سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ
نے نو منتخب وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب سے سوئس حکومت کو خط لکھنے کے
بارے میں بارہ جولائی تک جواب طلب کر لیاجبکہ جنابِ آصف زرداری پہلے ہی
فرما چکے ہیں کہ نیا وزیرِ اعظم بھی بینظیر کی قبر کا ٹرائل نہیں ہونے دے
گا اور قائدِ اعظم کے مزار سے پہلے بھٹو مرحوم کے مزار پر حاضری دینے والے
راجہ پرویز اشرف بھی خط نہ لکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔گویا ایک بار پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے ۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ چیف جسٹس صاحب
کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور انہیں گھر بھیجنے کے منصوبے بھی تیار کئے جا رہے
ہیں اوریوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوںنے پورا
ملک یرغمال بنا رکھا ہو جس سے فی الحال نجات کی کوئی راہ دکھائی دیتی ہے نہ
سجھائی کیونکہ فوج کا ملکی اندرونی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ
نظرنہیں آتااور نواز لیگ بدستور لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی پالیسی
پر عمل پیرا ہے ۔فوجی آمریت کو کوئی بھی جمہوریت نواز پسند نہیں کرسکتالیکن
سوال یہ ہے کہ کیا فوج کی آمد کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ ملک پر قبضہ
جما کر بیٹھ جائے ؟۔ کیا ملک کو اندرونی طور پر بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار
ہوتے دیکھ کر بھی فوج کا یہی کردار رہ جاتا ہے کہ وہ خاموش تماشائی بنی رہے
۔تحقیق کہ محترم جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب بھرپور مداخلت کرتے ہوئے تمام
معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر عدلیہ کی زیرِ نگرانی شفاف ترین الیکشن کروا
کر نئی تاریخ رقم کر سکتے تھے لیکن جنرل صاحب فی الحال ایسا کچھ کرتے نظر
نہیں آتے جبکہ دوسری طرف فوجی مخالفت سے بری طرح خائف میاں نواز شریف صاحب
کوئی بھی دلیرانہ قدم اٹھانے سے مکمل طور پر گریزاں ہیں اور یہی نہیں بلکہ
وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ان ملک ، قوم اور جمہوریت دشمن لڑ کھڑاتے
حکمرانوں کو سہارا دے کر اس مقام تک لانے کا گناہِ بے لذت بھی نواز لیگ ہی
سے سرزد ہوا ۔2008ءسے اب تک کا ایک ایک لمحہ گواہ ہے کہ نواز لیگ اسی
احتیاط پسندی کی طفیل مقبول ترین سیاسی جماعت کے درجے سے گرتی چلی گئی اور
وہ عمران خاں جنہیں قوم ایک کھلاڑی سے زیادہ درجہ دینے کو ہر گز تیار نہ
تھی ابھر کر سامنے آ گئے کیونکہ قوم کے پاس اور کوئی ”آپشن“ باقی نہیں بچی
تھی۔عمران خاں کی اسی مقبولیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے”مشرفیے“ دھڑا دھڑ
تحریکِ انصاف میں شامل ہونے لگے اور مسلم لیگ نون جو اپنے ”اصولی موقف “کا
ڈھول گلی گلی پیٹتی پھرتی تھی اس بری طرح خائف ہوئی کہ اپنے سارے اصولی
موقف تیاگ کر بچے کھچے ”مشرفیوں“ کو گلے لگانے میں ہی عافیت جانی ۔اگر وہ
انہیں گلے نہ لگاتے تو کم از کم یہ دعویٰ تو ضرور کر سکتے تھے کہ مسلم لیگ
نواز با اصول سیاستدانوں کی جماعت ہے لیکن وہ اپنا یہ بھرم بھی قائم نہ رکھ
سکی ۔اُدھر بیچ منجدھار میں پھنسے دائیں بازو کے ووٹروں کا یہ عالم ہے کہ
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہگزر کو میں
کیونکہ محترم عمران خاں صاحب عقابی شان سے جھپٹے ضرور لیکن مُردار خور
گِدھوں کے جھُرمٹ میںبیٹھ کرانہوں نے بھی یہ ثابت کر دیا کہ
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ ورسم شاہبازی
وہی سیاسی قلا بازیاں جو ہمارے سیاستدانوں کا طُرہ امتیاز ہے ،خاں صاحب بھی
لگا رہے ہیں۔سوائے الزام تراشیوں کے اُن کی پٹاری میں کچھ ہے نہیں اور
پٹواریوں ، تھانیداروں کا احتساب ان کا ایجنڈا ہے ۔جھوٹ ما شا اللہ اس
تواتر سے بولتے ہیں کہ سچ کا گماں ہونے لگتا ہے جبکہ ان کے مدح سرا سینئر
لکھاری کے ہر کالم کا ٹیپ کا مصرع یہی ہوتا ہے کہ ”کپتان جھوٹ نہیں
بولتا“۔میں اپنے گزشتہ کسی کالم میں کپتان صاحب کی ”سچائی “کے بارے میں
تفصیل سے لکھ چکا ہوں اس لئے اسے ایک طرف رکھتے ہوئے محترم لکھاری سے صرف
اتنا سوال ہے کہ قُرآن و حدیث کے بغیر لُقمہ نہ توڑنے والے اُن جیسے
لکھاریوں کے نزدیک کیا سچائی کا یہی معیار ہے ؟۔کیا سچائی صرف وہی ہے جو ان
کے ”کالمی درویش“ بیان کرتے ہیں ؟۔محترم لکھاری نے اپنے ایک کالم میں لکھا
کہ راجہ پرویز اشرف صاحب گوجر خاں کے درویش کی دعاؤں کی طفیل وزارتِ عظمیٰ
پر فائز ہوئے ۔عرض ہے کہ یا تو درویش نے راجہ صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کی دعا
نہیں دی ہو گی اور محترم لکھاری صریحاََ جھوٹ بولتے ہیں ، یا پھر وہ درویش
ہی نہیں کیونکہ رب کے مقرب بندے کسی خائن اور بد دیانت کو کبھی ایسی دعاؤں
سے نوازا نہیں کرتے ۔ان کے ”کالمی درویش“ بھی بیان بدلنے کے ماہر ہیں ۔کبھی
یہ کہہ دیتے ہیں کہ خاں صاحب کا وزیرِ اعظم بننا طے ہو گیا اور کبھی یہ
کہتے ہیں کہ نواز لیگ کو اکثریت حاصل کرنے کے بعد حکومت کی تشکیل کے لئے
عمران خاں کی ضرورت ہو گی کیونکہ پیپلز پارٹی کا پتا تو صاف ہو گیا ۔عرض ہے
کہ پیپلز پارٹی اپنے پورے قد کے ساتھ میدان میں موجود ہے اور اپنی شاطرانہ
چالوں کی بدولت نواز لیگ اور تحریکِ انصاف دونوں کا پتا صاف کرنے کے لئے پر
تول رہی ہے کیونکہ یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاں نواز لیگ کو اس کی
احتیاط پسندی لے ڈوبے گی وہیں تحریکِ انصاف کو اس کی ”بڑھک بازی“ ۔کل ایک
ٹاک شو میں تحریک کے سیکرٹری اطلاعات شفقت محمود صاحب نے فرمایا کہ پیپلز
پارٹی ، نواز لیگ ، ق لیگ اور اے این پی سمیت سبھی سیاسی جماعتیں بری طرح
ہار جائیں گی ۔جب اینکر نے کہا کہ کیا ایم کیو ایم بھی؟تو انہوں نے فرمایا
”ہاں وہ بھی “جس پر سبھی شرکاءبے اختیار ہنس پڑے تو پھر موصوف نے خجالت سے
کہا ”شاید وہ کراچی سے چند سیٹیں جیت جائے“ ۔موصوف کے اس اعتماد کی وجہ IRI
کی وہ رپورٹس ہیں جن کا دھنڈورا عمران خاں سمیت سبھی تحریکیے بڑی شدت سے
پیٹتے چلے آ رہے ہیں ۔ لیکن سچائی کے دعوے داروں کی اس جماعت کے کسی لیڈر
کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ IRI کی رپورٹس کی اصل حقیقت سے قوم کو آگاہ
کر سکیں۔IRI کی سائیٹ کے مطابق یہ رپورٹ انیس کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف
5900 افراد کی آراءپر مشتمل ہے جس میں پینتالیس فیصد آراءاٹھارہ سے پچیس
سال تک کے نوجوانوں کی ہیں ۔بلوچستان، جہاں مقبول ترین جماعت کا ڈھنڈورا
پیٹا جا رہا ہے وہاں سے صرف 118 افراد کی رائے لی گئی اور صرف 41 افراد نے
تحریکِ انصاف کے حق میں رائے دی۔یہ رپورٹ صرف آئی آر آئی کی سائیٹ پرد
ستیاب ہے جسے اس نے شائع کرنا بھی گوارا نہیں کیا ۔کیا تحریکِ انصاف ایسی
رپورٹس کو بنیاد بنا کر انتخاب جیت پائے گی ؟۔اور کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ
دائیں بازو کے ووٹوں کی تقسیم کا گناہ آنے والا مورخ تحریکِ انصاف ہی کی
جھولی میں ڈالے گا؟۔ |