پاکستان میں سیاست صحافت کے سائے
میں پنپتی رہی ہے اور سیاست نے ہمیشہ صحافت کو ضیافت کے ذریعے ہی پچھڑا ہے۔
رپورٹر ہو یا تجزیہ نگار اکثر شاہی خانوں کی محفل میں ضیافت کے مزے لوٹتے
نظر آتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنا امیج بنا کر بھاری بھر کم مراعات
حاصل کرلیتا ہے تو کوئی ادنی سی شئے پر اکتفا کرلیتا ہے خیر معاملہ تو
دونوں کا ایک جیسا ہی نظر آتا ہے ، دور حاضر میں کئی صحافی ایسے بھی نظر
آتے ہیں جن کا کبھی بھی صحافت سے تعلق نہ رہا ہو لیکن اپنے آپ کو بہت قد
آور صحافی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اس شعبہ میں جس قدر لوٹ مار
، خواہش نفس پورا کرنے میں یہ لوگ کسی بھی حد تک نکل جاتے ہیں، اکثر ایسے
صحافی اینکر نظر آئیں گے جن کا حقیقت میں شعبہ طب و جراحی سے رہا ہے یا پھر
کسی اور شعبہ سے مگر نہ جانے کس طرح اور کیونکر وہ اس شعبہ میں نہ صرف داخل
ہوئے بلکہ اعلیٰ عہدﺅں پر فائز ہوکر اپنی حجت پوری کرواتے نظر آتے ہیں کچھ
ایسے بھی ہیں جن کا پرنٹ میڈیا سے تعلق رہا ہے مگر الیکٹرونک میڈیا میں
داخل ہوکر اپنی مراعات کے خاطر حقیقت کو توڑ موڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ
دوسری جانب سے بھاری اعانت حاصل ہوسکے۔ ان میں کچھ خفیہ ایجنسیوں کے آلہ
کار بن جاتے ہیں تو کچھ سیاستدانوں کی غلامی کا پٹا پہنے میں فخر محسوس
کرتے ہیں اور کچھ بیرون ملک کا حصہ بن کر انہیں معلومات فراہم کرتے ہیں ۔
موجودہ دور حکومت میں جمہوریت کا جس قدر جنازہ نکالا گیا شائد ہی پاکستان
کی تاریخ میں اس قدر تاریک جمہوری حکومت گزری ہو ۔ جمہوری حکومت عامی حکومت
کہلاتی ہے جو عوام الناس کے ووٹوں سے منتخب ہوکر ریاست کے نظام کو سنبھالتی
ہے جس کا اولین مقصد عوام الناس کو بنیادی حقوق سے مالا مال کرنا اور ریاست
کی سلامتی کو اولین بنیادوں پر ترجیح دینا ہوتا ہے لیکن بد قسمتی سے
پاکستان میں کئی دہائیوں سے منتخب ہونے والے ممبران نے اپنی خواہشات کی
تکمیل کیلئے جمہوری راستہ اپنایا۔ ایک عام شہری کبھی بھی عوامی ووٹوں سے
منتخب نہیں ہوسکتا کیونکہ نظام کو اس طرح موڑ کر رکھ دیا ہے کہ مورثی
سیاستدانوں نے اس نظام کو اپنے شکنجے میں مضبوطی سے تھاما ہوا ہے ، ریاست
پاکستان مین ہر شعبہ میں بد نیتی کا نظام روج پر قائم ہے جہاں عدلیہ ہو یا
انتظامیہ سب کے سب بے سود نظر آتے ہیں گویا پاکستان کے خذانے کی لوٹ مار
میں ہر بڑا نوکر شاہی طبقہ بھی نظر آئے گا۔ لکھنے والے اور پروگرام کرنے
والوں نے بھی ان ہی کی راہ اختیار کرلی ہے اور اپنے بھاﺅ کھول لیئے ہیں
جہاں مناسب معاملات طے ہوجاتے ہیں ون کیلئے ان کے کان اور زبان ساکت ہوجاتی
ہے البتہ اچھے کلمات جاری رہتے ہیں ۔ اب تو صحافی صرف غریب غرباءپر تنقید
یا حملہ کرتا نظر آتا ہے مگر بڑے مگر مچھ کے سامنے بھیگی بلی بنکر قصیدے
گاتے نظر آتے ہیں ۔ ریاست پاکستان میں موجودہ سیاسی ڈھانچہ تمام تر ناپید
ہوچکا ہے کیونکہ جب تلگ الیکشن کے نظام کو جدید کمپیوٹرائز نہ کیا جائے اور
اس کے ووٹنگ نظام میں اسکینگ کا عمل رائج نہ کیا جائے اُس وقت تک صحیح اور
سچی ووٹنگ ممکن نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ عوام کے خئیر خواہ سیاستدان ایوان میں
بل کیوں نہیں پیش کرتے کہ آئیندہ الیکشن کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے
اسکینگ کے عمل سے ووٹر کو گزارا جائیگا، اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی
اکثریت ہے اور وہ اپنے حمایتوں کے ذریعے یہ بل بھی پاس کرسکتے ہیں ۔ دوسرا
عمل انتظامیہ اور عدلیہ کی درستتگی کا ہے جس میں انتظامیہ یعنی پولیس میں
رشوت کا مکمل خاتمہ ممکن بنایا جائے اور ہر تھانے کو نیٹ ورکنگ کے ذریعے
ایک دوسرے تھانے سے منسلک کردیا جائے۔ تمام دستاویزات کمپیوٹر کے ذریعے
استعمال میں لائی جائیں اور سٹی عدالت سے لیکر ہائی کورٹ تک پیش کار ہوں یا
کلرکس یا پھر جج ان سب کو رشوت سے پاک کرکے سرکاری مناسب فیس کا سلسلہ رکھا
جائے تاکہ بار بار کی رشوت اور تاریخ پر تاریخ کی مد میں رقم لوٹنے کا عمل
ختم ہوسکے۔ پاکستان کے قد آور صحافی اینکرز اور کالم کار نے اپنی پیشہ
ورانہ خدمات میں کہیں نہ کہیں کمی ضرور رکھی ہے اسی بابت ان کی کسی بھی بات
کا اثر نظر نہیں آتا۔۔۔پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا اکثر اخبارات و
چینلز کے ملازمین اپنی تنخوانوں کیلئے پریشان نظر آتے ہیں کسی کو دو ما گزر
گئے ہیں تو کسی کو چار ماہ لیکن نہ صحافتی تنظیموں نے شدید ردعمل دکھای اور
نہ پیمرا نے کوئی الیکشن لیا۔ آخر یہ ملازمین کب تک صبر کریں اسی بابت کئی
ملازمین دوسرا راستہ اپنانے پر مجبور ہوگئے ہیں مگر وہ ملازمین جو بھاری
رقم لیتے ہیں وہ مالکوں کی خوش آمدیدی کرتے تھکتے نہیں۔میڈیا ایک اہم ترین
شعبہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ آج کے جدید دور میں ملکوں میں حکومتیں میڈیا کے
ذریعے ہی بن رہی ہیں لیکن اگر پاکستان مین میڈیا اپنی اچھی ساکھ بنالیں تو
یقینا پاکستان کی ریاست بھی مثالی بن کر ثابت ہوگی اس کیلئے ضیافت کا عمل
رد کرنا ہونا اور جب میڈیا خود بلیک میلنگ سے باز آئی تو تمام ادارے بھی اس
کی سچائی اور ایمانداری کے خوف سے سدھرنے لگ جائیں گے اور پھر کوئی بھی
تھانہ فروخت نہیں ہوگا انصاف آسان اور سستا مہیا ہوجائیگا ۔ ۔۔۔!!
میں دیکھتا ہوں خواب ہر شب
نئی امید لیئے اٹھتا ہوں ہر صبح
منظر پھر بھی وہی ہوتے ہیں
خطوط زندگی جو نہ بدلی میری
پھر بھی کہتا ہوں میں بار بار
مایوسی کفر ہے بیدار ہونے تک |