لفظ ”ماں“ میں پتہ نہیں کیا جادو
ہے کہ لبوں پہ آتے ہی مُنہ شہد کی سی مٹھاس سے بھر جاتا ہے ۔یہ لفظ اتنا
پاکیزہ ہے کہ اِس کی تقدیس سے پورا وجود سرشار ہو جاتا ہے ۔اِس کے پیار کی
انتہا یہ کہ ربِ کائینات نے اپنی محبت کا استعارہ ماں کی محبت سے باندھا ہے
۔ایثار کا یہ عالم کہ بقول عباس تابش
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اِک روز کہا تھا ، مجھے ڈر لگتا ہے
لیکن پچھلے دِنوں نو منتخب وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب نے پارلیمنٹ کو
”ماں“ کا درجہ دے کر کم از کم میرے وجود میں کانٹے بو دیئے ۔میں یہ سوچنے
پر مجبور ہو گئی کہ کیا واقعی ہم اخلاقی گراوٹ کے اُس درجے تک پہنچ چُکے
ہیں کہ چوروں ، ڈاکوؤں ،لُٹیروں ،خائینوں ،بد دیانتوں ،قرضہ خوروں ،رسہ
گیروں اور بھتہ خوروں کی ”منڈلی“ کو ماں جیسی پاکیزہ ہستی کے مترادف قرار
دے دیں؟۔بھلے ”راجہ رینٹل“ صاحب اعلیٰ عدلیہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہوں کہ
پارلیمنٹ ہر ادارے سے سپریم ہے اور اُس کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جا
سکتا لیکن اُنہیں ماں جیسے مقدس رشتے کی توہین کا حق بھی بہرحال کسی نے
نہیں دیا ۔میرا یہ کالم اُس مقدس ترین رشتے کے بارے میں ہر گز نہیں جِسے
دیکھ کر ربِ کریم کی رحمتوں کی آس بندھ جاتی ہے بلکہ اُس مصنوعی اور غیر
فطری ماں کے بارے میں ہے جس کا وزیرِ اعظم صاحب نے تذکرہ کیا ہے ۔
وزیرِ اعظم صاحب نے فرمایا کہ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے اور وزیرِ
اطلاعات جناب قمر ا لزماں کائرہ نے جنابِ وزیرِ اعظم کے اسی فرمان کی گلی
گلی تشہیر شروع کر دی ۔تب سے اب تک میں یہی سوچ رہی ہوں کہ اگر پارلیمنٹ
ماں ہے تو پھر کوئی نہ کوئی باپ بھی ضرور ہو گا کیونکہ باپ کے بغیر تو ماں
کا تصور ہی ممکن نہیں ۔اگر چشمِ تصور سے کسی ”آمر“ کو باپ سمجھ لیا جائے تو
وہ تو اتناسخت گیرہوتا ہے جو ”اماں جی “کو طلاق دے کر گھر بٹھا دیتا ہے اور
پھر جو من میں آئے کرتا ہے اور جاتا بھی اُس وقت تک نہیں جب تک اللہ نہ
اٹھائے یا قوم ڈنڈا نہ دکھائے۔ اِس لئے ایسے باپ سے اللہ ”اماں جی“ کو
محفوظ ہی رکھے تو بہتر ہے۔ اگر سپریم کورٹ کو باپ کا درجہ دے دیا جائے تو
وہ بھی ”اماں جی“ کو بہرحال من مانی نہیں کرنے دیتا اور اُس کو سیدھی راہ
پر چلانے کی اپنے تئیں کوشش کرتا رہتا ہے لیکن اماں جی چونکہ کسی کی باتوں
پہ کان دھرنے کی عادی نہیں اس لئے اُن کے ما بین بھی ”خانگی“ جھگڑے جاری
رہتے ہیں جن کا نقصان ماں کو پہنچتا ہے نہ باپ کو البتہ اولاد در بدر ہو کر
خود کُشیاں ضرور کرنے لگتی ہے ۔البتہ اگر اماں جی کے ہتھے کوئی ”ڈوگر ٹائپ“
چڑھ جائے تو پھر وہ خوب کھل کھیلتی اور عیاشیاں کرتی پھرتی ہے ۔ویسے یہ ماں
ہے یا ”کالی ماتا“ ؟جوہر وقت اپنے ہی بچوں کا خون پیتی رہتی ہے لیکن اس کا
پیٹ کبھی نہیں بھرتا ۔8500 ارب ڈکارنے اور ملک کو ناکام ترین ریاستوں میں
تیرھویں نمبر پر لا پھینکنے کے با وجود یہ ”کالی ماتا“ روزِ اول کی طرح
تشنہ ہے ۔
محترم وزیرِ اعظم اور وزیرِ اطلاعات اسی اداروں کی ماں کا اٹوٹ انگ ہیں۔
لیکن کیا کبھی اُنہوں نے سوچا کہ جن ہاتھوں نے اُنہیں تراشا ، وہ اُن کا
کیا حشر کر رہے ہیں؟۔کیا ان کا دھیان کبھی سسکتے ، تڑپتے مجبورو مقہور عوام
کی کسمپر سی کی طرف گیا؟۔ دُکھ تو یہ ہے کہ
جِن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
وہ بولنے لگے تو ہمیں پہ برس پڑے
اداروں کی ماں کی رٹ چھوڑیئے کہ قوم اب اتنی بھی بے شعور نہیں کہ اُسے لفظی
بازیگریوں سے بہلایا جا سکے ۔پھر ہمارا ایمان یہ بھی ہے کہ پالیمنٹ سپریم
ہے نہ کوئی دوسرا ادارہ اور نہ ہی عوام ۔سپریم اگر ہے تو فقط ربِ لم یزل
جوفرش سے عرش تک ہر شے کا خالق بھی ہے ، مالک بھی اور مختارِِ کُل بھی
۔عوام ، عدلیہ ، انتظامیہ، مقننہ ، فوج اور دیگر سبھی ادارے اگر اُسی
ذوالجلال کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط پر عمل کرتے ہیں تو ٹھیک وگرنہ کسی
شخص پر بھی اُن کی اطاعت فرض نہیں۔خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے پہلے
خطبے میں فرمایا کہ لوگو! میں تُم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں ۔تُم پر میری
اطاعت صرف اُس وقت تک فرض ہے جب تک میں تُمہیں اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے
بتلائے ہوئے راستے پر چلنے کی تلقین کروں ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا ہماری
موجودہ پارلیمنٹ اپنے کردار ، اعمال اور افعال کے لحاظ سے اس قابل ہے کہ
اِس کی اطاعت کی جائے اور اس کے احکامات کو فرضِ عین سمجھا جائے؟۔پورے وثوق
سے کہا جا سکتا ہے کہ ہر گز نہیں ۔ اس لئے قوم اداروں کی اس ماں سے دست
بستہ عرض کرتی ہے کہ اپنے ”لچھن“ درست کرلے ۔کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو
”تنگ آمد بجنگ آمد“ کے مصداق قوم تو اُس کی دُرگت بنانے سے بھی دریغ نہیں
کرے گی ۔یقین مانیے کہ مجھے تو ”عوامی مزاج“ کچھ ایسا ہی نظر آتا ہے ۔
شنید ہے کہ ”ماتا جی “ اپنے اختیارات کو وسعت دینے کے لئے نیا کھیل کھیلنے
اور اپنی راہ کے روڑے ہٹانے کے لئے ”بڑے گھر“میں بیٹھ کر شاطرانہ منصوبہ
بندیوں میں مصروف ہے ۔ چیف جسٹس آف پاکستان جنابِ افتخار محمد چوہدری نے
شاید اسی لئے بڑی صراحت سے یہ بتلا دیا ہے کہ پارلیمنٹ کی حدود کہاں تک ہیں
اور اُسے آئین میں ترمیم کا کس حد تک اختیار ہے ۔پیپلز پارٹی اور اُس کے
حواریوں کے لئے چیف صاحب کا یہ فرمان کافی ہونا چاہیے کہ پارلیمنٹ کو آئین
میں کسی بنیادی ترمیم کا ہر گز اختیار نہیں ۔اِس لئے بہتر تو یہی ہے کہ
”اماں جی“ کوئی ”پنگا“ لینے سے پہلے اپنی اداؤں پر غور کر لے لیکن اگر اُسے
اتنا ہی شوق چُرایا ہے تو پھر ”گھوڑا بھی حاضر ہے اور میدان بھی“۔کوئی اِس
غلط فہمی میں نہ رہے کہ قوم نواز لیگ کے لانگ مارچ کا انتظار کرے گی یا
عمران خاں کے سونامی کا ۔کیونکہ حالات اب ”مارو یا مر جاؤ“ کی نہج پر آن
پہنچے ہیں ۔ذہنوں میں پکنے والا لاوا کسی وقت بھی آتش فشاں کا روپ دھار
سکتا ہے اور وہ لکھاری ، دانشور اور تجزیہ نگار یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ
بھوکوں مرتے عوام میںکسی احتجاج کی سرے سے سکت ہی باقی نہیں بچی۔اُنہیں جان
لینا چاہہیے کہ طوفان کی آمد سے پہلے ہوائیں ہمیشہ ساکت ہو جاتی ہیں اور جب
طوفان اُٹھتا ہے تو اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو نیست و نابود کرتا چلا
جاتا ہے ۔عمران خاں صاحب کا سونامی تو ابھی بگولوں کی مانند اِدھر اُدھر
گھومتا پھرتا ہے اور میاں برادران کا لانگ مارچ بھی ”جاتی عمرا“ کے طواف
میں محو ہے لیکن ”عوامی سونامی“ آنے کو تیار بیٹھا ہے ، آج آئے یا کل۔ |