کہتے ہیں ایک دفعہ محمود غزنوی
نے خواب میں دیکھا کہ اُس کا باپ سبکتگین قبر میں پڑا بڑی حسرت سے
ادھرادھردیکھ رہا ہے جب اس سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے جواب دیا کہ
میں نے جس مملکت کے حصول کیلئے اتنی محنت کی اور بے شمار لوگوں کو تہہ تیغ
کیا آج وہ غیروں کے قبضہ میں ہے جبکہ میں آج بے بس قبر میں پڑا ہوں''سچ ہے
کہ دنیا کی ہر چیز کو زوال ہے سوائے اللہ کی ذات کے لیکن کیا کریں کہ قوت و
اقتدار کی ہوس انسان کو اس قدر اندھاکردیتی ہے کہ وہ اپنے ماضی میں گزری
عبرت کی مثالوں سے سبق حاصل کرنا تو درکنار اپنے سامنے اور اردگرد بکھرے
ایسے کرداروں سے بھی سبق حاصل نہیں کرتا جو اپنی حالت سے گویا دنیا کو واضح
پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ
ع دیکھو مجھے جو دیدہ ءعبر ت نگاہ ہو
اس سلسلے کی تازہ ترین مثال مصر کے سابق ڈکٹیٹر اورتیس سال تک ملک پر
بلاشرکت غیرے حکومت کرنیوالے حسنی مبارک کی ہے جس نے تین عشروں تک پوری قوم
کو امریکی خوشنودی کی بھینٹ چڑھائے رکھا لیکن ظلم آخر ظلم ہوتا ہے اور اک
دن اسے مٹنا ہی ہوتا ہے اور پھر ایک دن یہ ظلم مٹ گیا اور قدرت نے اس ظالم
و جابر شخص کو جس کے اشارہ ابرو پر قانون بنتے اور ٹوٹتے تھے اور جس کی
زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ ہزاروں افراد کی جان تک لے لیتا تھا ایک دن اتنا
بے بس ہوگیا کہ وہ انہی گارڈز کے رحم و کرم پر تھا جن کے ہاتھ اسے سیلوٹ
کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے اسے جانوروں کی طرح پنجرے میں بند کرکے عدالت میں
لایاجاتا تھا اور پھر اسی کی بنائی عدالت نے اسے عمرقید کی سزا سنادی اس
سزا کے بعد ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ پورا مصر اس سزا کے خلاف سڑکوں پر
نکل آیا اور اس سزا کو انصاف کا خون قراردیا محترم قارئین یہ لوگ اس سزا پر
احتجاج اس لئے نہیں کررہے تھے کہ یہ سزا حسنی مبار ک کونہیں سنائی جانی
چاہئے تھی بلکہ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ حسنی مبارک جیسے مجرم کیلئے عمر
قید کی سزا بہت کم ہے اس کو کم از کم پھانسی کی سزادی جانی چاہئے تھی ۔
یہاں میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جس وقت حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ
کیا گیا اس وقت حسنی مبارک کے اثاثوں کی کل مالیت کا اندازہ تقریباََ 70ارب
ڈالر تھا یعنی اس کا شمار طویل ترین اقتدر رکھنے والے حکمرانوں کے ساتھ
ساتھ دنیا کی امیر ترین شخصیات میں بھی ہوتا تھا لیکن یہ شہرت ،دولت اور
اقتدار اسے اس ذلت سے نہ بچا سکے جس نے اسے آج مصر کا ناپسندیدہ ترین انسان
بنادیا ہے اور آج اس کا شمار نہ مُردوں میں ہوتا ہے اور نہ ہی زندوں میں
اور حسرت و یاس اور عبر ت کانمونہ بنے دنیا کو بتا رہا ہے کہ مخلوق خدا پر
ظلم و ستم سے بچو اور اگر تمھیں قوت ملے تو عدل و انصاف سے کام لو ورنہ
تمھارا حال بھی مجھ جیسا ہی ہوسکتا ہے لیکن ماضی کو یاد رکھنا اور تاریخ سے
سبق سیکھنا آج کل ایک فضول مشق اور دقیانوسیت سمجھی جاتی ہے خیر اب عوام کی
طویل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد امریکہ نواز ڈکٹیٹرکے خونی پنجوں سے آزادی
حاصل کرچکا ہے اور اب مصر پر اخوان المسلمین کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے
محمد مرسی نامی 61سالہ ایسے شخص کی حکومت بننے جارہی ہے جو کٹر اسلام پسند
ہے اور اس نے آتے ہی مصر کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی اور مسلم
ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا اعلان کرکے اسرائیل و امریکہ کی نیندیں
اڑادی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ محمد مرسی کے خلاف اقتدار میں آنے سے پہلے ہی
سازشیں شروع ہوگئی ہیں جس کا ایک مظاہرہ اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب
الیکشن کمشن نے محمدمرسی کے مخالف اور فوجی کونسل کے حمائت یافتہ امیدوار
سابق وزیر اعظم محمد شفیق کی اپیل پر الیکشن کارزلٹ روک لیا کیوں کہ انہوں
نے دعویٰ کردیا کہ الیکشن میں فتح اصل میں انہیں حاصل ہے جس کے بعد ایک بار
پھر ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور التحریر سکوائر پر لاکھوں کے مجمع
نے محمدمرسی کے حق میں اور فوجی کونسل کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہارکیا
اور الیکشن نتائج روکنے پر فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے
عوامی امنگوں سے بغاوت قراردیا بہرحال 24جون کو فوجی کونسل کو آخرکار
محمدمرسی کی فتح کا اعلان کرنا پڑا ۔محمدمرسی کی فتح پرصرف مصری عوام ہی
نہیں پوری اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور آج جب اقتدار محمد
مرسی کے سپردکیا جارہاہے ہم پورے خلوص کے ساتھ محمد مرسی کو خوش آمدید کہتے
ہوئے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ناصرف مصرکو اس کی اصل شناخت سے روشناس کرائیں
گے بلکہ وہ مصر کو پنجہ ءیہود سے نکالتے ہوئے اسلامی ممالک کے ساتھ
برادرانہ تعلقات قائم کریں گے۔ |