امریکی فرمائش پاکستان کڑوا گھونٹ پیئے

ایک دھمکی یا التجااور پاکستان نیٹو سپلائی بحال کردے...
اَب یہ کیسے ممکن ہے..؟؟پاکستان ہرمعاملے میں کڑوے گھونٹ اور امریکا جوس اور شربت ہی پیتارہے...؟؟

امریکا نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار اداکرنے والے پاکستان پر ایک بار پھر دباؤ بڑھانے کی نیت سے کھلے لفظوں میں دھمکی دی ہے کہ پاکستان کڑواگھونٹ پیئے اور جس قدر جلد ممکن ہوسکے پاکستان نیٹوسپلائی بحال کردے جو مستقبل قریب میں اِس کے لئے بہتر ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہی بہتری کی باعث ہوگی ایسے میں اَب یہ اثار نظر آنے لگے ہیں کہ جیسے امریکا نے پاکستان سے دوستی کا ہاتھ کھینچناشروع کردیاہے اور اَب یہ پاکستان سے کھلی دشمنی کے لئے اپنے پر پھیلارہاہے اور دنیا کے سامنے کچھ ایسے جواز بھی پیش کرنے چاہ رہاہے کہ دنیا جان جائے کہ پاکستان کے خلاف اِس کی جارحیت کی کیا وجہ ہے ...؟

واشنگٹن سے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے یہ خبر ہے جس میں اِس نے غیر ملکی خبرراساں ادارے سے گفتگو کے دوران اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر کہاہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت کڑواگھونٹ پیتے ہوئے نیٹوسپلائی بحال کردے کیوں کہ پاکستان کی سویلین حکومت کا کڑواگھونٹ پینے اور نیٹوسپلائی کی بحالی کے عمل سے پاک امریکا بڑھتی ہوئی کشیدہ صورتِ حال ختم ہوگی اور اِسی کے ساتھ ہی اگلے ہی لمحے اِس امریکی اہلکارنے انتہائی معنی خیز لہجے میں پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ بصورتِ دیگر امریکی اپنی حکومت سے پاکستان کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنے پر زور دیں گے اِس کا کہناتھاکہ امریکا افغانستان سے نکلنے سے پہلے اور بعد میںخطے میں طویل مدتی مفادات جیسے اِس خطے سے وابستہ دوسرے ممالک کی جوہری صلاحتوں کو جاننااور انسداد دہشت گردی سمیت افغانستان میں مصالحتی کوششوں کا خواہشمندہے ۔

جبکہ اِ س پس منظر میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا اگر دیدہ ور ہے اور اِس کی 26نومبر 2011کی شب مہمند ایجنسی میںپیش آنے والے سانحہ کے بعد آنکھیں کھلی ہوئیں ہیں اور اگریہ بندنہیں ہوئیں ہیں تو اِسے یہ ضرور پتہ ہوناچاہئے کہ پاکستان کے اقدامات یکدم درست ہیں اور یہ حق پر ہے ...اِسے یہی کچھ بہت پہلے ہی کرلیناچاہئے تھا جب دس گیارہ سالوں سے امریکی اور نیٹوافواج افغانستان سے پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں سے معصوم شہریوں کوماررہے تھے چلوجب بھی پاکستان کو احساس ہوااور اِس نے اپنی خود مختاری اور سا لمیت کا احساس کرتے ہوئے نیٹو سپلائی بند کردی تاکہ امریکیوں اور اتحادیوں کو پتہ چلے کے پاکستان کا اِ ن کی جنگ میں کیااور کتنا اہم مقام ہے...؟ اور اَب ہمیں اِس بات کا بھی پورا یقین ہے کہ پاکستان کے اِس اقدام سے امریکا کو ضرور معلوم ہوگیاہوگا کہ پاکستان کا اِس کی جنگ میں کتنااہم مقام ہے یہ اور بات ہے کہ امریکی اور اِس کے اتحادی اِس بات کو تسلیم کرنے سے کنجوسی کا مظاہر ہ کرتے رہے ہیں اور کررہے ہیںیہاں یہ امر قابل توجہ ہے کہ جنگ تو امریکا کی ہے اور امریکا ہمیں ہی بار بار دھمکیاں دیتارہتاہے کہ پاکستان ہی ہر بار کڑواگھونٹ پیئے ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنگ تو امریکا کی ہے اور کڑوے گھونٹ پاکستان ہی کیوںپیتارہے...؟؟مگر اَب یہ کیسے ممکن ہے ...؟کہ پاکستان ہر معاملے میں تو کڑوے گھونٹ اور افغانستان میں اپنی موت کا سامان کرنے والا ا مریکا پاکستان کو اپنی جنگ میں جھونک کر ہر لمحہ جوس اور شربت ہی پیتارہے۔

دنیاکی مشہور کہاوت ہے کہ” مرکر بھی وہی جیتے ہیں جو جینے کے قابل ہوں“مگر آج یہ حقیقت ہے کہ سانحہ نائن الیون کے بعد انتقام کی آگ میں بھسم ہونے والا امریکا اپنے اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان میں آکر مررہا ہے آج اِس میںاتنی بھی سکت باقی نہیں رہی ہے کہ یہ مرکر بھی جینے کے قابل رہے اَب اِسے یہ بات اچھی طرح تسلیم کرلینی چاہئے کہ افغانستان کی سرزمین دنیا کی سُپر طاقتوں کے لئے موت کی ایک ایسی وادی ثابت ہورہی ہے جسے فتح کرنے کی نیت سے آنے والی سُپر طاقتیں اپنے وجود کا شیرازہ بکھیر دیتی ہیں آج جس کی ایک مثال روس کی شکل میں موجود ہے۔

سانحہ نائن الیون کے بعد افغانستان میں بزورِ طاقت گھسنے اور اِس پر اپنا قبضہ جمانے اور اِسے اپنے زیرتسلط رکھنے کے بعد جنوبی ایشیاءکے ایٹمی ممالک بالخصوص چین اورپاکستان اور مستقبل قریب میں ایٹمی طاقت کا اعلان کرنے والے ملک ایران کی ماٹیرنگ کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کرنے والے امریکا کو اَب شدت سے اِس بات کا احساس ہونے لگاہے کہ سانحہ نائن الیون کی انتقام کی آگ میں افغانستان میں گھسنے کا اِس کا جذباتی فیصلہ آج اِس کی پسپائی اور ندامت کا باعث بنتاجارہاہے جِسے سوچ سوچ کر یہ پریشان ہورہاہے اور دس گیارہ سالوں میں نیٹو افواج کے ہمراہ یہاں اپنا بارود پھونک ڈالنے کے بعد بھی اِسے وہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوسکی ہیں جن کاخواب لے کریہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہواتھا۔

اگرچہ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس کی اِس جنگ میں امریکا اور اِس کے یورپی اتحادیوں کا اتنا نقصان نہیں ہواہے جتنا معاشی ، سیاسی ، اخلاقی اور دیگر لحاظ سے اِس کی جنگ میں فرنٹ لائن کا کردار اداکرنے والے ملک پاکستان کا ہواہے مگر اِس کے باوجودبھی امریکا اور اِس کا ہم پلہ اور ہم نوالہ برطانیہ ہے کہ جو اِس بات کو تسلیم کئے بغیر پاکستان پر دباو ¿ ڈالئے ہوئے ہے کہ پاکستان امریکااور برطانیہ سمیت نیٹوافواج کے خطے میں ہمارے طویل مدتی مفادات جیسے جوہری صلاحیت، انسداد دہشت گردی اور افغانستان میں مصالحتی کوششیں شامل ہیں اِن کی تکمیل تک ہم سے ہر صورت میں اپناتعاون جاری رکھے جس کے لئے بالخصو ص امریکا پاکستان کو دھمکیاں دینے اور اِسے عبرت ناک جیسے انجام سے ڈرانے سے بھی دریغ نہیں کررہاہے جبکہ برطانیہ ہے کہ جس نے مصالحت پسندانہ رویہ اپنارکھاہے غرض کہ دونوںہی کے پاکستان اور افغانستان سے اپنے اپنے مفادات ہیں جن کے حصول کے خاطر ایک نے پاکستان کے ساتھ گرم اور دوسرے نے نرم رویہ رکھاہواہے مگر ہمارے حکمرانوں ، سیاستدانوں، عسکری قیادت اور عوام کو یہ بات اچھی طرح سے ذہن میں ضرور رکھنی چاہئے کہ امریکا، برطانیہ اور نیٹوافواج کی شکل میں شامل دیگرممالک اپنے اپنے مفادات کے لئے پاکستان کو سامنے رکھے ہوئے ہیں اور اِسے قربانی کا بکرابنارہے ہیں جس میں پاکستان کے حصے میں سوائے پچھتاوے اور کفِ افسوس کے کچھ بھی نہیں آرہاہے اور اَب ہمارے حکمرانوں نے اپنی سلامتی اور خودمختاری اور سا لمیت کو برقرار رکھنے کے لئے نیٹو سپلائی کی بندش کاجو راستہ اختیار کررکھا ہے یہ امریکی ، برطانوی اور نیٹوافواج میں شامل ممالک کے کسی دباؤ میں آئے بغیر اِس پر قائم رہیںاور بتادیں کہ ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے اِن کے دباؤ میں آکر ملک کی سلامتی ، خودمختاری اور سا لمیت کا سوداکرڈالاتھا

مگر اَب اِن کے ہوتے ہوئے کوئی کسی کے دباؤ میں ملکی خودمختاری، سلامتی اور یگانگت کا سودا نہیں کرے گا اور نہ ہی چندڈالروں کے عوض ملک کو مفاد پرست دوست (امریکا اور اِس کے اتحادیوں) کے ہاتھوں گروہی رکھے گا۔

چلتے چلتے ہم اپنے قارئین کو یہ بتادیناچاہیں گے کہ صدرمملکت آصف علی زرادی نے بھی دوٹوک الفاظ میں امریکا پر واضح کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میںملکی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے امریکا کوبھی اپنے اقدامات میں پاکستانی عوام کے جذبات سامنے رکھنا ہوںگے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوںنے یہ بھی کہہ دیاہے کہ پاک امریکا تعلقات پارلیمانی سفارشات کے تحت ہی آگے بڑھیں گے اَب صدر کے اِن خیالات کے بعد قوم کا اپنے حکمرانوں پر اعتماد بحال ہوناشروع ہوگیاہے جبکہ یہ اور بات ہوگی کہ بعد میں ہمارے حکمران امریکی یا اِس کے اتحادیوں کے ناجائز دباؤ میں آکر اپنے جائز مطالبے سے پیچھے ہٹ جائیں ۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971262 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.