک داخل نہیں کر پایا ۔
قتیل اور اس کے ساتھیوں پر الزامات کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ دہلی گولی باری
ہو یا بنگلور کا اسٹیڈیم دھماکہ ،جرمن بیکری سے لیکر گنپتی مندر تک سارے
دھماکوں کیلئے انہیں ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے لیکن ثبوت کا خانہ خالی ہے
۔مسلم مجلسِ مشاورت کے صدر ظفرالاسلام کان نے بجا طور اس قتل کیلئے اے ٹی
ایس چیف راکیش ماریہ۔این آئی اے کے سربراہ سرت چندر اور وزیرداخلہ چدمبرم
کو ذاتی طور پر ذمہ دار قرار دیا ہے ۔
قتیل صدیقی کی موت کو تو انتظامیہ نے انتہا پسند و دہشت گردوں کی حرکت بتا
کر دامن جھٹک دیا لیکن اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اگریہ دہشت گرد پولس کی
حراست کے اندر بھی قتل غارتگری کر سکتے ہیں تو باہر انہیں روکنے والا کون
ہے ؟ جیلر کی برطرفی سی آئی ڈی کے ذریعہ کی جانے والی تفتیش بے معنی ہے اس
لئے کہ کل کو جیلر کی ملازمت پھر سے بحال کردی گئی تو کسی کو پتہ بھی نہیں
چلے گا بلکہ کوئی بعید نہیں کہ اس کو ترقی دے دی جائےاور سی آئی ڈی کسی
قیمت پر خود اپنے محکمہ کے خلاف کو سچ پیش نہیں کرے گی ۔ پولس کی فرقہ
پرستی اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب اے ٹی ایس نے اول تو لاش واپس کرنے سے
نکار کردیا اور پھر اس میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کیں یہاں تک کہ قتیل کے
وکیل ایم ایس خان اور منیشہ سیٹھی کو دہلی سے پونہ آ نا پڑا۔اس کے باوجود
عدم تعاون جاری رہا۔لاش کی واپسی کے سارے انتظا مات رشتہ داروں کو کرنے
پڑے۔ کیا پسماندگان کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے؟ اور اسی کا نام انسانیت
ہے؟
مغربی جمہوریت میں حزب اختلاف حکومت کی زیادتیوں کو افشا کر کے اپنی سیاسی
دوکان چمکاتی ہے لیکن ہندی جمہوریت میں اگر مظلوم مسلمان ہے تو یہ بھی نہیں
ہوتا ۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول تو کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کی
حمایت کرکے انتظامیہ کو ناراض کرنا نہیں چاہتی اس لئے کہ یسا کرنے سے ان
کےاپنے سیاسی مفادات پر آنچ آتی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک مشکل یہ
بھی ہے کہ یہاں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت فسطائیت پسند ہے اور اس کا
نشانہ مسلمان ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو اگر بے بنیاد الزامات میں پھنسایا
جائے وہ اس کی مخالفت کرنے بجائے وہ اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ ایا کرنے سے
ایک تو ان کے وہ حامی خوش ہوتے ہیں جن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و
عناد پیدا کیا گیا ہے ۔ دوسرےبی جے پی اپنے رائے دہندگا ن کو یہ کہہ کر
خوفزدہ کرتی ہےکہ اگرہم نے تمہاری حفاظت نہیں کو تو یہ آسیب تمہیں نگل
جائیگا ۔بی جے پی ان بیجا الزامات سے اپنے مخالفین کا بھی منہ بند کر دیتی
ہے اور یہ جا نتے ہوئے بھی کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے انہیں اپنے حق میں
ایک دلیلِ روشن کے طور پر استعمال کرتی پھرتی ہے ۔ ڈاکٹر سید قاسم رسول نے
ایک پریس کانفرنس میں قتیل صدیقی کے قتل پر اپنے غم وغصہ کا اظہار مظفر
وارثی کے اس شعر کی مصداق ہے ؎
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
الیاس صاحب نے فرمایاحکومت مسلمانوں کو مدافعت میں رکھنے کی خاطر یہ سب
کررہی ہے ۔اگر حکومت چاہے تو وہ اسے روک سکتی ہے ۔انہوں امت سے مطالبہ کیا
کہ وہ کانگریس کی قیادت میں چلنے والی متحدہ ترقی پسند محاذ کی مرکزی حکومت
کے خلاف تحریک عدم تعاون پیش کریں لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے
کیا ہوگا ؟ کیایہ کسی جماعت و محاذ کا مسئلہ ہے یانظام کا نقص ہے ۔ اس لئے
کہ جو بھی پارٹی اقتدار میں آتی ہے اس معاملہ کم و بیش یکساں رویہ اختیار
کرتی ہے ۔ ہندوستان میں فی الحال ترقی پذیر محاذ کا متبادل جمہوری محاذ ہے
۔کیا اس کے آنے سے یہ سلسلہ رک جائیگا ؟ اگر نہیں تو ان جماعتوں کو ادلنے
بدلنے کے بجائے اس نظام باطل کو صالح نظام سے تبدیل کرنے کے متبادل پر غور
کرنا چاہئے ۔ عدم اعتماد اس نظام کے خلاف ہو تو کوئی بات بن سکتی ہے ورنہ
ہم لوگ اس نظام کے مایا جال میں کولہو کے بیل کی طرح گردش کرتے رہیں گے اور
فصیح و قتیل جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے ۔ |