لیجیے!سیرپرسواسیرکے مصداق
راجاپرویزاشرف المعروف راجارینٹل اینڈ لوڈشیڈنگ نے اپنی کابینہ سمیت وزارت
عظمیٰ کاحلف اٹھالیا۔یوں قوم کوایک کے بعددوسری آزمائش کاسامناہے۔وہ
اگرکرپشن کے باپ تھے تویہ مہاباپ ہیں۔اس مختصروقت میں راجاجی کیاکچھ کریں
گے یہ زرداری جی کے علاوہ کوئی نہیںبتاسکتا،کیوں کہ وہ انہیں لائے ہیںتوکسی
خاص مقصدکے تحت ہی لائے ہوں گے،جوآگے چل کرمعلوم ہوسکے گا۔سردست توموصوف نے
لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے لیے ''اقدامات''شروع کردیے ہیں۔اللہ کرے یہ اقدامات
ان اقدامات کی طرح نہ ہوں ،جن کی یہ شہرت رکھتے ہیں۔فی الحال وطن عزیزکی
جوصورت حال گیلانی صاحب کرکے گئے ہیں،اس پرایک نظرڈالیے تاکہ معلوم ہوکہ
عوامی حکمرانوں نے عوام وملک کوکیادیاہے؟
یہ ہمارے سامنے ایک امریکی جریدے کی رپورٹ ہے،جس نے دنیا کی ناکام ترین
ریاستوں میں پاکستان کا تیرہواں نمبر قرار دیا ہے۔ افغانستان ایک سو چھ
پوائنٹس کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔امریکی جریدے فارن پالیسی میگزین کی رپورٹ
کے مطابق خراب معاشی اور سیاسی صورت حال کے سبب دنیا کی ناکام ترین ریاستوں
میں پاکستان کو تیرہویں نمبر پر رکھا گیا، جب کہ فہرست میں افریقی ملک
صومالیہ ایک سو چودہ اعشاریہ نو پوائنٹس کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ایک سو
بارہ اعشاریہ دو پوائنٹس کے ساتھ کانگو کا دوسرا نمبر ہے۔ فہرست میں سوڈان
تیسرے، چاڈ چوتھے اور زمبابوے پانچویں نمبر پر ہے۔ فارن پالیسی میگزین کی
رپورٹس کے مطابق دنیا کی ناکام ریاستوں میں افغانستان کو ایک سو چھ پوائنٹس
کے ساتھ چھٹے نمبر پر رکھا گیا۔اس فہرست میں ہیٹی یمن اور عراق بھی شامل
ہیں۔ فارن پالیسی کے تجزیہ کار رابرٹ ڈی کپلان کا کہنا ہے کہ آمریت کے طویل
دور ،ٹیکسز کا ادا نہ کرنا، اندرونی اور بیرونی کشیدہ صورت حال نے پاکستان
کو معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کردیا۔
ایک دوسری رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دیئے جانے والے وزیر
اعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کی معاشی ٹیم نے اقتصادی میدان میں کوئی جھنڈے
نہیں گاڑے، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، خسارے اور روپے کی بے قدری نے عوام کو
پریشان کیے رکھا۔نااہل وزیر اعظم یوسف کا دور اقتدار 25 مارچ 2008 سے شروع
ہوا۔ اس دوران چار سال میں پانچ وزیر خزانہ اور چھ سیکریٹری خزانہ تبدیل
ہوئے۔ 2008 میں پاکستانی معیشت پر مجموعی قرضہ اور واجبات 64 کھرب کے لگ
بھگ تھا اور اب اس کا بوجھ 121کھرب روپے کو چھو رہا ہے۔ مہنگائی کا طوفان
بپا رہا اور عوام کو کئی مشکل معاشی فیصلے بھگتنا پڑے۔ حکومتی اداروں نے
چار سال میں 50 فی صد مہنگائی کا اعتراف کیا لیکن حقیقت حکومتی اعداد و
شمار سے زیادہ ہی رہی۔ چار سال عوام کے لیے بجلی 96 فی صد مہنگی ہوئی جبکہ
ہر مہینے تیل سے بجلی بنانے کے نرخ اس کے علاوہ ہیں۔ سی این جی 37 روپے سے
بڑھ کر 81 روپے تک پہنچی۔ پٹرول 58 روپے تھا اور عوام نے اس کی سنچری بھی
مکمل ہوتے دیکھی۔مالی خسارہ جو 7 کھرب کے لگ بھگ تھا، اب 13 کھرب کے لگ بھگ
پہنچ رہا ہے۔معاشی ترقی کی شرح جو 7 فی صد کے لگ بھگ تھی اب ڈھائی فی صد کے
آس پاس ہے۔لوڈ شیڈنگ نے معیشت کو ہر سال 2 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا اور
ہر سال 4 لاکھ لوگوں کا روزگار،، چھین لیا۔ اب بھی حال یہ ہے کہ مزدور کے
ہاتھ میں اوزار نہیں بلکہ ڈنڈے ہیں اور لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہروں میں پیش
پیش ہے۔
تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ گیلانی حکومت نے عوام کواگرکچھ دیاہے تووہ ہیں
بحران دربحران…پاکستان میں پیدا ہونے والے تمام بحرانوں کے ذمہ دار امیر
اور غریب دونوں ہیں ،کیونکہ اگر امیر بحران پیدا کرتے ہیں تو غریب بھی
الیکشن میں انہیں کو چنتے ہیں،ہر قسم کے بحران غریبوں کی ہی ایجاد ہیں۔امن
وامان ،غربت ،بیروزگاری ،مہنگائی و دہشت گردی اب پاکستان کے لیے کوئی بحران
نہیں رہا ہے ۔اب پاکستان میں بحران صرف اس چیز کانام رہ گیا ہے کہ مفاہمت
کے نام پر غریبوں کی کمائی ہڑپ کرنے کے لیے مخلوط حکومت کس طرح قائم کی
جائے اور پھر اس حکومت کو کس طرح قائم رکھا جائے ؟ہمارے رہنماؤں کا المیہ
یہ ہے کہ وہ ملک چلانے کے لیے ا یک نقطہ یا نظریہ پہ اکٹھے نہیں ہونا چاہتے،
کیونکہ انھیں ذاتی مفادات دوسروں کی زندگی اور ملکی ترقی سے زیادہ پیارے
ہوتے ہیں۔اس لیے جوبھی حکمران آتاہے س کی اتنی گرفت نہیں ہوتی کہ کوئی
انقلابی قدم اٹھاسکے، اس لیے وہ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح بندر بانٹ کے
فارمولے کو ہی بہتر سمجھتا ہے۔اب 18فروری 2008کے بعد سے مفاہمت کے نام پر
غریبوں کی کمائی ہڑپ کرنے کے لیے قائم مخلوط حکومت نے ایک اور اتحادی تلاش
کرلیا ہے، پھر پاکستان کے غریب شہریوں کے کندھے پر بندوق رکھ کر مفاہمت کے
نام پر بندر بانٹ کرنے کا فیصلہ کیا جارہا ہے ۔
اندریں حالات عوام وخواص نے سکون کاسانس لیاتھاکہ نااہل وزیراعظم اوران کی
کابینہ سے جان چھوٹی،مگرلگتاہے یہ محض ایک خوش فہمی تھی جوراجاجی اوران کی
کابینہ دیکھ کرکافورہوگئی ہے۔اس بات پربھی حیرت ظاہرکی جارہی رھی کہ حکمراں
جماعت نے ٹھنڈے پیٹوں اس کڑوے فیصلے کوقبول کرلیاہے،جس کی ان سے توقع نہیں
تھی،یہ سپریم کورٹ کی دہشت ہے یاپھرراولپنڈی سے آنے والی ایک کال
کاکمال،بہرحال تھا خلاف توقع،کہ تحفظات ہونے کے باوجوداتنی آسانی سے ''سرتسلیم
خم''کردیاگیا۔لیکن اب معلوم ہورہاہے کہ زرداری سرکاراتنی جلدی ہارماننے
والی نہیں،اوراسی غرض خاص کے تحت وزارت عظمیٰ کی کرسی راجاجی کوپیش کی گئی
ہے کہ وہ عدالت کاناک میں دم کرکے رکھیں،اگرچہ یہ توحکمران ٹولہ بھی
جانتاہے کہ آخری تالی عدلیہ ہی نے بجانی ہے،مگراس سے پہلے حسب توفیق
شوروشغب میں کمی کرکے پیپلزپارٹی اپنے ماضی کوداغ داربھی نہیں کرناچاہتی۔
کسی نے سچ کہاہے کہ یہ ملک بناہی راجاؤں، چودھریوں،وڈیروں،لغاریوں ،مخدوموں
اورخانوں کے لیے ہے۔آزادی سے پہلے بھی یہی لوگ اقتدارواختیارکے مالک تھے
اورقوم کی کشتی کے ناخدااورآزادی کے بعدبھی صورت حال وہی ہے۔چندخاندانوں کی
حکمرانی کے منحوس چکرسے جانے یہ ملک عزیزکب نکلے گا؟یہ ایک بدیہی امرہے کہ
یہ منحوس گھن چکرجس جمہوریت کاتحفہ ہے اس سے جان چھڑائے اورنظام حکومت
بطرزخلافت راشدہ کونافذکیے بغیرمحض انتخابات کے ذریعے تبدیلی اوربہتری کی
سوچ دیوانے کے خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی!! |