گزشتہ دنوں پاکستان کے معروف
صحافی نجم سیٹھی نے ” ناکام ریاست“ کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا
کہ جس وجہ سے ملک اب تک ناکام ریاست نہیں وہ بیرون ملک پاکستانیوں کی ہر
سال 30ارب ڈالر کی بھیجی جانے والی خطیر رقم ،زرعی پیداوار اور سول نظام کا
جاری رہنا ہے۔ملک میں ان دنوں دوہری شہریت کا معاملہ بھی زیر بحث ہے لیکن
ہمارا آج کا موضوع بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستانی سفارت خانوں سے
متعلق شکایات اور عملے کے ناروا سلوک سے متعلق ہے۔برطانیہ میں تقریبا دس
لاکھ پاکستانی بستے ہیںجبکہ تعلیم کی غرض سے ہر سال برطانیہ جانے والے
سٹوڈنٹس کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ان دس لاکھ میں سے تقریبا سات لاکھ
متنازعہ ریاست جموں و کشمیر تعلق رکھتے ہیں۔ یوں تو عشروں سے بیرون ملک
قائم پاکستانی سفارت خانوں کی ناقص کارکردگی سے متعلق شکایات سامنے آتی رہی
ہیں تاہم اب بالخصوص برطانیہ میں قائم پاکستان ایمبسی ،اس سے ملحقہ قونصلیٹ
آفس سے متعلق شکایات میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔برطانیہ میں مستقل مقیم اور
عارضی طور مقیم سبھی پاکستانی حلقے ایمبسی اور قونصلیٹ کے غیر مناسب رویئے
سے نالاں اور حیران ہیں کہ اس صورتحال کا حکومت پاکستان نوٹس کیوں نہیں
لیتی۔
آج سے چند سال پہلے مشرف دور کی بات ہے کہ راولپنڈی میں ایک انتظامی افسر
سے ملاقات ہوئی۔چند دنوں بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی
پوسٹنگ ایک افریقی ملک میںقائم پاکستانی سفارت خانے میں ہونے کی خبر
سنائی۔ایک اور صاحب نے ان سے کہا کہ کسی یورپی ملک میں پوسٹنگ کرانی
تھی،کدھر افریقی ملک جا رہے ہو، اس پر اس افسر نے جواب دیا کہ ” میں اپنی
بیوی کے زیور بیچ کر،عزیز و اقارب سے قرضے لیکر بمشکل اتنی ہی رقم کا
انتظام کر سکا کہ اس افریقی ملک میں اپنی پوسٹنگ کراسکوں، یورپی ملک
کے”ریٹس“ تو ا تنے ہائی ہیں کہ میں اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔“یوں یہ قابل
فہم ہے کہ بیرون ملک قائم پاکستانی سفارت خانوں میں سفارش،نوازش اور رشوت
کی بنیاد پر بھی تقرریاں ہوتی ہیں اور ”ان بیچاروں“ کو اپنی تقرری کے گراں
اخراجات پورے کرنے کے علاوہ کمائی بھی کرنا ہوتی ہیں۔بات در اصل یہ ہے کہ
برطانیہ رہنے والے پاکستانی برطانیہ کے ”انسانی معاشرے“ کے عادی ہو جاتے
ہیں اور پھر جب انہیں پاکستانی سسٹم سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ جنوب ایشیائی”
لوازمات“ اور چودھراہٹ پر مبنی روئیہ دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں برطانیہ میں مقیم کئی دوستوں،عزیزوں نے میری توجہ برطانیہ میں
قائم پاکستان ایمبسی کی اس صورتحال کی جانب مبذول کرائی۔برطانیہ میں مقیم
پاکستانی افراد کے متعلق بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ رہتے برطانیہ میں
ہیں لیکن ان کی روحیں پاکستان میں ہوتی ہیں۔پاکستان کو درپیش سنگین ترین
صورتحال پر وہ پاکستان میں رہنے والے شہریوں سے زیادہ پریشان اور دکھی
ہیں۔میں خود ایسے سینکڑوں خاندانوں ،افراد کو جانتا ہوں جو بیرون ملک مقیم
اپنے دوست ،عزیز کی ارسال کردہ رقوم سے اپنی ”جان و سفید پوشی “ کو سلامت
رکھ پاتے ہیں اور یوں پاکستان کی معیشت بھی دیوالیہ ہونے سے بچ جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں برمنگھم میں مقیم کشمیریوں نے پاکستانی قونصلیٹ کی عمارت کے
سامنے قونصلیٹ کے عملے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔مظاہرے کے اہتما م کار
سید تصور حسین نقوی ایڈووکیٹ چیئرمین کشمیر اوورسیزالائنیس فورم کے مطابق
احتجاجی مظاہرہ کا مقصد پاکستان قونصلیٹ کے ارباب اختیار کی جانب سے
کمیونٹی کے ساتھ امتیازی اور نامناسب رویہ رکھنے ، بدعنوانی اور رشوت خوری
کا بازار گرم کرنے اور پاسپورٹ اور نادرا کارڈ کےلئے درپیش مشکلات کے ازالے
اور نوکر شاہی کے خلاف بھر پور آواز بلند کرنا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ
قونصلیٹ جنرل کاہمیں میڈیا کے سامنے وطن دشمن قرار دینا ہمارے جذبہ حب
الوطنی پر شک کرنا ہے نہایت قابل افسوس اور قابل مذمت ہے ۔انہوں نے کہا کہ
بار ہا حکام بالاکی اس مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروائی لیکن صورتحال بہتر
ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آئی ۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ برطانیہ سمیت دنیا بھر کے پاکستانی سفارتخانوں میں
کشمیر ڈیسک قائم کیے جائیں تاکہ بلخصوص کشمیری تارکین وطن کے ساتھ امتیازی
سلوک کا خاتمہ ہوسکے اور ان کے مسائل حل ہوسکیں برطانیہ میں اس وقت دس لاکھ
پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز رہ رہے ہیں جن میں سے 75% کشمیری کمیونٹی سے ہیں
جبکہ پاکستان کو ایک خطیر رقم زر مبادلہ کی صورت میں بھیجتے ہیں مگر ہمارے
ساتھ پاکستانی افسران کا روئیہ سرد مہری کا ہے۔کشمیریوں کو دوسرے درجہ کا
شہری سمجھ کر اچھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ان کا رویہ آقا اور غلام کا سا
ہے۔مگر انہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ ہم آزاد ریاست جموں وکشمیرکے باشندے
ہیں، پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کی رو سے ہمیں سفری دستاویزات دینے کا
پابند ہے اور اس کی وہ فیس لیتا ہے کشمیریوں پر کوئی احسان نہیں کررہا
کشمیری ایک باشعور قوم ہے اورکشمیری پاکستان کے خیر خواہ ہیں۔ ان کے دل
پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر کوئی بھیڑ بکریاں نہیں کہ جس کا جو جی میں
آئے ویسا ہی کرے بیرون ملک قائم سفارتخانے ،ہائی کمیشن اور قونصل خانے اسی
لئے ہوتے ہیں کہ لوگوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ کریں اور انہیں ہر ممکن
سہولت دیں انہوں نے مزید کہا کہ برطانیہ میں سات لاکھ سے زائدکشمیریوں کا
کوئی پرسان حال نہیں اور پاکستانی ہائی کمیشن لندن سمیت کسی بھی قونصل خانہ
میں کوئی کشمیری نژاد ہائی کمشنر یا سفیر تعینات نہیں جو کشمیریوں کو درپیش
مشکلات ومصائب کو سمجھ سکے ۔ پاکستانی حکام اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتے ہیں
اور کشمیری کمیونٹی کو اپنی رعایا مگر وہ جان لیں کہ کشمیریوں نے اپنی
آزادی ،خود مختاری اور انا کے لئے اپنی زندہ کھالیں تک کھنچوالی تھیں مگر
ظالم سماج کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا تھا ۔ اس وقت جموںوکشمیر ایک
متنازعہ خطہ ہے اور کشمیریوں کا بیرون ملک اپنا کوئی سفارتخانہ قائم نہیں
اسی وجہ سے پاکستانی حکام اپنی من مانی کر رہے اور کشمیریوں کو تنگ کر رہے
ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے پاکستان کو سلامت ،روشن زرخیز اور خوشحال
دیکھنے کےلئے اپنی جانی قربانیاں دیں جبکہ منگلا ڈیم کی صورت میں اپنے باپ
دادا کی قبروں پر پانی چڑھایا اور اپنا گھر بار ،زمینیں اور جائیدادیں چھوڑ
دیں ۔کشمیریوں نے کل بھی پاکستان کی خاطر قربانیاں دیں اور آج بھی دینے کو
تیار ہیں ۔آج پاکستانی قونصل خانہ کشمیریوں کو نشانہ بنا رہا ہے ، نوکر
شاہی تنگ کررہی ہے اور ہم اس کھلے تضاد اور بدعنوانی کے خلاف اپنا احتجاج
ریکارڈ کروا رہے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ برمنگھم قونصلیٹ کے سامنے یہ
احتجاج کا پہلا مرحلہ تھا اور اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دوسرے مرحلے میں
قونصل جنرل برمنگھم اور انکے عملے کے رویوں کے خلاف پاکستانی ہائی کمیشن
لندن کے سامنے مظاہرہ کیا جائے گا انہوں نے کہا کہ ہماری قانونی ٹیم اس
سارے معاملے کا جائزہ لے رہی ہے اور جلد ہی قونصل جنرل برمنگھم کو قانونی
نوٹس بھی بھیجا جائے گا ۔
درج بالا خیالات و جذبات سے واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستانی ایمبسی کے غیر
مناسب روئیے کے باعث مملکت پاکستان کے وسیع تر مفادات کو حکومت پاکستان کی
طرف سے کس طرح نظر انداز کرتے ہوئے نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔پاکستانیوں کو
حکمرانوں کی عوام و ملک دشمن پالیسیوں سے اتنا عاجز کیا جا رہا ہے کہ وہ
مملکت کے خلاف روئیہ اختیار کر لیں۔بیرون ملک پاکستان کے” بلا تنخواہ
سفیروں“ کی مشکلات اور جذبات کا تنخواہ دار سفیروں کو احساس کرنا چاہئے۔
صدر ،وزیر اعظم،وزارت خارجہ کی ذمہ داری ہے کہ بیرون ملک بالخصوص برطانیہ
میں مقیم پاکستانیوں کی ایمبسی سے متعلق شکایات کا کا سخت نوٹس لیا جائے۔ |