بھارت کا صوبہ کرناٹک گزشتہ چند
دنوں سے خبروں کی زد میں ہے۔اور اس کی وجہ وہاں پر ہونے والے غیر معمولی واقعات
ہیں۔غیر معمولی اس لحاظ سے کہ وہاں کی انتہا پسند تنظیموں نے اب خود ہندوں پر
بھی حملے شروع کردئے ہیں۔اس حوالے سے پہلا واقعہ چوبیس جنوری کو پیش آیا جب رام
سینا نامی تنظیم نے ایک پب میں حملہ کرکے وہاں موجود لڑکیوں پر تشدد کیا۔اور
اور ان کو بدترین طریقے سے ذدوکوب کیا۔ان لڑکیوں کو زمین پر لٹا لٹا کر لاتیں
اور گھونسے مارے گئے۔اس سلسلے میں مزید واقعات کی اطلاعات بھی ملی ہیں، جس میں
ہندو انتہا پسندوں نے ایک لڑکی کو اس لیے تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ ایک مسلمان
لڑکے کے ساتھ گھوم رہی تھی۔اسی طرح لڑکے اور لڑکیوں کے جوڑوں کو سرِ عام محبت و
الفت کے اظہار، اور بوس وکنار سے بھی منع کیا ہے اور ان کا ارادہ ویلنٹائن ڈے
منانے والوں پر تشدد کرنے کا بھی ہے اور اس تنظیم نے ویلنٹائن ڈے منانے والوں
کو وارننگ دی ہیں۔اور وہ چودہ فروری ہفتے کو احتجاج بھی کریں گے۔
سری رام سینا ایک غیر معروف انتہا پسند تنظیم ہے جس کے سربراہ پرمود مود ٹالک
ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ عورتوں کا بازاروںمیں ڈانس بار میں اور شراب خانوںمیں
جانا قبول نہیں کیا جاسکتا۔ سری رام سینا کائی پہلی تنظیم نہیں ہے جس نے انتہا
پسندی کا ثبوت دیا ہو بلکہ آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ)وی جے پی(ویشوا ہندو
پریشد) اور دیگر کئی گروپ بھی کام کرہے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ یہ گروپ پہلی بار
ایسا کوئی کام کر رہے ہیں بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ پہلے یہ گروپ دیگر اقوام
مثلاً مسلم، عیسائی، سکھ، اور نچلی ذات کے ہندوؤں پر انتہا پسندانہ اور پر تشدد
کاروائیاں کرتے تھے اس لیے برہمن سوچ کے حامل متعصب ہندو میڈیا ان باتوں کو
اتنی اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن دراصل اب یہ آگ خود ان کے گھر تک پہنچ گئی ہے اس
لیے اس بات کا واویلہ کی جا رہا ہے،میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ
اگر یہ پرتشدد کاروائیاں کسی مسلم علاقے میں ہوتیں یا مسلم خواتین کو تشدد کا
نشانہ بنایا جاتا تو سو فیصد یہ متعصب میڈیا اس بات کو آن لائن نہیں آنے دیتا۔
بالکل اسی طرح جس طرح گجرات میں سابر متی ایکسپریس کے واقعے کو بنیاد بنا کر
سینکڑوں مسلم خواتین کی آبروریزی کی گئی، ہزاروں مسلم خاندانوں کو بے گھر کیا
گیا،اور ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا گیا،عام لوگوں نے تو شائد ان باتوں کا
صرف ذکر سنا ہوگا لیکن راقم الحروف نے خود ان ویڈیوز کو دیکھا تھا جس میں یہ
انتہا پسند ہندوں اپنی شیطانی فطرت کا مظاہرہ کر رہے تھے اور احمد آباد کی
سڑکوں پر رقصِ ابلیس جاری تھا۔
انیس سو بانوے میں بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر بھی سینکڑوں مسلمانوں کو
شہید کیا گیا اور بھارتی متعصب میڈیا نے اس کی خبریں باہر نہیں آنے دیں تھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھی میڈیا افغانستان،اور پاکستانی طالبان کا راگ
الاپ رہا ہے مگر خود اپنے گھر میں لگی آگ کی اسے کوئی فکر نہیں ہے۔ یہاں ایک
بات کا ذکر کردیں کہ بھارت جو کہ خطے میں چوہدری کا کردار ادا کرنا چاہتا اور
سری لنکا، بنگلہ دیش، پاکستان،اور نیپال میں اپنی ٹانگ اڑاتا رہتا ہے مگر خود
اس کے اپنے ملک میں علیحدگی کی دو درجن سے زائد تحریکیں چل رہیں ہیں۔ کاش کہ
بھارت اس کی بھی دھیان دے |