(۱خاک و خون (قسط

یہ سچی داستان ہےایک ایسے انسان کی جو اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے۔ وہ نوجوانی میں ہی شہادت کے اعلی مرتبہ پر فاءز ہو گیا۔ خاک و خون نامی یہ آپ بیتی ان کےافغانستان سفر کے بارے میں ہے۔ انتہائی چشم کشا اور حقاءق پر مبنی یہ داستان جسے آپ پڑھ کر انتہاءی محظوظ ہوں گے۔ اس انتہائی دلچسپ داستان کے بارے میں حضرت مولنا اسلم شیخوپوری شہید ؒ کی یہ تقریط ملاحظہ کریں۔ اور پھر قسط وار اس داستان کو آپ کے لیے وقتا فوقتا پیش کرتا رہوں گا۔ انشاء اللہ

تقریط
آپ بیتی ہے ایک مجاہد کی اور حکم ملا ہے ایک مجاور کو کہ اس پر تقریظ لکھے۔ سرگذشت ہے تپتے صحرائوں، سلگتے ریگستانوں اور فلک بوس پہاڑوں کو عبور کرکے آنے والے ایک جاں نثار کی اور اس کا تعارف لکھنے کیلئے کہا جارہا ہے گوشۂ عافیت میں بیٹھے ہوئے ایک عافیت کوش انسان کو، جس کے نامۂ
عمل میں نہ مجاہدے ہیں نہ قربانیاں!

افغانستان کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے صحرائوں، ریگستانوں ،پہاڑوں ،ندی نالوں، گلی کوچوں، شہروں اور دیہاتوں، جیل خانوں اور میدانوں میں ظلم وستم کی ایسی ہزاروں داستانیں پھیلی ہوئی ہیں، جنہیں نہ کسی راوی نے بیان کیا اور نہ ہی کسی قلم نے رقم کیا. ہاں! ایک دن ایسا ضرور آئے گاجب پتھر بول پڑیں گے، دیواروں کو زبان مل جائے گی، ذرّوں کا نطق ’’نطق والوں‘‘ کو حیرت زدہ کردے گا، زبانِ خنجر ’’اہلِ زبان‘‘ کے خلاف گواہی دے گی، اس دن ’’خاک و خون‘‘ مجرموں کے خلاف فردِ جرم کے طور پر پیش ہوں گے. لیکن آئیے! ان ہزاروں داستانوں کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے مولانامحمد مقصود احمد صاحب زید مجدہ کے قلم سے اڑنے والی خاک اور ٹپکنے والے خون کا نظارہ کرتے جایئے کہ اس کا نظارہ اور مطالعہ ’’خاک نشینوں‘‘ کی ’’فلک نشینی‘‘ کی گواہی دیتا ہے اور ٹھنڈے خون میں گرمی پید اکردیتا ہے. واللہ! وہ واقعی فلک نشین ہیں جن کے جسم اللہ کے دین کیلئے تپتے صحرائوں میں جھلس گئے، جن کے اعضائ سلگتے ریگستانوں میں بکھر گئے، جن کے خون فلک بوس پہاڑوں کے رخساروں کا غازہ بن گئے.
خدا رحمت کندآں عاشقانِ پاک طینت را
محتاجِ دعا ﴿مولانا﴾محمد اسلم شیخوپوری﴿مدظلہ﴾
۹ محرم الحرام ۳۲۴۱ھ
نام داستان : خاک و خون
تحریر : محمد مقصود احمد ( شہید)

وہ ۷محرم الحرام ۸۱۴۱ ھ کا دن تھا، جب پاکستان کے تقریباً سبھی مدارس میں گہما گہمی مچی ہوئی تھی۔ ہر طرف خوشی کاسماں تھا۔ جبکہ بیشتر طلبہ اپنا اپنا مختصر سارختِ سفر باندھے افغانستان جانے کی تیاریوں میں مگن تھے۔ دراصل گزشتہ چند دنوں سے امارت اسلامیہ افغانستان میں اپنے سرفروش طالبان بھائیوں کی شمال میں پے در پے فتوحات سے پاکستانی مدارس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور پھر ان حالات میں جب امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی طرف سے پاکستانی طلبہ کے لئے محاذ میں شرکت کا فرمان جاری ہوا تو بے شمار طلبہ امیر المؤمنین کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے میدانِ کارزار کا رُخ کرنے لگے۔ تعلیمی سال کے دوران پڑھائی چھوڑ کر فریضہ جہاد کی ادائیگی کیلئے محاذ کا رخ کرنے والے طلبہ کو ان کے ساتھی بادیدۂ نم رخصت کررہے تھے کہ معلوم نہیں آج کے بعد پھر کبھی ملاقات ہوسکے گی یا نہیں؟ ہمارے مدرسہ جامعہ دارالعلوم کراچی کے دیگر طلبہ کے ہمراہ ہماری جماعت کے بھی چار ساتھی کراچی کے محمد اشتیاق، چترال کے محمد یعقوب، بٹگرام کے سعید اللہ اور سوات کے ضیائ الدین جانے والوں میں شامل تھے۔

ایک طرف مدرسہ کے ساتھی افغانستان جانے کی تیاری کررہے تھے، دوسری طرف میں اس شش و پنج میں تھا کہ آیا افغانستان میں شرعی جہاد ہے بھی یا صرف تعصب و مفادات کی جنگ ؟. کیونکہ اگرچہ ایک عرصہ سے مختلف لوگوں سے طالبان کی تعریفیں اور ان کے کارناموں کے بارے میں سن کر میں بھی ان کا معتقد ہوچکا تھا، لیکن ذہن میں ایک خلش سی باقی تھی کہ چونکہ طالبان کے مقابلے میں بھی اپنے وقت کے نامور مجاہدین ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جنگ بھی عالمی سیاسی طاقتوں کی اسلام کے خلاف سازشوں کا حصہ ہو۔ لہٰذا مجھے جب ان دوستوں کا ارادہ معلوم ہوا تو اشتیاق بھائی سے کافی بحث بھی کی کہ آپ لوگوں کا اس جنگ میں شریک ہونا مناسب نہیں. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے ایسی باتیں کیں تو اشتیاق بھائی ناراض ہوگئے اور طالبان کی حمایت میںدلائل دینے لگے۔ لیکن میں اس وقت ان کا مذاق اڑاتا رہا اور انہیں خوش فہمی اور کم فہمی کا شکار سمجھ کر اپنے موقف پر ڈٹارہا۔اس دن میرے اور ان کے درمیان جو گرما گرم بحث ہوئی، آج بھی مجھے اس کا افسوس ہے اور شاید میں اسے کبھی نہ بھلا سکوں۔

آخر کار وہ وقت آن پہنچا ،جب ہمارے یہ ساتھی بعد از نماز ظہر مدرسہ سے رخصت ہونے لگے۔ رخصت ہونے سے پہلے میں نے دوسرے ساتھیوں سمیت اشتیاق بھائی سے بھی خوب معافی تلافی کی اور انہیں رخصت کردیا۔ لیکن میں بھی ان کے ساتھ چلا جائوں!. یہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا اور نہ ہی میرا ایسا کوئی خیال تھا۔ مگر خدا کی قدرت دیکھئے کہ ابھی وہ روانہ ہوئے اور اچانک میرے دل میں بھی یہ داعیہ پیدا ہوا کہ کیوں نہ میں بھی افغانستان جائوں اور وہاں جا کر بچشم خود ان حالات و واقعات کا جائزہ لوں جو مسلسل اپنی برادری کی طرف سے سنائی دے رہے تھے۔ کیا واقعی طالبان نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں شریعت نافذ کردی ہے؟ کیا حقیقتاً اس دنیا میں ایک مرتبہ پھر خلافت کا احیائ ہوچکا ہے؟ کیا افغانستان جو کچھ عرصہ پہلے تک دہشت وخوف کی علامت سمجھا جاتاتھا، اب اس کا بیشتر حصہ مثالی طور پر سراپا امن و آشتی کا گہوارہ بن چکا ہے؟ کیا اشتیاق بھائی کی باتیں حقیقت پر مبنی ہیں یا اندھی عقیدت کا مظہر ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ میرے دل میں یہ داعیہ پیدا کرنے میں سب سے زیادہ اشتیاق بھائی کی ان معصومانہ باتوں کا حصہ تھا، جو انہوں نے اس دن بحث کے دوران مجھ سے کہی تھیں۔

رات تک میرا بھی افغانستان جانے کا پختہ ارادہ ہوچکا تھا۔ چنانچہ میںنے بھی اپنا مختصر سا زاد ِ راہ لے کر تیاری مکمل کرلی۔ صبح اٹھ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے اس کا تذکرہ کیا تو تین اور ساتھی بھی میرے ہمراہ جانے کیلئے تیار ہوگئے۔ اب ہمارا قافلہ چار آدمیوں پر مشتمل تھا، جن میں محمد شاہ خالد، صفی اللہ، فیصل خورشید اور راقم الحروف شامل تھے۔ ہم چاروں نے اساتذہ کرام سے رخصت لی اور ٹیکسی میں بیٹھ کر پرانی نمائش کراچی میں واقع طالبان کی حویلی پہنچ گئے۔ جہاں ہماری طرح دوسرے مختلف مدارس کے پیچھے رہ جانے والے طلبہ بھی افغانستان جانے کیلئے تیار تھے۔ان میں اسکولز، کالجز کے طلبہ بھی شامل تھے۔

عصر کی نماز کے بعد جذبۂ جہاد سے سرشار طلبہ کا قافلہ تین بسوں کے ذریعے کراچی سے کوئٹہ کیلئے روانہ ہوا۔ رات بھر سفر کرنے کے بعد دوسرے دن صبح نو بجے ہم کوئٹہ کی طالبان حویلی﴿واقع جالوبوری﴾ میں پہنچ گئے۔ یہاں ہمیں ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا، جس کے بعد ہم بسوں میں سوار ہو کر افغانستان کیلئے روانہ ہوئے۔ طالبان کے پرچم سے سجی یہ بسیں جب کوئٹہ شہر سے گزریں تو کوئٹہ کے عوام جو شروع ہی سے طالبان کے حامی رہے ہیں،جگہ جگہ طالبان کو الوداع کہنے کیلئے کھڑے تھے۔ کوئٹہ شہر سے نکلنے کے بعد بسیں اسپین بولدک کی طرف روانہ ہوئیں جو افغانستان کا سرحدی ضلع ہے۔ راستے میں تمام طلبہ جذبۂ جہاد سے سرشار، نظمیں پڑھتے، سنتے اور جذباتی نعرے لگاتے رہے۔

تقریباً تین گھنٹے کے سفر کے بعد ہم پاک افغان بارڈر ’’چمن‘‘ پہنچ گئے، جہاں سے پانچ منٹ کے بعد پاکستان کی آخری چوکی سے گزر ہوا اور گاڑیاں سرزمین خلافت افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ جہاں ہر طرف اسلام ہی کا بول بالا تھااور شریعت کی بابرکت تعلیمات کا نورجگمگارہا تھا۔ اس مبارک سرزمین میں داخل ہوئے تو سب کے دل مچلنے لگے اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس نے آج ہمیں وہ سرزمین دکھلا دی، جو مجاہدین اسلام کی سرزمین ہے، جس کے فرزندوں نے روس جیسے سپر پاور کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے دنیا سے اپنی عظمت و جرأت کا لوہا منوالیا۔ یہ وہ مبارک خطہ ہے، جس کے غیرت مند مسلمانوں نے علمائ کرام کی زیر سرپرستی شریعت مطہرہ کے مبارک قوانین کو نافذ کرکے صدیوں بعد ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی عظیم دولت خلافت اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ ہم سبھی اپنی قسمت پر فخر کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آج ہماری گناہگار آنکھوں کو اسلام کے نورانی قوانین کی برکات کا نظارہ دکھا دیا۔ اس موقع پر سب سے خوشگوار مرحلہ اس وقت پیش آیا جب ہم نے دیکھا کہ پاکستانی بارڈر پر Well come to Pakistanلکھا ہوا تھا جبکہ افغانی بارڈر کی طالبان چوکی پر ایک پشتو جملہ تحریر تھا، جس کا مطلب تھا:
’’شریعت اسلامیہ سے منور سرزمین میں آمد پر ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔‘‘
.اور پھر افغانستان میں داخل ہوتے ہی ٹریفک سڑک کی بائیں طرف کو چھوڑ کر دائیں طرف منتقل ہوگئی۔یہ اسلامی تعلیمات کا پہلا مشاہدہ تھا۔ افغانستان کے ٹوٹے پھوٹے روڈ پر اگرچہ گاڑی میں جھٹکے انتہائی شدید تھے، لیکن اس کے باوجود سفر انتہائی پرکیف گزر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بسیں اسپین بولدک کی فوجی چھائونی میں پہنچ گئیں ،جہاں موجود طالبان نے نووارد طالبان کا بھرپور طریقے سے استقبال کیا۔ وہیں نماز ظہر پڑھی گئی۔ نماز کے بعد کھانا کھلایا گیا، جو گزشتہ رات کی روٹی اور آلو کے سالن پر مشتمل تھا۔ ابھی کھانے سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ اسپین بولدک سے قندھار جانے کے لئے گاڑیاں آپہنچیں اور ہم سب کھانے سے فارغ ہو کر ان میں سوار ہوگئے ۔

میں جس گاڑی میں جگہ ملی وہ ایک پرانے ماڈل کی بس تھی، جس کی سیٹیں نہ صرف پھٹی ہوئی بلکہ ٹوٹی ہوئی تھیں۔ مجھے ڈرائیور کے پاس رکھے لکڑی کے ایک ڈبے پر جگہ ملی اور پھر جب اگلا سفر شروع ہوا تو قدم قدم پر سب کو بے پناہ جھٹکوں نے ہلا دیا کیونکہ اسپین بولدک سے قندھار تک کی شاہراہ ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہونے کی بنائ پر پورے افغانستان میںمشہور ہے۔ عصر اور مغرب کی نمازیں راستے میں ادا کیں۔ جب بھی نماز کیلئے ہماری گاڑیاں رُکتیں تو سڑک پر سفر کرتی ہوئی دوسری گاڑیاں بھی رک جاتیں۔ ا س طرح تمام مسافر باجماعت نماز پڑھ کر آگے روانہ ہوجاتے۔

خدا خدا کرکے ۰۰۱ کلومیٹر کا یہ سفر کم و بیش پانچ گھنٹے میں طے ہوا۔ قندھار پہنچے تو رات کے دس بج رہے تھے۔ اس وقت تک قندھار میںبجلی کی سہولت نہیں تھی، چنانچہ ہر طر ف رات کا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ البتہ دکانوں کے باہر طالبان کے قانون کے مطابق ٹمٹماتے ہوئے چراغ روشن تھے، جن سے شہر میں زندگی کے کچھ آثار دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد گاڑیاں قندھار کی فوجی چھائونی میں داخل ہوگئیں۔ یہ چھائونی کابل کے بعد پورے افغانستان کی دوسرے نمبر کی بڑی چھائونی ہے، جہاں روس کے دور میں دو لاکھ آرمی رہتی تھی۔ ہمیں رات کو ٹھہرانے کے لئے جہاں انتظام کیا گیا تھا، یہ طالبان کا فوجی مہمان خانہ تھا جو گزشتہ دور میں فوجی سینما گھرکے طورپراستعمال ہوتا تھا۔

قندھار پہنچنے تک دوپہر کے مختصر سے کھانے کو کافی وقت گزر چکا تھا، جبکہ اس کے بعد زائد از ضرورت ’’ہاضم‘‘ سفر نے بھوک میں اور بھی اضافہ کردیا تھا۔ چنانچہ مہمان خانے پہنچے تو سب سے پہلے کھانے کی فکر دامن گیر ہوئی۔ دیکھا تو ایک کمرے میں دستر خوان لگا ہوا تھا اور مہمانوں کو کھانا کھلایا جارہاتھا۔ ہم وہاں پہنچے تو سب لوگ سوکھے ٹکڑے قہوے میںبھگو بھگو کر کھا رہے تھے۔ سرکاری مہمان ہونے کے لحاظ سے سرکاری مہمان خانے میں ہمیں کھانے کی جیسی امید تھی،اس لحاظ سے یہ بات ہماری لئے کسی دھماکے سے کم نہ تھی۔ مگر پھر بھی ’’مرتے کیا نہ کرتے‘‘ جہاد کے نام پر کھانے کیلئے بیٹھ ہی گئے۔ لیکن ابھی دو لقمے ہی لئے تھے کہ پھیکے قہوے نے کھانے سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیا۔
ان حالات میں ہم چاروں ساتھیوں نے طے کیا کہ باہر چل کر کسی ہوٹل سے کھانا کھاتے ہیں۔ چنانچہ اٹھے اور باہر کی طرف چل پڑے۔ اندھیری رات میں راستہ بھی صاف نظر نہیں آرہاتھا، پھر بھی جیسے تیسے چھائونی ﴿قول اردو﴾ سے باہر نکل آئے۔ اب جو کھانے کی تلاش شروع کی تو ہوٹل تو کجا. کوئی چھوٹی سی دکان بھی نہ کھلی تھی۔ چنانچہ تسکینِ قلب کی خاطر ہم نے بند بازار میں پیدل ہی گھومنا شروع کردیا۔

ابھی تھوڑا ہی آگے گئے ہوں گے کہ پیچھے سے گشت کرنے والے طالبان کی ایک گاڑی پہنچ گئی۔قریب پہنچ کر انہوں نے پہچان لیا کہ یہ مہمان ہیں اور جب ہم نے انہیں اپنی پریشانی سے آگاہ کیا تو وہ خود بھی پریشان ہوگئے اور کہنے لگے کہ اس وقت تو آپ کو کہیں سے کھانے کیلئے کچھ نہیں مل سکتا۔ پھر کچھ سوچ کر انہوں نے ہمیں گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔ ہم بھی اللہ کا نام لے کر گاڑی میں سوار ہوگئے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد گاڑی ایک بڑے سے مکان کے سامنے رکی۔ انہوں نے ہمیں گاڑی سے اتارا اور اپنے ساتھ اندر لے گئے۔ ﴿یہ بڑا سا مکان کونسی جگہ تھی؟ مجھے اس وقت کچھ معلوم نہ ہو سکا البتہ دوبارہ قندھار جانے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ وہ مکان’’والی کوٹھی‘‘ یعنی گورنر ہائوس کی عمارت تھی۔﴾

مکان میں داخل ہوئے تو زمین پر کچھ گدے بچھے ہوئے اور ان پر افغانی روایت کے مطابق تکیے لگے ہوئے تھے۔ ہمارے اجنبی میزبانوں نے ہمیں وہاں بٹھایا اور خود ان میں سے دو آدمی گاڑی لے کر کھانے کی تلاش میں نکل گئے ،جبکہ تیسرا ساتھی ہمارے ساتھ بیٹھ گیا۔ اُس نے بتایا کہ وہ ملا محمد حسن رحمانی صاحب کا بھائی ہے جو چند ہی دن پہلے گورنر قندھار بنے تھے۔ اس طالب سے کچھ دیر افغانستان کے حالات پر بات چیت ہوتی رہی ،جو کافی معلومات افزا تھی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں ساتھی جو کھانے کی تلاش میں نکلے تھے، واپس لوٹ آئے۔ واپس آکر انہوںنے بتایا کہ کافی تلاش کے بعد تھوڑی سی روٹی اور دہی مل سکی ہے، لہٰذا آپ اسی پر گذارہ کرلیں۔سوکھی روٹی کے ٹکڑوں اور پھیکے قہوہ کے مقابلے میں ہمارے لئے یہ کھانا غنیمت تھا، لہٰذا اسی پر اکتفا کیا۔ کھانا کھا کر الحمدللہ پڑھی، میزبانوں کی ضیافت کا شکریہ ادا کیا اور واپس جانے کیلئے اجازت چاہی۔ ان طالبان نے بہت اصرار کیا کہ ہم رات ان کے پاس گزاریں لیکن ہم نے انکار کردیا اور ان سے رخصت ہو کر واپس مہمان خانے پہنچ گئے ،جہاں اب سب لوگ سو رہے تھے۔

اب جو اندھیرے میں ہم نے ٹھوکریں کھاتے کھاتے بستر کی تلاش شروع کی تو ہیچ ندارد!. بڑی مشکل سے ہر ساتھی نے اپنے لئے کچھ نہ کچھ تلاش کیا اور سونے کی ناکام کوشش شروع کردی، کیونکہ مچھروں نے سبھی کے نام میں دم کررکھا تھا۔ بہرحال مابین النوم والیقظۃ ﴿آدھے سوتے آدھے جاگتے﴾کے عالم میں ہم نے بڑی مشکل سے یہ رات گزاری۔ خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ نماز کے لئے اٹھے تو پانی ختم ہوچکا تھا۔ اب جو پانی کی تلاش شروع کی تو نماز کا وقت ختم ہونے لگا، بالآخر ایک جگہ تھوڑا سا پانی ملا تو وضو کرکے فرض نماز فجر ادا کی۔نماز کے بعد اُسی پھیکے قہوے سے ناشتہ کیا مگر اب روٹی تازہ تھی۔

ناشتے سے فارغ ہو کر سب طلبہ کو قوماندانی لے جایا گیا، جو اس چھائونی کا مرکز تھا۔ کیونکہ تشکیلات یہیں سے ہورہی تھیں۔ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد تشکیلات شروع ہوئیں تو ہماری خواہش کے مطابق ہماری تشکیل مزار شریف کیلئے کردی گئی۔ ﴿شمالی افغانستان کے اس شہر میں جنرل عبدالمالک اور اس کی افواج کے طالبان کے سامنے سرنڈر ہونے کی خبر پاکستان میں ہمیں اس دن ہی مل گئی تھی، جس دن ہم مدرسہ سے روانہ ہورہے تھے۔﴾ مزار شریف چونکہ جہاز کے ذریعہ جانا تھا، لہٰذا ہم گاڑی میں بیٹھ کر میدان ہوائی﴿ائرپورٹ﴾ کی طرف روانہ ہوگئے۔

قندھار شہر سے اسپین بولدک جانے والی سڑک پر تقریباً آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد میدان ہوائی پہنچ گئے۔ ٹوٹے پھوٹے شکستہ حال افغانستان میں میدان ہوائی کی جدید عمارت کسی فائیو اسٹار بلڈنگ سے کم نہ تھی۔حالانکہ اس میں سیکورٹی سمیت کسی سہولت کا انتظام نہ تھا۔ انتظار گاہ کسی کمپنی کے گودام کا نظارہ پیش کررہی تھی۔ جہاں باہر سے آنے والے ٹی وی سیٹ، جو طالبان نے ضبط کرلئے تھے، کے علاوہ دیگر تجارتی سامان رکھا ہوا تھا۔ جہاز تک پہنچنے کیلئے عمارت کے اندرونی راستے کو چھوڑ کر میدان کے ارد گرد لگے جنگلے میں ایک طرف جگہ خالی کرکے رسّی کے ذریعہ پھاٹک بنا دیا گیا تھا، جہاں سے جہاز تک تقریباً ۰۵ میٹر کا فاصلہ تھا۔ پھاٹک پر طالبان کا ہجوم تھا ،جن میں سے ہر آدمی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کیلئے بے تاب تھا۔

ہم گاڑی سے اتر کر ہجوم میں داخل ہوئے، تو معلوم ہوا کہ ہم سے ایک دن پہلے روانہ ہونے والے ہمارے ساتھی ابھی تک وہیں تھے۔ چنانچہ اشتیاق بھائی، سعید اللہ، ضیائ الدین اور یعقوب کے علاوہ مدرسے کے دیگر ساتھیوں سے وہیں ملاقات ہوگئی۔ انہوںنے بتایا کہ گزشتہ روز سے محاذ پر جانے والے طالبان کا بے پناہ رش ہے، لہٰذا ایک دن میں تقریباً دس پروازیں مزار شریف کے لئے جانے کے باوجود ابھی تک ہماری باری نہیں آئی۔ ہم نے یہ سنا تو پریشان ہوگئے کہ اس طرح تو شاید ہمیں بھی کل تک انتظار کرنا پڑے۔ بہرحال ہم نے اپنے نام لکھ کر وہاں موجود طالبان انتظامیہ کو دیدئیے۔

کچھ دیر بعد میدان ہوائی کے نگران اعلیٰ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ تمام طلبہ صبر سے کام لیں اور جلد بازی نہ کریں، انشائ اللہ آج تمام لوگوں کو روانہ کردیا جائے گا، کیونکہ امیر المؤمنین نے اپنے خصوصی فرمان کے ذریعے ملک سے باہر جانے والی تمام پروازوں کو منسوخ کرکے قندھار سے مزار جانے کا حکم دیا ہے۔ یہ اعلان سن کر ہماری جان میں جان آئی۔ تھوڑی دیر بعد ہمارے ساتھیوں کے نام پکارے گئے اور وہ ہم سے رخصت ہوکر پھاٹک پر پہنچ گئے۔ جہاں مختصر سی جامہ تلاشی کے بعد وہ دوڑ کر جہاز پر چڑھ گئے اور جہاز نے مزار شریف کی طرف پرواز شروع کردی۔ ان کے جانے کے بعد ہم نے میدان ہوائی کا تفصیلی معائنہ شروع کردیا۔ کیونکہ جس ترتیب سے ہم آئے تھے، اس طرح شام سے پہلے ہمارا نمبر آنا مشکل ہی تھا۔ بہرحال ادھر ادھر گھومتے پھرتے، گپ شپ کرتے وقت گزارتے رہے۔ اتنے میں دوپہر ہوگئی۔ انتظامیہ نے تمام مسافروں کو میدان ہوئی کے مہمان خانے میں بلا کر سادہ سا کھانا کھلایا۔ کھانے سے فارغ ہوکر نماز ظہر ادا کی گئی۔ بعد ازاں کچھ آرام کرکے پھر میدان ہوائی کا ’’دورہ‘‘ شروع کردیا۔

اس دوران ایک اہم واقعہ یہ پیش آیا۔ہوایوں کہ وہاں متعین کسی طالب کی نئے آنے والوں میں سے کسی سے تلخ کلامی ہوگئی۔ بات مزید بڑھی تو میدان ہوائی کے نگران اعلیٰ تک جا پہنچی۔ وہ فوراً جائے وقوعہ پر پہنچے اور پوچھ گچھ کرنے کے بعد میدان ہوائی والے طالب علم کو حکم دیا کہ وہ آگے بڑھ کر مہمان سے معافی مانگے اور خود مہمان کو معاف کرنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ مہمان نے بھی خوش دلی کے ساتھ اسے معاف کردیا۔

ہمارے لئے اتنے بڑے سرکاری ادارے میں انصاف کا ایسا ماحول کسی انوکھی بات سے کم نہ تھا۔ ہم نے سوچا کہ خدانخواستہ اگر یہی صورتحال پاکستان میں پیش آتی تو ابھی تک نجانے اس مسافر کا کیا حال ہوچکا ہوتا؟. بے شک یہ اسلام کی روحانی برکات تھیں!
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 155057 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More