کشمیریوں کا مجرم برطانیہ

برطانوی سامراجیت کی پیداوار ....مسئلہ کشمیر

ارض پاک پر وادی جنت نظیر” کشمیر “جسے بھارت نے لہو رنگ اور انسانیت کا مدفن بنادیا ہے
کشمیر میں انسانوں کے قتل عام کے لئے اقوام متحدہ اور برطانیہ اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کہ بھارت
برطانیہ اور اقوام متحدہ اپنے گناہوں کا کفارہ چاہتے ہیں تو فوری پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق
مسئلہ کشمیر حل کرائیں

کشمیر پر بھارتی جبرو تسلط نہ صرف انسانیت کی تذلیل بلکہ عالمی قوانین کی پامالی بھی ہے جس پر بھارت کے خلاف سخت عالمی اقدامات کی ضرورت ہے

برصغیر کی پاک و ہند میں تقسیم کے بعد جب مذاہب کی بنیادوں پر پاکستان و بھارت کے نام سے دو آزاد مملکتوں کا قیام عمل میں آیا تو ”انگریز سرکار “ جس نے سازشوں کے ذریعے ”لڑاؤ اور حکومت کرو “ کی پالیسی اپنا کرعرصہ دراز سے باہم شیروشکر رہنے والی مسلم و ہندو اقوام کے درمیان نفاق کا ایسا بیج بو دیا جس سے لگنے والے درخت پر آج تک پھل آرہے ہیں ۔ یہ انگریز سرکار ہی تھی جس نے مسلمانوں اور ہندوں کو آپس میں باہم دست و گریباں کیا تاکہ مسلم ہندو اتحاد ’‘انگریز حکمرانی “ کے لئے خطرات نہ پیدا کرسکے ۔ایسے میں مفاد پرست ہندوں اور کچھ مسلم غداروں نے اس کارِ خیر میں انگریز سرکار کی ”نمک حلالی “ کا جو فریضہ انجام دیا اس کی وجہ سے ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہوگئی جس کی بدولت انگریز ایک طویل عرصہ تک سونے کی اس چڑیا ” برصغیر “ پر حکمرانی کرتا رہا اور پھر جب مسلمانوں کی قربانیوں اور مسلم رہنماؤں کی شب و روز محنت کے باعث اس کے لئے عوامی سیلاب کے سامنے بند باندھنا ممکن نہ رہا تو اس نے بادل نخواستہ برصغیر کو اپنے جبری تسلط سے آزادی دیتے ہوئے ہند و پاک میں تقسیم کر کے دو آزاد مملکتوں کے وجود کو تو تسلیم کرلیا مگر ان دونوں مملکتوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے ”کشمیر “ کے نام پر ایک ایسی وجہ تنازعہ پیدا کرگیا جس کے باعث یہ دونوں ممالک ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ”رقیب “ قرار پائے ۔ یہ فرنگیوں کی سازش ہی تھی جس کی وجہ سے ”مرہٹہ راجہ “ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ دینے والے کشمیر کا سودا اس کی عوام سمیت بھارت سے کردیا ۔

یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد ”ٹریڈنگ “ تھی جس میں مال و املاک ‘ قطعہ اراضی ‘ شجر و حجر ہی نہیں بلکہ زندہ انسانوں کو بھی فروخت کیا گیا اور بھارت نے چند ”ٹکوں “ کے عوض اس انسانی ٹریڈنگ کا قبیح فعل انجام دیا مگر دنیا بھر میں انسانوں پر خریدوفروخت پر پابندیاں عائد کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں نے لاکھوں انسانوں کی اس فروخت پر مظاہرہ کیا نہ اقوام عالم کے درمیان ’‘انصاف و مساوات “ کے منشور کو قائم کرنے کے لئے عمل پیرا ” اقوام متحدہ “ نے اس قبیح تجارت پر کوئی ایکشن لیا اور یوں کشمیر لاکھوں انسانوں سمیت بھارت کی ملکیت قرار پایا مگر انسانیت کی اس تذلیل اور انسانوں کی اس خریدوفروخت کے لئے کشمیر کے غیور عوام نے عَلم جہاد بلند کر کے دنیا کو بتا دیا کہ کشمیر نہ تو فروخت کرنے والے ”مرہٹہ راجا“ کا تھا اور نہ ہی خریدنے والے بھارت کا بلکہ ”کشمیر“ کشمیریوں کا ہے اور اپنے اس حق کو عالمی سطح پر منوانے کےلئے کشمیری اپنے لہو سے جو داستان رقم کر رہے ہیں اس کی ”لازوالیت “ سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ نہ تو پاکستان کا پیدا کردہ ہے اور نہ بھارت کا بلکہ یہ ایشیاء کے امن کے خلاف برطانیہ کی ایک سازش تھی جس سے اب پوری دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہورہے ہیں ۔

اس سازش کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قیام ہند و پاک کے بعد جب برطانوی سازش کے تحت مسئلہ کشمیر نے جنم لیا اور کشمیری عوام کے تحفظ کے لئے پاکستان کے کردار کی ادائیگی کا وقت آیا تو قائد ِاعظم کے احکامات کے باوجود اس وقت کے مسلح افواج کے برطانوی سربراہ جنرل ڈگلس نے قائداعظم کے احکامات سے انحراف کرتے ہوئے برطانوی خواہشات کے بموجب مسلح افواج کو کشمیر نہیں بھیجا اور یوں کشمیر پر بھارتی افواج کا غاصبانہ قبضہ عمل میں آیا جس کےلئے بھارت سے زیادہ برطانیہ ذمہ دار ہے ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی انگریز جب برصغیر آئے اور انہوں نے دولت ‘ شوکت اور شان کے مسلم حکمرانوں کے جو جلوے دیکھیں انہوں نے انگریزوں کی آنکھوں کو چندھیا دیا اور تجارت کے نام پر برِصغیر آنے والے فرنگی اس سرزمین کے مالک بن بیٹھنے کے خواب دیکھنے لگے جس کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے اول تو وہ صلیبی جنگوں میں مسلم سربراہوں اور جذبہ ایمانی کے ہاتھوں ہونے والی شکست اور لگنے والے زخموں کو نہیں بھولے تھے اور مسلمانوں سے اپنی اس شکست اور زخموں کا بدلہ لینا چاہتے تھے دوئم وہ یہ بات جانتے تھے کہ برِصغیر کے مسلمان صنعتی ‘ معاشی ‘ اقتصادی ‘ ثقافتی اور حربی اعتبار سے جس قدر مضبوط و مستحکم ہیں اگر انہیں سازشوں کے ذریعے کمزور نہیں کیا گیا تو کل پوری دنیا ان کی تقلید پر مجبور ہوگی اور مسلمانوں کا دنیا کی امامت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا ‘ اگر ایسا ہوجاتا تو یہ صلیبیت کی شکست ہوتی اس لئے برطانیہ نے جہاں برِصغیر پر قبضہ کر کے اس خطے کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ‘ وہیں اس کی اقتصادی ‘ معاشی ‘ تجارتی اور ثقافتی بربادی کے اسباب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوں اور مسلمانوں کو بھی آپس میں اس طرح سے لڑایا کہ اس خطے کی محبت و اُخوت کی ثقافت تباہ ہوگئی اور اس کی جگہ مذہبی جنونیت نے فروغ پایا جس سے آج پاکستان بھی نبرد آزما ہے اور بھارت بھی اسی کا شکار ہے ۔اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ جب فرنگی مسلمانوں کی قوت ایمانی اور جذبہ شہادت کے زریعے چلائی جانے والی تحریک آزادی کے ہاتھوں برِصغیر کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوئے تو انہوں نے اس خطے کو مذہب کی بنیاد پر دو ٹکڑوں میں بانٹنے کی سازش کی تاکہ برِ صغیر کے مسلمانوں کی قوت کو توڑا جاسکے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک آزادی مکمل طور پر مسلمانوں کی جدوجہد پر مشتمل تھی اس میں ہندوں کا کوئی کردار نہیں تھا چونکہ فرنگی دور میں ہندوں کو اعلیٰ مراعات اور مراتب حاصل تھے لہٰذا انہیں فرنگیوں سے نجات کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی مگر جب مسلمانوں کی جانب سے تحریک آزادی زور پکڑتی چلی گئی اور فرنگی برِصغیر کو آزاد کرنے پر مجبور ہوئے تو برطانیہ کی ایما پر ایک سازش کے تحت ہندوں کو بھی اس جدوجہد میں شامل کرایا گیا ۔ہندوں س کی شمولیت کا مقصد انگریز سے آزادی کا حصول نہیں بلکہ آزاد ہونے والے خطے کو مکمل طور پر مسلمانوں کے حوالے کئے جانے سے اختلاف کرتے ہوئے اس خطے کو دو حصوں میں منقسم کرانا تھا اور یہی برطانیہ کا وہ حربہ تھا جس کے تحت پہلے برصغیر پاکستان و بھارت کے نام سے دو حصوں میں منقسم ہوا اور پھر اس کے بعد برطانیہ و بھارت کی سازشوں سے پاکستان کو مزید دو ٹکڑوں میں منقسم کر کے بنگلہ دیش کا وجود عمل میں لایا گیا کیونکہ برطانیہ نہیں چاہتا تھا کہ برصغیر میں کوئی ایسی مستحکم مسلم ریاست قائم ہو جو ایک بار پھر صلیبیوں کےلئے خطرات کا پیش خیمہ بن سکے جبکہ اس حقیقت سے بھی برطانوی مکمل طور پر واقف تھے کہ سازش کے ذریعے برصغیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے اور یہاں کے مسلمانوں کو ایک جانب” ننھی منی“اور ”کمزور و ناتواں “ مسلم مملکت دینے جبکہ ساتھ میں ایک وسیع و عریض ہندو پڑوسی دینے اور بھارت میں موجود مسلمانوں کا قتل عام کرانے کے باوجود بھی برطانیہ کو یہ خدشہ تھا کہ مستقبل میں کہیں پاکستان و بھارت کے درمیان دوستی کی فضا نہ پروان چڑھ جائے جو اس خطے کی اقتصادی خوشحالی کے ذریعے مسلمانوں کو ایک بار پھر وہ ”قوت پرواز“ عطا کرسکتی تھی کہ وہ دنیا کے” امام و رہبر“ بن جاتے ۔ اسلئے برطانیہ نے دونوں ممالک کے درمیان ”کشمیر “ کا مسئلہ پیدا کر کے ہمیشہ کے لئے دونوں ممالک کی دوستی کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کردی جو آج تک قائم ہے مگر اس سارے قضیئے میں سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کا ہوا جےسے ہاتھیوں کی جنگ میں گنے کا کھیت برباد ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح برطانیہ کی مسلم دشمنی اور پاکستان و بھارت مخاصمت نے کشمیر کی جنت نظیر وادی کو اُمیدوں کا مدفن بنادیا گو کہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے روز اول سے ہی ظلم و جبر کے جو پہاڑ توڑے گئے ان کی دنیا میں کہیں نظیر نہیں ملتی مگر جیسے جیسے کشمیر میں حریت پسندی کی لہر بڑھتی گئی ویسے ویسے بھارتی مظالم میں بھی شدت آتی گئی اور 1989 سے آج یعنی 2009ءتک کشمیر میں روا رکھے جانے والے بھارتی مظالم کے اعدادوشمار انسانیت کی تذلیل اور حیوانیت کے عروج کی جو گواہی دے رہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں ان 20 برسوں میں جہاں دنیا بھر میں پیداوار‘ترقی اور روز گار کے مسائل حل کرنے کی اسکیموں پر عمل ہوا‘حکمت عملیاں وضع کی جاتی رہیں وہاں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم رہا آج صورتحال یہ ہے کہ روزگار کی کوئی حالت ہے نہ پیداوار کی ‘ پوراعلاقہ مالی اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوچکی ہے یا معذوری کا شکار ہے‘ یا پھر لاپتہ ہوچکی ہے .... گھروں‘املاک اور کاروبار کے مراکز کو تباہ کر کے خانگی زندگی کو بری طرح متاثر کردیا گیا ہے ۔

سری نگر سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجی مردوں کو مویشیوں کی طرح ہانک کر بیگار کے لیے لے جاتے ہیں اور بعد میں ان کے گھروں میں گھس کر عورتوں کی آبروریزی معمول کی بات بن چکی ہے جبکہ بھارتی درندہ صفت افواج کے ہاتھوں 5 سال کی معصوم بچی سے لے کر 70 سال کی بزرگ خواتین بھی محفوظ نہیں ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں روزانہ 8 افراد شہید 15 زخمی‘1.38 مکان خاکستر‘ایک سے زائد خواتین بیوہ‘ایک کا دامن تار تار اور 4 بچے یتیم ہوتے ہیں تاہم مقبوضہ کشمیر میں موجود آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم بھی کشمیروں کے جذبہ حریت کو ماند نہیں کرسکے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2008ءکے اختتام پر مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک نے 20 سال پورے کرلیئے ۔جنوری 1989ءسے لے کر دسمبر 2008ءکے دوران بھارتی فورسز نے 92685 کشمیریوں کو شہید کیا۔بھارتی فوج کی حراست میں 6949 افراد شہید ہوگئے بھارتی فوج نے اس دوران 115877افراد کو گرفتار کیا۔105665 گھروں اور عمارتوں کے ڈھانچے تباہ کردیئے گئے۔ان 20 سالوں میں 22675 عورتیں بیوہ ہوگئیں۔ 107218 بچے یتیم ہوگئے جبکہ 9844 خواتین کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر میں جاری اس انسانیت کے قتل عام کا ذمہ دار کون ہے ”بھارت“ جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کےا ہوا ہے اور آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے کشمیر کے نہتے عوام کو کچل رہا ہے یا” برطانیہ“ جس نے مسلم دشمنی میں کشمیر کو پاکستان و بھارت کے درمیان تنازعہ بنانے کی سازش کرتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اس کے نتائج کشمیریوں پر کس طرح منتج ہوں گے یا کہ پھر” اقوام متحدہ“ جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیریوں کو ” حق خودارادیت“ دینے اور” استصواب رائے“ کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کی قرادار پاس کرنے کے باوجود اس قراداد پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہی ۔

آج جہاں ایک جانب برطانیہ سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر کےلئے کشمیری عوام سے معافی کا خواستگار ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون بھی مسئلہ کشمیر کے حل کو ضروری قرار دے رہے ہیں جو یقینا خوش آئند سہی کہ اس سے مستقبل قریب میں کشمیریوں کی جدوجہد کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے آثار ”وا“ ہونے شروع ہوگئے ہیں مگر مسئلہ کشمیر کے پیدا ہونے سے آج تک بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل تک اس خطے میں جتنی بھی خونریزی ‘ غارت گری ‘ تشدد‘ بد امنی اور انسانی حقوق کی پامالی ہوئی یا” ہوگی“۔ اس کےلئے اقوام متحدہ اور برطانیہ اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کہ بھارت

لہٰذا برطانیہ کو اپنے پیدا کردہ اس مسئلے کے پر امن حل کی جانب فوری طور پر پیشرفت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراداد کے مطابق کشمیریوں کے استصواب رائے کے ذریعے انہیں حق خود ارادیت دلانا ہوگا اور اقوام متحدہ کو بھارت سے اپنی قراداد کی پابندی کراتے ہوئے فوری طور پر کشمیر میں منصفانہ انتخابات کے ذریعے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا تب ہی ان کے گناہوں کا کفارہ ادا ہوسکتا ہے ۔

وگرنہ بعد از قتل پشیمانی ماسوائے” دھوکہ دہی“ کے اور کچھ بھی نہیں 
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 63 Articles with 67526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.