حقوق نسواں کی علمبردارامریکی خاتون کاقبول اسلام

وہ امریکہ کے قلب نیویارک میں پیداہوئی۔ اس کی ابتدائی جوانی ایک امریکی لڑکی ہی کی طرح گزری۔اس کاایک ہی شوق تھاکہ امریکا کے عظیم شہر کی تفریح بھری زندگی کی جاذبیت اور دلکشی کی دوڑ میں حصہ لے اورسب سے آگے نکل جائے۔لیکن اسے لگتاتھاکہ اس کی کوشش جس قد ربڑھتی اور وہ جتنا بظاہر کامیابیوں کی منزلیں طے کرتی جاتی ،اس کی بے اعتمادی میں اسی قدراضافہ ہوتاجاتاتھا۔وہ اپنے باطن میں ایک انجاناساخلا…ایک عجیب سی کمی محسوس کررہی تھی۔اس کامعیار زندگی بظاہرجتنا اونچا ہورہاتھا،اس کااندرکااعتماداتناہی ٹوٹتاجارہاتھا۔وہ اس کاحل چاہتی تھی ،مگراسے کوئی حل سجھائی نہیں دے رہاتھا۔
آخروہ اس زندگی سے تنگ سی آگئی ۔تنگ آمدبجنگ آمدکے مصداق اس نے خودکونشے کے حوالے کردیا،مگراندرکی بے کلی تھی کہ بجائے کم ہونے کے بڑھتی ہی جارہی تھی۔کسی نے اسے مشورہ دیاکہ خودکومصروف رکھ کروہ ان سوچوں سے جان چھڑاسکتی ہے،چنانچہ وہ حقوق نسواں کی ترجمان سماجی کارکن کے طورپرفلاحی اوررفاہ عامہ کے کام کرنے لگی،اس نے بہت کم عرصے میں اس میدان میں بھی فتح کے جھنڈے گاڑدیے، اوراس کے نام کاہرطرف ڈنکابجنے لگا،مگر …مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی … جس رفتارسے اس کی ترقی میں اضافہ اوراس کے کیریئرمیں نکھارآرہاتھا،اسی سرعت سے اس کے اندرکی خوداعتمادی کابت ریزہ ریزہ ہوتاجارہاتھا۔آخروہ کیاچیزہے جس کے حصول کا اس کے ضمیرکی طرف سے مطالبہ ہے،وہ بہت سوچنے کے باوجودسمجھنے میں ناکام تھی،یکسرناکام۔

اچانک س کی زندگی میں نائن زیروآگیا…ورلڈٹریڈ سینٹر اورپینٹاگون کی تباہی کے بعد اس نے دیکھاکہ ہرطرف سے اسلام پرحملے ہورہے ہیں۔ہندو،یہودی اورعیسائی دنیااگراپنی توانائیاں کسی چیزکے خلاف صرف کررہی ہے تووہ اسلام اوراسلامی اقدارہیں۔اسلام سے اسے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی،نہ مثبت نہ منفی،وہ اسلام کوماضی کاایک افسانہ،ایک بھولی بسری کہانی اور''پتھروں کے دور''کی ایک یادگارسمجھتی تھی۔جب اس کے کانوں میں ہرطرف سے یہ آوازیں گونجنے لگیںکہ اسلام عورتوں کااستحصال کرتااوراسے گھرکی نوکرانی اورشوہرکے پاؤں کی جوتی سے زیادہ کوئی مقام نہیں دیتا،تواس نے فیصلہ کیاکہ وہ بھی اپنی آوازبھی اس اسلام مخالف ''شوروغوغا''میں شامل کرلے،بلکہ اسے اس کی شہرت اورمعاشرے میں ایک اسٹیٹس کاحامل ہونے کی وجہ سے اس بات کی باقاعدہ پیشکشیں ہونے لگیں۔اس نے پہلے توسوچاکہ وہ بھی اس رو میں بہہ جائے ،کیوں کہ وہ عورتوں کی آزادی کی علمبردارہے اوربزعم خویش اسلا م حقوق نسواں کی راہ کی سب سے بڑی دیوارہے۔

پھرجانے کیوں …اس نے فیصلہ کیاکہ پہلے تحقیق کرلینی چاہیے۔اسے یقین تھاکہ اس کی تحقیق اس کی اسلام مخالفت میں مزیدشدت کاباعث بنے گی،اس کے وہم وگمان میں بھی نہیںتھاکہ اس تحقیق سے اس کی اپنی رائے اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں یکسر بدل جائے گی،ورنہ شایدوہ ''یہ کڑواگھونٹ ''پینے کی شایدزحمت بھی گوارا نہ کرتی۔

تحقیق کی ابتدااس نے ایک ایسے سینئر سماجی کارکن سے ملاقات کے ذریعے کی،جو بلا تفریق ملک ومذہب سارے انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح وبہبود کاداعی تھا۔اس ملاقات کے بعداسے احساس ہوا کہ انصاف،آزادی اوراحترام انسانیت آفاقی اقدار ہیں،جن کی دوسرے مذاہب سے بڑھ کراسلام دعوت وترغیب دیتاہے۔ یہ اس کے لیے ایک بڑاانکشاف تھا،جسے وہ آسانی سے قبول نہیں کرسکتی تھی۔

اس نے ایک اسلامک ریسرچ سینٹرسے رابطہ کرکے قرآن مجیدکاترجمہ حاصل کیا اوراس کامطالعہ کرنے لگی۔پہلے تو قرآن کے اسلوب وانداز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا، پھر اس کتاب میں کا ئنات، انسان اور زندگی کے بارے میں بیان کردہ ناقابل تردید حقائق نیزعبدومعبود کے رشتے پر جو روشنی ڈالی گئی ہے،ایسی جامع تفصیل اسے اس سے قبل کسی کتاب،کسی فلسفے اورکسی مفکرومصنف کی تھیوری میں نظرنہیں آئی تھی۔وہ بے اختیاریہ سوچنے لگی کہ یہ کسی انسان کاکلام نہیںہوسکتا…اس انقلابی کتاب ہدایت نے اس کے اندرگویاایک بھونچال سابرپاکردیا۔اس نے دیکھاکہ قرآن نے اپنی تعلیمات کا مخاطب براہ راست انسان اور اس کی روح کوبنایاہے۔اس نے قرآن میں بیان کردہ عورت کے حقوق کامقابلہ دوسرے ادیان ومذاہب سے کیا،تواس میں بھی اسلام کوسب سے بڑھ کرپایا،پھراس نے حضوراکرم ۖ کے فرامین ،آپ ۖ کے صحابہ کرام کی مبارک زندگیوں کودیکھاتو قرآنی ہدایات کاکامل ومکمل نمونہ اورعکس جمیل نظرآیا،جب کہ دوسرے ادیان ومذاہب کے ''بڑے''اسے صرف ''گفتارکے غازی''نظرآئے… اور آخرکار وہ لمحہ آگیا جب اس نے فیصلہ کرلیاکہ وہ جس سکون کیلئے بیتاب ہے، وہ صرف اسلام قبول کرکے ہی حاصل ہوسکتاہے۔اس کی داخلی بے تابیوں اور اضطراب کا علاج صرف ایمان سے ہوسکتاہے اور اس کے مسائل کا حل مہم جوئی میں نہیں عملی مسلمان بننے میں ہے۔

وہ اب اسلامی زندگی سے زیادہ دیردوربھی نہیں رہ سکتی تھی،اس نے اسلام قبول کرکے ایک مسلمان مردسے نکاح کرلیا۔ اس نے ایک برقعہ اور سراور گردن کو ڈھکنے والا اسکارف خرید لیا ،جوایک مسلم عورت کا شرعی لباس ہے۔سب کچھ ویسا ہی تھابس ایک چیز بدلی ہوئی تھی یعنی اس کااندرونی اطمینان وسکون اورخوداعتمادی اور تحفظ کا احساس…گویا وہ حقیقی آزادی کی منزل سے اب ہمکنارہوئی ہو۔ وہ اپنے تاثرات ان الفاظ میںبیان کرتی ہے:

''میں بڑی خوش تھی کہ ان آنکھوں میں اب تعجب اور دوری کے آثار تھے ،جو پہلے مجھ کو ایسے دیکھتے تھے جیسے شکاری اپنے شکار کو اور باز ننھی چڑیا کو۔ حجاب نے میرے کندھوں کے ایک بڑے بوجھ کو ہلکا کردیااورمجھے ایک خاص طرح کی غلامی اور ذلت سے نکال دیاتھا۔اب دوسروں کے دلوں کولبھانے کیلئے میں گھنٹوں میک اپ نہیں کرتی تھی۔ اب میں اس غلامی سے آزاد تھی۔ابھی تک میر اپردہ یہ تھاکہ صرف ہاتھ اورچہرے کو چھوڑ کر میراپورا جسم ڈھکاہوتا،میں نے اپنے شوہر سے کہاکہ میں چہرہ بھی ڈھکنا چاہتی ہوں ، اس لیے کہ مجھے لگتاہے کہ یہ میرے رب کو زیادہ راضی کرنے والا عمل ہوگا،انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی،وہ مجھے ایک دکان پر لے گئے جہاں میں نے ایک عربی برقعہ خریدااورمکمل شرعی پردہ کرنے لگی۔آج مجھے اپنے فحش لباس کو اتار کر اورمغرب کی دلربا طرز زندگی کو چھوڑ کر اپنے خالق کی معرفت وبندگی والی ایک باوقار زندگی کو اختیار کرنے سے جو مسرت واطمینان کااحساس ہواہے میں اس کی کوئی مثال نہیں دے سکتی …میری وہ سہیلیاں جومیرے ساتھ حقوق نسواں کے محاظ پرمصروف کارتھیں،مجھے ڈراتی تھیں کہ اسلام قبول کرکے تم ایک عضومعطل بن کررہ جاؤگی،مگریہ ان کی کم فہمی یااسلام کے بارے میں غلط سوچ تھی،الحمدللہ!اب میں بھی عورتوں کے حقوق کی حامی وداعی ہوں،جو مسلم عورتوں کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنی ایمانی ذمہ داریوں کو اداکریں، اپنے شوہروں کی ایک اچھا مسلمان بننے میں مدد کریں،اپنے بچوں کو اس طرح تربیت دیں کہ وہ استقامت کے ساتھ دین پرجم کر اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کیلئے مینارہ نور بن جائیں''۔۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307872 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More