کشمیر۔۔۔شہ رگ یا اٹوٹ انگ۔۔۔؟

آج ٥ فروری ہے اور پاکستان میں تمام ایسی سیاسی جماعتیں جن کی سیاسی بقا کشمیر کارڈ سے وابستہ ہے ان سب کی مشترکہ کوششوں اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی بدولت یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔
تاریخ کا طالب علم ہونے کے ناتے میں یہ سمجھتا ہوں کہ کشمیر کے ایشو کو اگر تاریخی حقائق اور تقسیم کے وقت متفقہ طور پر طے شدہ فارمولے کے پس منظر میں دیکھا جائے تو کشمیر ایشو کو زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

تقسیم کے فارمولے کے تحت یہ طے ہوا تھا کہ جو ریاستیں بھارت یا پاکستان میں شامل ہونا چاہتی ہیں ان کا فیصلہ وہاں موجود ریاستی اسمبلی کرے گی۔ ریاست بہاول پور، سوات گلگت کی شمولیت کا فیصلہ وہاں کے نوابوں نے کیا اسی طرح بلوچستان کا فیصلہ کوئٹہ میونسپل کمیٹی میں سرداروں کی متفقہ رائے سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں سامنے آیا۔ جہاں تک ریاست کشمیر کا مسئلہ تھا تو وہاں کے راجہ نے پیسے لے کر یا ہندو ہونے کی وجہ سے یا کسی سازش کا حصہ بن کر، بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر تقسیم کے فارمولے کو مانا جائے تو کشمیر پر ہمارا دعویٰ درست ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اول تو قائداعظم کی سربراہی میں پاکستان مسلم لیگ جو کہ برصغیر میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی، نے اس فارمولے کو تسلیم کیا تھا۔ دوسرا یہ کہ پاکستان نے کبھی بھی کشمیر کو اپنی ریاست کا سٹیٹس نہیں دیا۔ اور کشمیر کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دیا۔ جس کی واضح مثال ریاست آزاد کشمیر کی علیحدہ مقننہ، اسمبلی اور کابینہ ہے۔ جب کہ بھارت نے نہ صرف کشمیر کو اپنی ریاست قرار دیا ہوا ہے بلکہ اسے ایک صوبے کا سٹیٹس بھی حاصل ہے، مزید برآں بھارتی لوک سبھا میں گلگت اور سوات کے لیے بھی ٦ خالی نشستیں مقرر کی گئی ہیں۔ یعنی بھارت نہ صرف کشمیر کا دعویٰ دار ہے بلکہ گلگت اور سوات کو بھی پاکستانی مقبوضہ علاقوں میں شمار کرتا ہے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان کے لیے جغرافیائی لحاظ کشمیر کی حیثیت مسلمہ ہے۔ کیونکہ پاکستانی سرزمین کو سیراب کرنے والے تقریبا تمام بڑے دریا کشمیر سے نکلتے ہیں جن پر بھارت کسی بھی وقت مکمل کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔ اگرچہ جزوی کنٹرول اب بھی اس کے پاس ہے۔ ان دریاؤں کی بدولت ہی پاکستان اپنی زرعی ضروریات پوری کرتا ہے۔ اور بھارت جب چاہے پاکستان کے زرعی سیکٹر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے(نصف سے زیادہ کامیابی وہ پہلے ہی ان دریاوں پہ ڈیم بنا کے حاصل کر چکا ہے)
چنانچہ پاکستان کو اپنی بقا کے لیے کشمیر کے ایشو کا پائیدار حل نہایت ضروری ہے۔

پاکستان نے کشمیر ایشو کو حل کے لیے اقوام متحدہ میں قراردادوں سے لے کے کارگل ایڈونچر تک تمام کوششیں کیں لیکن یہ مسئلہ جوں کا توں رہا ہے۔ اس کے لیے کشمیر کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرنے کا آپشن بھی زیر غور رہا ہے۔ لیکن بھارت اس پہ بھی راضی نہیں ہے۔

میرے ایک دوست جنکا تعلق بھارت سے ہے اور پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں، ان کے ساتھ جب اس آپشن پہ بحث ہوئی تو ان کا موقف تھا کہ پاکستان نے شروع دن سے ہی کشمیر کو آزاد حیثیت سے تسلیم کیا ہوا ہے۔ جبکہ بھارت اسکو اپنے صوبے کا درجہ دے چکا ہے۔ جسکی نمائندگی کشمیر کی ریاستی اسمبلی میں موجود پارلیمنٹیرینز کرتے ہیں۔ بھارت کشمیر کا بجٹ اپنے سالانہ وفاقی بجٹ سے طے کرتا ہے، جبکہ پاکستانی کشمیر کا بجٹ آزاد کشمیر کی اسمبلی بناتی ہے۔ سو بھارت کس لیے اپنے ہی صوبے کو آزاد حیثیت سے تسلیم کرے؟ ان کے بقول کشمیر میں سکیورٹی فورسسز کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب ١٩٩٠میں پاکستانی ایجنسیوں نے جہاد کشمیر کے نام پر پورے پاکستان سے مذہبی جماعتوں کے تعاون سے جہادی قوتوں کو پروان چڑھایا اور کشمیر میں بھارتی کیمپس اور کشمیر کی منتخب اسمبلی کے نمائندوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ سو بھارتی حکومت کو کشمیر میں فوج کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس پر پاکستانی حکومت نے، جو کہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھیلتی ہے، دنیا بھر میں واویلہ مچایا۔ اور کشمیر میں کاروائیاں کرنے والے جہادیوں کو مظلوم بنا کے پیش کیا۔ بھارتی دوست کے بقول پاکستانی حکومت نے تمام تر دعووں کے برعکس کبھی بھی ان جہادیوں کے سر سے اپنا ہاتھ نہیں اٹھایا، جس کا ثبوت مشترکہ جہاد کونسل کے چئرمین سید صلاح الدین کی کھلے بندوں لوگوں کو جہاد کی ترغیب اور مظفرآباد میں ان کے ٹریننگ کیمپس ہیں جو کبھی بھی پاکستانی ایجنسیوں کی سرپرستی سے محروم نہیں رہے ہیں۔ وہ پریس کانفرنسیں کرتے ہیں موبائل فون استمال کرتے ہیں اور کشمیر کے نام پہ چندہ اکٹھا کر کے اسلحہ خریدتے ہیں۔ جب بھارتی حکومت ان کے خلاف کوئی ایکشن لیتی ہے تو انکی مظلومیت کا ڈھندورا پیٹا جاتا ہے۔ بھارتی دوست کے بقول اگرچہ ہندووں کو بدنام کرنے کے لیے بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کی کہاوت عام ہے۔ لیکن کیا پاکستان نے ١٩٩٩ میں کارگل میں اپنی فورسسز بھیج کے بھارت کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا تھا؟ پاکستانی سرزمین کو جہادیوں یا دہشت گردوں کو استمال نہ کرنے کے دعووں کے باوجود کیا کبھی انکی حوصلہ شکنی بھی کی گئی ہے؟

دوست کے سوال سن کے میں لاجواب ہو گیا تھا اور آج جب ایک قومی اخبار میں کشمیر جہاد کونسل کے چئیرمین سید صلاح الدین کی کشمیر کے لیے مظفرآباد میں چندہ اکٹھا کرتے ہوئے تصویر دیکھی تو مجھے تمام سوالوں کا جواب مل گیا۔ آج کا اخبار اگر آپ کی نظر سے گزرے تو چند لمحوں کے لیے ضرور میرے بھارتی دوست کے سوالوں پہ غور کیجیے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو بھی سمجھ آ جائے گی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ آج ٦٢ سال گزرنے کے باوجود کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا۔ درحقیقت (عالمی سامراجی ٹولے کے پیرول پہ کام کرنے والی) پاکستان اور بھارت کے پالیسی ساز اداروں میں کچھ ایسی قوتیں موجود ہیں جو اس مسئلے کو ریشم کی گتھی کی طرح الجھائے رکھنا چاھتی ہیں تاکہ اس خطے میں کبھی پائدار امن قائم نہ ہو سکے اور یہ کہ کشمیر کے نام پہ پلنے والے اداروں کو اپنے وجود کے لیے legitimacy بھی مل سکے۔ورنہ دونوں ممالک کی عوم اس مسئلے کا پرامن اور پائیدار حل چاہتی ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ کشمیر کسی کا اٹوٹ انگ ہے یا شہ رگ۔ تمت بالخیر

میرے اس کالم سے دوستوں اور قارئین کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
naveed qamar
About the Author: naveed qamar Read More Articles by naveed qamar: 17 Articles with 16391 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.