پاکستان کی بظاہر نہایت کمزور
نظر آنے والی حکومت نے امریکی بربریت سے ہونے والے اپنے ۴۲ فوجی جوانوں کی
شہادت پر احتجاجاً افغانستان میں موجود نیٹو اور امریکی فوجیوں کیلئے
پاکستان کے راستے سے ہونے والی سامانِ رسد کی سپلائی روک دی۔ اس اقدام سے
مغربی دنیا میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ۔ کرزئی کے وطن افغانستان میں اس وقت لگ
بھگ ایک لاکھ بیالیس ہزار غیر ملکی افواج موجود ہیں جو تقریباً دس سال سے
طالبان کے خلاف برسر پیکارِ جنگ میں ہیں۔ امریکہ سمیت انگلینڈ اور نیٹو کے
بیشتر رکن ملکوں سے جُڑے فوجی اپنے لئے آلاتِ حرب، ادویات، ایندھن، خوراک
غرض یہ کہ ہر وہ چیز جو ان کیلئے زندہ رہنے کا سبب ہیں انہیں تنگ و خطرناک
راستوں سے ہوکر ان تک پہنچتی ہیں ۔ اندازہ ہے کہ ان کی ضرورتوں کا آدھا
سامان پاکستان کے راستے سے ہو کر ان تک پہنچتا تھا جسے 26 نومبر 2011 ءسے
سلالہ حملوں کے بعد سے ٹریفک کیلئے غیر موثر کر دیا گیا ہے بلکہ یوں کہہ
لیں کہ ان کے لئے سب سپلائی بند کر دی گئی ہے۔ پاکستان کیلئے یہ اقدام
اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں تھی کیونکہ بظاہر پاکستان کی جمہوری حکومت کسی
بڑے اقدام کو اٹھانے اور اس پر عمل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جیسا کہ
یہاں کی سیاست سے آپ سب واقف ہیں۔ مگر پھر بھی یہ اقدام اور میں تو کہوں گا
کہ یہ بھرپور اقدام اٹھایا گیا۔ ویلڈن پاکستان!
ISAFکیلئے تمام ضروری سامان کی ترسیل کے رُک جانے سے ظاہر ہے کہ نیٹو افواج
کو دشواری تو بہت ہوئی ہوگی مگر ان کے ترجمان نے کبھی اس کی تصدیق نہیں کی
۔ظاہر ہے کہ دوسرے راستوں سے ترسیل تو ہو رہی ہوگی مگر پاکستان کے راستے اس
ترسیل سے انہیں سستا روٹ اور مختصر دورانیہ والے راستے میسر تھے، اگر دوسرے
راستوں سے ان کے لئے تمام سامان کی سپلائی اتنی آسان ہوتی تو کیا امریکہ
مسلسل پاکستان کے راستے اس کی بحالی کیلئے مذاکرات در مذاکرات کرتا ۔ کیا
پاکستان پر امریکی دباﺅ میں مسلسل اضافہ یہاں کی عوام کو معلوم نہیں ہے
گوکہ امریکہ پاکستانی سرھدی راستوں سے امریکی اور دیگر ممالک کے افوجوں کے
لئے سامان رسد کی فراہمی میں بندش پر کھل کر اپنی تشویش اور پریشانی کا
اظہار نہیں کر رہی لیکن سپلائی لائن کی بحالی کیلئے مسلسل حکومتِ پاکستان
پر دباﺅ ڈال رہی ہے۔ اور جو 26 نومبر 2011۲ءسے لیکر 04 جولائی 2012ءتک
مسلسل پاکستان سے ڈائیلاگ کرنے کے بعد بالآخر "Sorry"جیسا لفظ کہنے پر
مجبور ہوا۔ گو کہ یہ پانچ لفظوں کا ملاپ ہوکر Sorryبن جاتا ہے اور بظاہر
بہت آسان ہے ان کو جوڑنا مگر امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کیلئے ان لفظوں کو
جوڑ کر پھر ادا کرنا اتنا آسان نہیں تھا مگر پھر بھی یہ سب کچھ کہا گیا اب
آپ ہی فیصلہ کریں کہ اگر دوسرے راستے آسانیاں فراہم کرتیں تو یہ سب کچھ
کرنے کی انہیں کیا ضرورت تھی؟
اس بندش سے افغانستان پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کبھی افغانستان سے
اسمگل ہوکر پیٹرول پاکستان آیا کرتا تھا مگر آج اس بندش کے بعد وہاں پیٹرول
کی فی لیٹر قیمت پاکستانی تقریباً ایک ہزار روپئے تک پہنچ گئی ہے۔ سپلائی
کی بندش کے بعد نیٹو فوجیوں نے اپنے تمام آپریشنز محدود کر دیئے ہیں اور
کچھ فوجی گروپ تو آپریشن ادھورا چھوڑ کر اپنے اپنے فوجی مرکز میں واپس جا
کر بیٹھ گئے ہیں۔ اس وقت ماہرین کی رائے کے مطابق ان کے لئے تیار بند خوراک
کی پیکٹوں کی بھی شدید کمی محسوس کی جا رہی ہے۔
کہتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات کی کہانی 60 سالوں پر محیط ہے، ان تعلقات کی
جڑیں ہمارے معاشرے میں بہت گہری ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ نقطہ نظر وہ
اختیار کیا جائے تو جذباتی نہ ہو بلکہ وسیع تر مفاد عامہ میں ہو اور فیصلے
بھی گراﺅنڈ ریئلاٹی دیکھ کر کی جائے ۔ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا
حصہ بننے کے بعد کتنے ہی فوجیوں کی شہادت ہو چکی ہے ، اور عام شہریوں کی تو
مرنے کی تعداد کے بارے میں کئی متضاد معلومات موجود ہیں جو ہم روزآنہ ہی
کسی نہ کسی اخبار میں پڑھتے رہتے ہیں۔ اب تو یہ یقین ہو چلا ہے کہ دہشت
گردی کی یہ جنگ پورے ملک سے ہوتے ہوئے کراچی تک پہنچ گئی ہے۔ ہمارے ملک میں
نسلی اور لسانی تضادات بہت شدید ہو چکے ہیں۔ آج ہم ایک پاکستانی اور ایک
مسلمان نہیں رہے۔ آج کوئی سندھی ہے تو کوئی پنجابی، کوئی مہاجر ہے تو کوئی
پختون، کوئی سرائیکی ہے تو کوئی کشمیری، کوئی ہزارے وال ہے تو کوئی گلگتی
اور نہ جانے کیا کیا ہم مستقبل میں بن جائیں گے اس کا اندازہ تو وقت آنے پر
ہی ہوگا۔ مگر ایک بات تو حقیقت ہے کہ جس کسی نے بھی یہ مضموم کوشش کی ہے
ہمیں بانٹنے کی وہ بہت حد تک اپنی کوشش میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اس لئے قوم
سے گذارش ہے کہ وہ اب بھی ناپاک عزائم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے صرف اور
صرف پاکستانی بن جائیں۔ تاکہ ہمارے ملک پر اور ہم پر کوئی میلی آنکھ نہ رکھ
سکے۔
ہزاروں کی تعداد میں رُکے ہوئے کنٹینرز اب اپنی اپنی منزلِ مقصود کی جانے
رواں دواں ہو رہی ہیں جن میں نیٹوں افواج کی خوارک، اسلحہ ، بم، پیٹرول،
ڈیزل، پینے کا پانی یعنی منرل واٹر، اور دوسرے اقسام کی پانی بھی شامل ہیں
، اور پھر جانے کیا کیا ہوگا ، عنقریب منزلِ مقصود تک پہنچا دی جائیں گی
اور پھر ان کا استعمال بھی شروع ہو جائے گا۔ملک کی کئی قد آور سیاسی جماتوں
نے تو اس بحالی کے خلاف گھیراﺅ، لانگ مارچ، دھرنے کا پروگرام بھی ترتیب دے
دیا ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کہاں تک کامیاب ہوتا ہے اور کمند کہاں
جڑتی یا ٹوٹتی ہے۔
آج دنیا میں ایک بات تو اٹل حقیقت کی طرح مانی جانے لگی ہے کہ محاذ آرائی
اور ضد کی سیاست نہیں چل سکتی اور مذاکرات اور مصالحت کی سیاست ہی کامیابی
کی ضامن ہے۔ اور ویسے بھی باشعور عوام سب کچھ اپنے آنکھوں سے اپنے ملک میں
مفاہمت، مصالحت کی سیاست پچھلے ساڑھے چار سالوں سے دیکھ دیکھ کر مانوس ہو
چکی ہیں۔ویسے بھی Sorryکر لیا گیا ہے اور سوری کہنا بہت آسان ہوتا ہے اسی
لئے ہمارے ملک میں اکثر و بیشتر یہ جملہ کہا اور سنا جاتا ہے بلکہ اب تو یہ
جملہ محارہ کے طور پر استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے کہ:
انگریز مَر گئے اور Sorryچھوڑ گئے۔ |