نوازشریف کی نا اہلی کا مقدمہ
اور پاکستانی قوم
پاکستانی قوم اس اعتبار سے ایک
منفرد قوم ہے کہ آزادی کے ٦١ برس گزرنے کے باوجود اس کی کوئی ایک سمت نہیں ہے ۔ایک
شتر بے مہار کی طرح ہر نئے آنے والے حکمران نے اس قوم کو اپنی لاٹھی سے ہانکا،
جب تک دِل چاہا اس کے کندھوں پر سواری کی اور جب دِل بھر گیا تو کسی نئے سوار
کے لیے جگہ خالی کردی، بلکہ بعض اوقات تو نئے سوار نے زبردستی جگہ خالی کروا لی۔
اس کی تازہ ترین مثال جنرل (ر) پرویز مشرف کا مسندِ اقتدار پر قبضہ تھا۔ جنرل
(ر) پرویز مشرف کا دور اس لحاظ سے پاکستانی تاریخ کا تاریک ترین دور تھا کہ اس
میں آئینِ پاکستان کی من مانی تشریح کی گئی، افواجِ پاکستان کو ذاتی محافظوں کا
دستہ سمجھا گیا اور قومی خزانے کو شاہی خزانہ سمجھ کر اندھوں کی طرح خوب
ریوڑیاں بانٹی گئیں۔
این آر او کی جادوئی چھڑی کے ذریعے قومی مجرموں کو بالکل اس طرح پاک صاف کر دیا
گیا جیسا کہ انہوں نے کبھی کوئی جرم کیا ہی نہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے ایک فاضل جج
صاحب نے حال ہی میں سابق وزیرِ اعظم اور طیارہ سازش کے نامزد ملزم میاں محمد
نواز شریف کے خلاف نااہلی کیس کی سماعت کرتے ہوئے بڑے دلچسپ ریمارکس دیے ہیں کہ
“اُن کی سزا معاف ہوئی ہے لیکن جرم نہیں“ - ہمیں معزز جج کی بات پر اعتراض تو
نہیں لیکن ہم اپنی معلومات میں اضافے کے لیے اتنا تو جاننے کا حق رکھتے ہی ہیں
کہ کیا جرم کی سزا معاف ہونے کے بعد بھی کسی جرم کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔
جاری ہے |